بریسٹ کینسر کی بہتر تشخیص کے لیے نیا امیجنگ سسٹم متعارف
ڈیوئل اسکین میمو اسکوپ زیادہ گہرائی میں جاکر ٹھوس بافتوں میں موجود رسولی کا پتا لگاسکتا ہے
جدید ترین ٹیکنالوجی کے باوجود چھاتی کے سرطان (بریسٹ کینسر) کی شناخت اب بھی ایک مشکل عمل ہے لیکن اسے مزید بہتر بنانے کے لیے امریکی سائنس دانوں نے ایک بالکل نیا نظام بنایا ہے جس میں نئی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی ہے۔
یونیورسٹی آف بفیلو کے ماہرین نے ایک چھوٹا، تیز رفتار اور مؤثر آلہ بنایا ہے جسے انہوں نے 'ڈیوئل اسکین میمواسکوپ' کا نام دیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹھوس بافتوں (ٹشوز) کی گہرائی میں جاکر اندر کی تصویر کشی کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اسے روزیل پارک کینسر سینٹر اور ونڈ سونگ ریڈیالوجی کے تعاون سے بنایا ہے۔
اگرچہ بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے اب بھی میمو گرام مؤثر ترین آلہ ہے لیکن جن خواتین کے عضلات سخت اور دبیز ہوتے ہیں وہاں روایتی میمو گرام گہرائی میں جاکر مؤثر نہیں رہتا اور اندر بننے والی رسولی یا سرطانی پھوڑا نگاہوں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔
اس کا دوسرا طریقہ ایم آرآئی ہے جس میں خاص کیمیکل داخل کرکے ان کا رنگ دیکھا جاتا ہے تاہم کئی مریضوں میں کیمیکل تکلیف اور الرجی کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے برخلاف ڈیوئل اسکین میمو اسکوپ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ میموگرام کی ہی طرح کام کرتا ہے لیکن اس میں چھاتی کو زیادہ قوت سے بھینچا نہیں جاتا۔ یہ ٹیسٹ ہر طرح کی ریڈیائی اشعاع سے پاک ہے اور اس میں صوتی لہریں اور روشنی کی موجیں مل کر ایک تصویر بناتی ہیں۔ سائنس کی زبان میں اس عمل کو 'فوٹو اکوسٹک ٹومو گرافی' (photoacoustic tomography) کہا جاتا ہے۔
اس طرح بریسٹ کی گہرائی تک کی واضح تصویر حاصل ہوتی ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس جگہ رسولی ہوسکتی ہے۔ یہ سات سینٹی میٹر گہرائی تک کی تصویر فراہم کرتا ہے اور ملی میٹر جسامت تک کے ٹیومر بھی دکھاتا ہے یہاں تک کہ خون کی نالیاں بھی اس سے پوشیدہ نہیں رہتیں۔
اسے بعض ایسی خواتین پر آزمایا گیا جن کی چھاتیاں معمول سے زیادہ ٹھوس اور بڑی تھیں اور ان کی تصویر کشی میں نمایاں کامیابی ملی ہے لیکن اب بھی بڑے پیمانے پر اس کی آزمائش جاری ہے۔
یونیورسٹی آف بفیلو کے ماہرین نے ایک چھوٹا، تیز رفتار اور مؤثر آلہ بنایا ہے جسے انہوں نے 'ڈیوئل اسکین میمواسکوپ' کا نام دیا ہے۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ٹھوس بافتوں (ٹشوز) کی گہرائی میں جاکر اندر کی تصویر کشی کرتا ہے۔ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے اسے روزیل پارک کینسر سینٹر اور ونڈ سونگ ریڈیالوجی کے تعاون سے بنایا ہے۔
اس پر کام کرنے والے سینئر سائنس دان جن ژیا کہتے ہیں کہ اس میں روشنی اور الٹرا ساؤنڈ دونوں کو ہی استعمال کیا گیا ہے۔ توقع ہے کہ اس سے مرض کی شناخت بہتر ہوگی اور زندگیاں بچانے میں مدد مل سکے گی۔
اگرچہ بریسٹ کینسر کی تشخیص کے لیے اب بھی میمو گرام مؤثر ترین آلہ ہے لیکن جن خواتین کے عضلات سخت اور دبیز ہوتے ہیں وہاں روایتی میمو گرام گہرائی میں جاکر مؤثر نہیں رہتا اور اندر بننے والی رسولی یا سرطانی پھوڑا نگاہوں سے اوجھل ہی رہتا ہے۔
اس کا دوسرا طریقہ ایم آرآئی ہے جس میں خاص کیمیکل داخل کرکے ان کا رنگ دیکھا جاتا ہے تاہم کئی مریضوں میں کیمیکل تکلیف اور الرجی کی وجہ بنتا ہے۔ اس کے برخلاف ڈیوئل اسکین میمو اسکوپ بہت مؤثر ثابت ہوسکتا ہے۔
یہ میموگرام کی ہی طرح کام کرتا ہے لیکن اس میں چھاتی کو زیادہ قوت سے بھینچا نہیں جاتا۔ یہ ٹیسٹ ہر طرح کی ریڈیائی اشعاع سے پاک ہے اور اس میں صوتی لہریں اور روشنی کی موجیں مل کر ایک تصویر بناتی ہیں۔ سائنس کی زبان میں اس عمل کو 'فوٹو اکوسٹک ٹومو گرافی' (photoacoustic tomography) کہا جاتا ہے۔
اس طرح بریسٹ کی گہرائی تک کی واضح تصویر حاصل ہوتی ہے اور اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کس جگہ رسولی ہوسکتی ہے۔ یہ سات سینٹی میٹر گہرائی تک کی تصویر فراہم کرتا ہے اور ملی میٹر جسامت تک کے ٹیومر بھی دکھاتا ہے یہاں تک کہ خون کی نالیاں بھی اس سے پوشیدہ نہیں رہتیں۔
اسے بعض ایسی خواتین پر آزمایا گیا جن کی چھاتیاں معمول سے زیادہ ٹھوس اور بڑی تھیں اور ان کی تصویر کشی میں نمایاں کامیابی ملی ہے لیکن اب بھی بڑے پیمانے پر اس کی آزمائش جاری ہے۔