مسئلہ نئی حلقہ بندیوں کا

سندھ کابینہ کے فیصلے کے مطابق 26 ستمبر 2013 سے پورے صوبے میں وارڈز، یونین کونسلز اور ٹاؤنز۔۔۔


Shabbir Ahmed Arman October 28, 2013
[email protected]

سندھ کابینہ کے فیصلے کے مطابق 26 ستمبر 2013 سے پورے صوبے میں وارڈز، یونین کونسلز اور ٹاؤنز کی نئی حلقہ بندیوں کا کام جاری رہا جوحکومتی اطلاع کے مطابق بہ حسن و خوبی مکمل کرلیا گیا ہے ۔جب کہ سندھ حکومت نے کہا ہے کہ وہ بلدیاتی الیکشن کے لیے تیار ہے۔قبل ازیں متعلقہ ڈپٹی کمشنرز کو حلقہ بندیوں کے اختیارات دیے گئے ۔ ڈپٹی کمشنرز نئی حلقہ بندیاں14 دنوں میں حتمی شکل دیں جس کے بعد 7 روز کے اندر متعلقہ کمشنرز کو ان حلقہ بندیوں کے حوالے سے اعتراضات یا اپیلیں جمع کرائی جاسکتی ہیں اور متعلقہ کمشنرز آیندہ 7 روز میں ان کا فیصلہ کریں گے۔ اس طرح حلقہ بندیوں کا عمل مجموعی طور پر 28 دنوں پر محیط ہوگا۔

خیال رہے کہ صوبے میں بلدیاتی حلقوں کی نئی حد بندی 1998 کی مردم شماری کی بنیاد پر کی جارہی رہیں، تاہم اگر ضروری سمجھا گیا تو آبادی میں 20 فیصد اضافے کو مدنظر رکھنے کا امکان ہے۔ ادھر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے سندھ میں نئی حلقہ بندیوں پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کو خط ارسال کردیا ۔ خط میں وزیر اعلیٰ سندھ سے اس فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی استدعا کی گئی اور وزیر اعلیٰ سندھ کو تجویز دی کہ سندھ میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے سندھ اسمبلی میں موجود تمام پارلیمانی جماعتوں اور سیاسی قوتوں کا اجلاس طلب کیا جائے، اس اجلاس میں نئی حلقہ بندیوں کے حوالے سے مشاورت کے بعد پالیسی تشکیل دی جائے، حکومت تمام ڈپٹی کمشنرز کو احکامات جاری کرے کہ وہ اپنے ضلع میں نئی حلقہ بندیاں کرتے وقت منتخب عوامی نمایندوں سے رابطے میں رہیں تاکہ شفاف طریقے سے نئی حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہوسکے، خواہشات کی بنیاد پر فیصلے نہیں ہوتے، اگر ہمارے تحفظات دور نہ کیے گئے تو ہم تمام آئینی، قانونی اور جمہوری راستے اختیار کریں گے۔ اسی طرح مسلم لیگ فنکشنل نے صوبے میں بلدیاتی انتخابات کے لیے نئی حلقہ بندیوں کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کررکھا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ فنکشنل لیگ بلدیاتی انتخابات میں حصہ لے گی۔

یاد رہے کہ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری اپنے حکم نامے میں کہہ چکا ہے کہ ''کراچی میں کثیر اللسانی انتخابی حلقہ بندیاں تشکیل دی جائیں'' 1998 کی قومی مردم شماری کے مطابق کراچی کی کل آبادی 98,20,700 ہے۔(واضح رہے کہ جس میں 8822070 کی آبادی شہری حکومت کا حصہ نہیں جب کہ 1009630 کی آبادی کنٹونمنٹ بورڈ کے حصے میں شامل ہے) یہ بھی یاد رہے کہ 1998 کی قومی مردم شماری کے نتائج کو قومی رہنماؤں اور سیاسی اور جماعتوں نے مسترد کیا ہوا ہے۔ غیرسرکاری اعدادوشمار کے مطابق کراچی کی آبادی 2001 میں 10261819 بنتی ہے۔ اب غیر سرکاری طور پر کراچی کی آبادی 2 کروڑ سے زائد بتائی جاتی ہے۔ کیا حقیقت اور کیا مبالغہ آرائی؟ کراچی کی درست آبادی کا تعین آزاد و خودمختار اور غیر جانبدارانہ قومی مردم شماری میں ہی کیا جاسکتا ہے۔

یاد رہے کہ کراچی سٹی گورنمنٹ کے لیے نئی حد بندیوں کی منظور سندھ کابینہ نے 30 اپریل 2001 کو دی جب کہ نوٹیفکیشن اس وقت کے گورنر سندھ میاں محمد سومرو (جو بعد میں سینیٹ کے چیئرمین بنے تھے) نے 21 اور 22 مئی 2001 کی درمیانی شب کو جاری کیا تھا۔ جس کے تحت کراچی کو 18 ٹاؤنز کونسلز اور 178 یونین کونسلز میں تقسیم کیا گیا اور یہ تین سطحی three tiers شہری حکومت کہلایا۔ اس طرح کراچی کے پانچوں اضلاع اور 26 سب ڈویژن ختم کردیے گئے تھے۔

اس وقت کی حکومت سندھ نے کراچی میں نئی حلقہ بندیوں پر اعتراضات طلب کیے تھے، اس ضمن میں 5 مئی 2001 کو پریس کو ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جس کے مطابق مذکورہ نوٹیفکیشن کی اشاعت کے 5 روز کے اندر شہریوں کو اپنے اعتراضات سینئر ممبر بورڈ آف ریونیو سندھ کے پاس جمع کرانے کو کہا گیا تھا جس کے بعد سینئر ممبر بی او آر نے اپنے ممبران کے ہمراہ شہریوں کے اعتراضات سنے، کچھ کو دور کرنے کے بعد اپنے فیصلے سے 7 یوم کے اندر حکومت سندھ کو آگاہ کیا تھا جس کی تفصیلات اس وقت کے اخبارات میں شایع کرائی گئی تھیں، جس سے یہ ظاہر ہوا تھا کہ سب سے زیادہ زیادہ اعتراضات جو مسترد ہوئے اور سب سے کم اعتراضات قبول ہوئے تھے، ان اعتراضات کا تعلق ضلع جنوبی اور ضلع ملیر سے تھا، جو مسترد کردیے گئے تھے۔ ضلع جنوبی میں لیاری کا علاقہ بھی شامل ہے، ان دونوں اضلاع میں سندھ میں برسراقتدار سیاسی جماعت پی پی پی کی اکثریت رہی ہے۔

اول یہ کہ 1998 کی قومی مردم شماری میں لیاری کی آبادی کم دکھائی گئی اس پر مستزاد یہ کہ نئے ضلعی نظام کے تحت جو نئی حلقہ بندیاں کی گئیں اس میں لیاری کے قدیم علاقوں کو ظالمانہ طور پر لیاری سے الگ کرکے صدر ٹاؤن میں شامل کیا گیا جو آج بھی صدر ٹاؤن کا حصہ نہیں، جن میں نیو کمہارواڑہ، نیپیئر پولیس کوارٹرز، پرانا حاجی کیمپ، جناح آباد (کچھ حصے)، عثمان آباد، بادشاہی کمپاؤنڈ، حسن لشکری ولیج، دھوبی گھاٹ، لی مارکیٹ کے علاقے شامل نہیں اس طرح لیاری کا حدود اربع بھی کاٹ کر کم کردیا گیا ہے، لامحالہ لیاری کی آبادی میں مزید کمی واقع ہوگئی ہے۔ اس وقت باقی ماندہ لیاری کی آبادی 607992 ہے اگر مذکورہ بالا علاقوں کی آبادی کو شامل کیا جائے تو یہ آبادی 982070 بنتی ہے۔

ورنہ دیگر غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق لیاری کی تقسیم سے قبل لیاری کی آبادی 10 لاکھ سے زائد شمار کی جاتی ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو علاقے لیاری سے کاٹ کر صدر ٹاؤن میں ضم کیے گئے ہیں تقریباً پوری پٹی آمدنی والی ہے یعنی انکم زون ہے۔ اس لحاظ سے لیاری کی آبادی اور لیاری کی زمین کے ساتھ ساتھ لیاری کی آمدنی بھی چھین لی گئی ہے اور کوئی اف کرنے والا نہیں ہے۔ نتیجتاً ٹاؤن بننے کے شروع دنوں سے آج تک لیاری ایک غریب ٹاؤن ہے جہاں اکثر مالی بحران رہتا ہے۔ ایک اور زیادتی لیاری والوں کے ساتھ یہ ہونے والی تھی کہ ارباب اختیار لیاری کو اولڈ ٹاؤن کا نام دینا چاہتے تھے جس کی تشہیر بھی کی گئی تھی اس ضمن میں راقم الحروف سمیت لیاری کے ممتاز سماجی رہنما شیر محمد رئیس نے اعتراض داخل کیا اور اپیل کی کہ لیاری کا نام اولڈ ٹاؤن کے بجائے ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا جائے بعد ازاں ارباب اختیار نے لیاری کا نام ''لیاری ٹاؤن'' رکھ دیا۔

لیاری ایک مثال ہے جو 2001 کی نئی حلقہ بندیوں کا شکار رہا۔ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے متعلق تفصیل کے ساتھ راقم کا مضمون 12 اپریل 2012 کو ایکسپریس میں شایع ہوا جس میں یہ بات زور دے کر کہی گئی تھی کہ ''کل ملا کر 4156 ذمے داران کراچی کا بلدیاتی نظام چلاتے تھے اور یہ نظام عوامی سطح پر مقبولیت حاصل کرچکا تھا لیکن سیاسی لحاظ سے غیر منصفانہ بلدیاتی حلقہ بندیوں کی وجہ سے انتشار اور خلفشار کا باعث بنا رہا جس وجہ سے کراچی کے مضافاتی علاقے ترقیاتی کاموں سے محروم رہ گئے اور سینٹرل کراچی میں تاریخ ساز ترقیاتی کام ہوئے، اس طرح کراچی کی آبادی پسند و ناپسند کے دائرے میں رہی، جس وجہ سے امتیازی لسانیت سے احساس محرومی پیدا ہوا اور بالآخر شہر کراچی بدامنی کا مرکز رہا۔ حلقہ بندیاں جغرافیائی لحاظ سے نہیں بلکہ آبادی کو مدنظر رکھ کر کی جاتی ہے لیکن جنرل پرویز مشرف کی حکومت نے اپنے اتحادیوں کو مضبوط کرنے کے لیے آبادی کے بجائے جغرافیائی اصولوں کے تحت حلقہ بندیاں کرائیں۔

واضح رہے مذکورہ تجزیہ پچھلے سال سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کے مطابق کہ ''حکومت سندھ نے کراچی میں حلقہ بندیوں کی ازسر نو تشکیل کے سلسلے میں باضابطہ طور پر عمل درآمد شروع کردیا ہے'' کی خبر پر کیا تھا لیکن اس وقت اس خبر کو اتنی شہرت نہ ملی جو اب کراچی میں نئی حلقہ بندیوں والی خبر کو حاصل ہے۔ غالباً سیاسی وجوہات کی بنا پر اس وقت کی پی پی پی سندھ حکومت سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود کراچی میں نئی حلقہ بندیاں نہیں کرائی جاسکی۔ آج ایک مرتبہ پھر سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق صوبہ سندھ میں نئی حلقہ بندیوں کی بازگشت ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار اس پر جس طرح عمل درآمد ہوا ہے اس کی بنیاد پر بلدیاتی انتخابات ہوں گے یا پھر سیاسی مفاد میں اس آئینی ضرورت کو پس پشت ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں