دل تو چارج ہو نہ سکا

پاکستان بننے سے قبل کی بات ہے، سننے میں تو بالکل کہانی جیسا لگتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک حکیم صاحب اپنی۔۔۔


Shehla Aijaz October 28, 2013
[email protected]

پاکستان بننے سے قبل کی بات ہے، سننے میں تو بالکل کہانی جیسا لگتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایک حکیم صاحب اپنی قابلیت اور علاج کی وجہ سے دور دور تک مشہور تھے خواتین کو وہ براہ راست نہیں دیکھتے تھے ان کے لیے ایک خاص طریقہ کار تھا یعنی خواتین باپردہ تانگوں میں قطار در قطار کھڑی ہوتی تھیں ان کی کلائیوں میں دھاگے کا ٹکڑا بندھا ہوتا تھا حکیم صاحب مریضہ کے ساتھ آنے والے سے نام پوچھتے اور دھاگہ پکڑتے گویا نبض چیک کرتے اور اس طرح وہ مرض تشخیص کرتے۔

صرف یہی نہیں بلکہ غیر منقسم ہندوستان میں بھی بہت سے قابل طبیب، جراح اور ڈاکٹر حضرات مشہور تھے جن کا طریقہ علاج آج کل کے جدید طریقہ علاج کے مقابلے میں خاصا دلچسپ تھا ۔وہ دور اتنا آسان نہ تھا جراثیم سے پاک کرنے (Sterilization) کا کوئی خاص طریقہ نہ تھا نہ جراثیم کش ادویات ہوا کرتی تھیں اور نہ ہی انکیوبیٹرز۔ آج جو بھی کام ہورہا ہے وہ اسی دور کی ریسرچ پر مبنی ہے لیکن اس زمانے کے علاج کرنے والے اپنے کام میں ماہر اور اپنے کام سے محبت کرنے والے ہوتے تھے۔ انھیں پیسے بنانے سے زیادہ مریض کا مرض دور کرنے سے غرض تھی جب کہ آج کل کے اس دور میں بڑے بڑے نامی گرامی ڈاکٹرز کی فیسیں تو پہلے ہی بھاری ہیں لیکن عام ڈاکٹر حضرات کی فیسیں بھی کچھ کم نہیں صرف تشخیص کرکے نسخے پر مہنگی مہنگی باہر کی دوائیاں لکھ دی جاتی ہیں کوئی نہ کوئی تو اثر کرے گی ہی۔

ایک انتہائی تجربہ کار جنرل فزیشن نے اس بارے میں بتایا کہ ہمارے یہاں ایک نیا فیشن چل نکلا ہے جسے اسپیشلسٹ کا نام دیا جاتا ہے یعنی جلد کے اسپیشلسٹ، دل کے اسپیشلسٹ، فلاں کے اسپیشلسٹ اور فلاں کے اسپیشلسٹ۔ حالانکہ پہلے زمانے میں جنرل فزیشن اگر ضروری سمجھے تو وہ اسے اسپیشلسٹ کی جانب رجوع کرنے کو کہتا تھا اور نسخے میں ساتھ اپنے ریمارکس بھی لکھ کر دیتا تھا تاکہ ماہر ڈاکٹر سمجھ جائے کہ یہ اسٹیپ ہوچکے ہیں اب اس کے آگے کے اسٹیپ دیکھنے ہیں اور کیا کیا ٹیسٹ کروانے ہیں، لیکن یہاں تو کاروبار کھلا ہے علاج کرنا اب عبادت نہیں تجارت بن چکا ہے۔

یہ حقیقت ہی ہے کہ علاج کرنا یعنی ڈاکٹری جیسے مقدس پیشے کو اب پیسے بنانے کی مشین سمجھا جاتا ہے خاص کر پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹری کے نام پر جو لوٹ مار مچی ہوئی ہے اسے سن کر بھی لرزہ طاری ہوجاتا ہے پاکستان جیسے غریب ملک میں جہاں پہلے ہی ایک عام آدمی کے لیے علاج کی سہولتیں انتہائی پست درجے کی ہیں اس پر اس طرح کے عطائی ڈاکٹرز نے بھی خوب رنگ جمالیا ہے اس کی وجہ سرکاری اسپتالوں اور ڈسپنسریوں کا نہ ہونا ہے اگر صرف کراچی کی مثال لی جائے تو شہر بھر میں تین بڑے سرکاری اسپتال یعنی سول اسپتال، جناح اسپتال اور عباسی شہید اسپتال ہیں جب کہ شہر بھر کی آبادی دن بدن بڑھتی ہی جارہی ہے۔

چین میں جاری کردہ عالمی ادارہ صحت کی دو رپورٹوں کے مطابق دنیا میں پچھلے تیس سال کے مقابلے میں طبی سہولتوں اور ان کی عوام تک پہنچ کے سلسلے میں عدم مساوات بڑھ گئی ہے یعنی ان کی فراہمی میں فرق کم ہونے کی بجائے بڑھ گیا ہے۔ اس رپورٹ میں عدم مساوات کے اصل اسباب کو جاننے سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے، جس میں لوگوں کی روزمرہ کی زندگی کے معیار کی بہتری کے لیے عملی اقدامات پر زور دیا گیا۔ اس رپورٹ میں بیماریوں کی روک تھام کے لیے اقدامات کو بھی ترجیح دی گئی اور یہ بھی کہ حکمت کی ابتدائی سطح پر توجہ دیتے ہوئے ان باتوں کو بھی دیکھا جائے جن سے امراض کا تدارک ہوسکے یعنی حفاظتی اقدامات اور علاج معالجے کی سہولیات کی فراہمی سے دنیا بھر میں امراض پر قابو پایا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں علاج کی ناکافی سہولیات کی وجہ سے ناتجربہ کار بغیر کسی سند کے ڈاکٹرز اور طبیب اپنا دھندہ چمکا رہے ہیں اور شکار بن رہے ہیں وہ معصوم لوگ جن کے پاس ان کے اپنے علاج میں کوئی سند یافتہ مستند ڈاکٹر یا حکیم دستیاب نہیں، ہم اکثر ایسے میٹرنٹی ہومز اور نجی کلینکوں کے بارے میں سنتے رہتے ہیں جن کی اپنی مہارت معصوم عوام کو موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہے۔

آج کل ہومیوپیتھک علاج بھی عوام میں خاصا مقبول ہورہا ہے لیکن کچھ ناتجربہ کار اور طالب علم بھی اسے باقاعدہ اختیار کرکے عوام پر اپنا ہاتھ صاف کر رہے ہیں کس مریض کو کس درجے کی دوائی دینی ہے یہ بات تجربے سے ہی آتی ہے لیکن بنا تجربے محض اپنی عقل کے تحت علاج کرنا نامعقولیت ہے۔

یہ الگ بات ہے کہ خدا جس کے ہاتھ میں شفا دے تو اسے خدا کی جانب سے تحفہ سمجھ کر بھی احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے ایک معروف ہومیوپیتھک کالج میں پڑھانے والے مستند ڈاکٹر نے اس بارے میں اپنے تاثرات یوں بیان کیے کہ بہت سے لوگ محض وہم کا شکار ہوکر بھی علاج کرانے آجاتے ہیں اور ایسے بہت سے لوگ جنھیں ہم جان لیتے ہیں کہ ان کا علاج ان دوائیوں کے بجائے کسی فروٹ کے کھانے، زیادہ پانی پینے یا ورزش کرنے سے باآسانی ہوسکتا ہے تو اسے ہم صرف دکھاوے کے لیے دوائی دیتے ہیں اور ہدایت بھی دیتے ہیں کہ یہ اس دوائی کے ساتھ ضرور کھانا ہے۔

کیونکہ اگر ہم صرف یہ کہہ دیں کہ آپ کو دوائی کی ضرورت نہیں ہے آپ صرف ایک آڑو روزانہ کھائیے تو وہ آڑو کھانے پر توجہ نہیں دے گا لیکن اگر ہم دوائی بھی ساتھ دیں اور فروٹ یا کوئی سبزی جو اس مرض کا تیر بہ ہدف نسخہ ہے کھانے کو کہیں تو اس پر نفسیاتی دباؤ پڑتا ہے اور وہ ضرور کھاتا ہے کہ یہ دوائی کے لیے ضروری ہے جب کہ بہت سے غیر مستند ڈاکٹرز محض ادویات پر ہی بھروسہ کرتے ہیں جب کہ قدرت نے دنیا میں دوائیوں کے علاوہ بھی ایسے بہت سے قدرتی اجزاء پیدا کیے جس کو اس کی اصل شکل میں کھاکر بھی صحت یاب ہوا جاسکتا ہے یہاں تک کہ سادے پانی میں بھی قدرت نے شفا رکھی ہے سبحان اللہ!

کچھ عرصہ قبل کی بات ہے جب ایک اتائی ڈاکٹر نے ایک دل کے مریض جس کے دل میں پیس میکر لگا تھا اپنی عقل کے مطابق اسے موبائل فون کی بیٹری کی طرح چارج کرنے کی کوشش کی نتیجتاً ان صاحب کا دل تو چارج ہو نہ سکا اور وہ داغ مفارقت دے گئے۔ ایسے اتائی ڈاکٹروں سے خدا ہی بچائے جو ہمارے ملک کے پسماندہ علاقوں میں اپنے پنجے جمائے ہوئے ہیں۔ ایسے ڈاکٹرز کے خلاف خدا جانے کوئی کارروائی ہوتی بھی ہے یا نہیں لیکن خاص کر میٹرنٹی ہومز میں مستند ڈاکٹرز کی کمی ہوتی ہے اور پسماندہ علاقوں میں تو مڈوائف اور دائیاں اپنے تجربے کے کمالات دکھاتی ہیں یہ درست ہے کہ ان کے تجربات اپنی جگہ اہم ہوتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی اور بہت سے اہم مسائل ہوتے ہیں جو بڑھ کر انسانی جان ہضم کرلیتے ہیں۔ کراچی شہر میں امن وامان کے مسائل اب اتنے بڑھ چکے ہیں کہ پسماندہ علاقوں میں ڈاکٹرز پریکٹس کرتے گھبراتے ہیں لہٰذا ایسے علاقوں کے رہائشی یا قرب و جوار کے لوگ جو کمپاؤنڈر یا اس طرح کی ملازمت کرتے رہے فائدہ اٹھاتے ہیں اور باقاعدہ ڈاکٹرز بن کر اپنے جیسے تیسے تجربے کی بنیاد پر دوائیاں بانٹ رہے ہیں اور اس کے عوض فیسیں وصول کر تے ہیں۔

پینے کے لیے صاف پانی، متوازن غذا، آلودگی سے پاک ماحول یہ ہے خواب ہم جیسے دیوانوں کا لیکن امید پر دنیا قائم ہے، ہمیں امید ہے کہ آنے والے وقتوں میں ہماری نسلوں کو پینے کے لیے صاف پانی بھی ملے گا، شرح آمدنی بھی اتنی آگے بڑھ جائے گی کہ لوگ باآسانی متوازن غذا برداشت کرسکیں گے اور آلودگی سے پاک ماحول ملے گا تاکہ عوام صحت مند ماحول میں سانس لے سکیں تاکہ ہم بیماریوں اور اس کے تدارک سے زیادہ ایک صاف اور صحتمند ماحول میں خدا کے بنائے اصولوں کے تحت زندگی گزارنے پر توجہ دے سکیں ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں