سندھ میں متوقع بلدیاتی انتخابات

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ وہ سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے۔


Muhammad Saeed Arain October 28, 2013

سندھ حکومت نے سپریم کورٹ کو یقین دلایا ہے کہ وہ سندھ میں 27 نومبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کو تیار ہے۔ وزیر اعلیٰ نے بھی الیکشن کمیشن کو بلدیاتی انتخابات کی تاریخ مقرر کرنے کا کہہ دیا ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم نے بھی کہا ہے کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی انتخابات سے نہیں بھاگ رہی۔ سندھ کے لیے وزیر اعظم کے معاون خصوصی اور فنکشنل لیگ کے صوبائی جنرل سیکریٹری امتیاز احمد شیخ نے کہا ہے کہ سندھ حکومت نے بلدیاتی انتخابات میں دھاندلی اور من مانی کے لیے سرکاری افسروں کے ذریعے صوبے میں من پسند حلقہ بندی کرالی ہے اور شکار پور اور سانگھڑ میں ڈپٹی کمشنروں کے ذریعے اپنی مرضی کے حلقے بنوا کر فنکشنل لیگ کے امیدواروں کو ہرانے کی منصوبہ بندی کرلی ہے اور پیپلز پارٹی کا ریکارڈ ہے کہ اس نے اپنی کسی بھی حکومت میں بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے اور اب بھی اگر سندھ میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو اس کا کریڈٹ بھی سپریم کورٹ کو جائے گا جس کی وجہ سے سندھ حکومت بلدیاتی انتخابات کرانے پر تیار ہوئی ہے۔

سندھ اسمبلی میں متحدہ دوسری اور فنکشنل لیگ تیسری بڑی پارٹی ہے جنھیں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے کوئی بھی اہمیت دی نہ دونوں پارٹیوں کی کوئی بات سنی اور نہ ہی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں دونوں پارٹیوں کو اعتماد میں لیا اور سندھ میں اپنی مرضی کا بلدیاتی نظام منظور کرواکر اور اپنی مرضی کے حلقے بنوا کر حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے تیار تو نظر آرہی ہے جب کہ متحدہ اور فنکشنل لیگ نے سندھ میں کی جانے والی حلقہ بندیاں مسترد کردی ہیں اور حکومتی من مانیوں کے خلاف عدلیہ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

متحدہ قومی موومنٹ کو کراچی و حیدر آباد میں کی جانے والی حلقہ بندیوں پر ہی نہیں بلکہ سندھ اسمبلی کے منظور کردہ بلدیاتی ایکٹ پر بھی شدید اعتراضات ہیں۔ حکومت نے کراچی میں متحدہ کی مخالفت کے باوجود پانچ اضلاع اور ڈی ایم سیز بحال رکھے ہیں اور ایک ضلع کونسل قائم کردی ہے جو کراچی ڈویژن کے دیہی علاقوں پر مشتمل ہے اور لیاری کو بھی ضلع بنانا چاہتی ہے جب کہ متحدہ کراچی پر مشتمل ایک ضلع اور کراچی میں پہلے جیسے 18 ٹاؤنز چاہتی ہے مگر حکومت یہ ماننے کو تیار نہیں کیونکہ سندھ حکومت اور پیپلز پارٹی کی اس سلسلے میں ترجیحات مختلف ہیں جس پر متحدہ کے تحفظات ہیں۔

قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں متحدہ کو بلاشبہ کراچی کے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے اور پی پی نے تو 11 مئی کے عام انتخابات میں کراچی سے 2008 ء میں حاصل کردہ اپنی کچھ نشستیں بھی گنوا دی ہیں اور پی پی کے پاس کراچی میں صرف لیاری کا مینڈیٹ رہ گیا ہے۔ کراچی میں جماعت اسلامی بھی سیاسی طاقت ضرور ہے مگر عام انتخابات میں جماعت کو کوئی مینڈیٹ نہیں ملا اور مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کو کراچی سے قومی اور سندھ اسمبلی میں نمایندگی حاصل ہے۔ ماضی میں کراچی کی نمایندگی کا جماعت اسلامی کو کراچی میں 1979 کے بلدیاتی نظام میں دو بار اور 2001 کے ضلعی نظام میں ایک بار بلدیاتی اقتدار حاصل ہوا تھا جب کہ متحدہ بھی کراچی سے دو بار بلدیاتی اقتدار حاصل کرچکی ہے مگر پیپلز پارٹی کو کبھی کراچی کا بلدیاتی اقتدار نہیں ملا البتہ کراچی کے دیہی علاقوں پر مشتمل ضلع کونسل میں پی پی کے چیئرمین ضرور منتخب ہوئے ہیں اس طرح کراچی کے شہری علاقوں نے ماضی میں ہمیشہ پیپلزپارٹی کو مسترد کیا ہے۔

پی پی کی گزشتہ حکومت میں سینیٹر فیصل رضا عابدی اور پی پی رہنما عبدالقادر پٹیل نے متعدد بار دعویٰ کیا کہ وہ بلدیاتی انتخابات میں اپنا میئر منتخب کرائیں گے مگر یہ قطعی ناممکن ہے کیونکہ کراچی کا شہری مینڈیٹ پی پی کو کبھی حاصل رہا ۔

کراچی کو کبھی پیپلز پارٹی نے اپنا بنانے کی کوشش نہیں کی اور اپنے چاروں ادوار میں بلدیہ عظمیٰ پر سرکاری ایڈمنسٹریٹروں کے ذریعے قابض رہی ہے۔ بعض حلقے کہتے ہیں کہ پی پی رہنماؤں نے کراچی کو کبھی اپنا نہیں سمجھا اور پی پی کے دور میں کبھی کراچی میں قابل دید ترقی نہیں ہوئی البتہ متحدہ اور جماعت اسلامی کے دور میں کراچی میں ریکارڈ تعمیر و ترقی ضرور ہوئی۔ یہ بھی الزام لگایا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت میں بعض گروہوں نے کراچی کی سرکاری زمینوں پر قبضے کیے اور قیمتی زمین کوڑیوں کے مول فروخت کی گئی اور پی پی دور میں کراچی کے لیے کبھی قابل ذکر فنڈز مختص ہوئے نہ فراہم کیے گئے۔

متحدہ کراچی میں بلدیاتی انتخاب کے بائیکاٹ کی غلطی کرچکی ہے اور وہ پی پی کے من پسند بلدیاتی نظام کی منظوری کے باوجود نومبر یا دسمبر میں ہونے والے متوقع بلدیاتی انتخابات میں بھرپور طور پر حصہ لے گی۔ حیدر آباد میں بھی حکومت نے اپنی من مانی سے قاسم آباد تعلقہ کو الگ کردیا ہے جو اب بلدیہ حیدر آباد کا حصہ نہیں رہے گا۔ ٹھٹھہ ضلع میں شیرازی اب بھی سیاسی قوت ہیں البتہ سجاول کو الگ ضلع بنا دیا گیا ہے۔ شکار پور ضلع میں پی پی کے پاس صرف گڑھی یٰسین اور خان پور کی دو صوبائی نشستیں ہیں باقی قومی اور صوبائی کے چار حلقے فنکشنل لیگ اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہیں اسی لیے شکار پور ضلع میں حکومت نے اپنی مرضی کی حلقہ بندیاں کرائی ہیں اور سانگھڑ ضلع میں بھی یہی ہوا ہے جہاں ضلع کی 9 نشستوں میں پیپلز پارٹی کے پاس صرف چار اور فنکشنل لیگ کے پاس 5 نشستیں ہیں۔ سانگھڑ اور شکار پور میں حلقہ بندی کو فنکشنل لیگ مسترد کرچکی ہے۔

سندھ کے جن اضلاع میں پی پی سیاسی طاقت ہے وہاں بھی پی پی نے اپنی مرضی کی حلقہ بندی کرالی ہے جس پر پی پی کے مخالفین کو سخت اعتراضات ہیں اور وہ اس سلسلے میں عدالت عالیہ گئے تو بلدیاتی انتخابات سندھ میں مزید تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں اور شاید پی پی حکومت بھی یہی چاہتی ہے تاکہ بلدیاتی انتخابات نہ ہوسکیں۔

ماضی میں کراچی میں ٹاؤن بناتے وقت ٹاؤنز کی غلط حلقہ بندی سیاسی مفادکے لیے ہوئی تھی جس سے لیاری اور گڈاپ ٹاؤن کے عوام کو 9 سال سخت پریشانی ہوئی تھی۔ بلدیاتی سہولیات کی فراہمی حکومت کا کام ہے مگر سیاسی مفاد کے لیے ہر دور میں غلط اور غیر حقیقی حلقہ بندیاں کی گئیں اور اب بھی یہی ہورہا ہے۔ کیا اس سیاسی کھیل کی سزا عوام کو بھگتنا ہوگی جس سے گریز کیا جانا چاہیے۔

الیکشن کمیشن نے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا ذمے دار چاروں صوبائی حکومتوں کو قرار دیا ہے اور غلط حلقہ بندیوں کی شکایات ہر جگہ سے ہورہی ہیں جو عدالت میں چیلنج ہونے سے بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا امکان بڑھ گیا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں