وحشی بن حرب سے ارنائوڈ فانڈورن تک
حق و باطل کے معرکہ اول ’’جنگ بدر‘‘ میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتوحات سے نوازا تھا۔ تمام فتوحات کے باوجود۔۔۔
حق و باطل کے معرکہ اول ''جنگ بدر'' میں اﷲ تعالیٰ نے مسلمانوں کو عظیم فتوحات سے نوازا تھا۔ تمام فتوحات کے باوجود آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم بہت رنجیدہ تھے کیونکہ اس جنگ میں آپ علیہ السلام کے چچا سیدنا حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو ایک غلام وحشی بن حرب نے انتہائی سفاکانہ طریقے سے شہید کردیا تھا۔ وحشی بن حرب نہیں جانتا تھا کہ اس نے کس عظیم ہستی کو تکلیف دی ہے۔ خدا کی قدرت کہ حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے والے وحشی کے دل میں اسلام سرائیت کرنے لگا، جب اس نے اسلام اور نبی علیہ السلام کی ذات اقدس کی عظمت کو پہچانا تو اسلام قبول کرلیا۔
وہ فتح مکہ کے بعد آپ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے کیے پر شرمندگی کا اظہار کیا۔ اس کے بعد سے وحشی بن حرب نے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کرنے پر کفارہ ادا کرنے کی ٹھانی۔ وحشی بن حرب کو ہر وقت یہی فکر دامن گیر رہتی تھی۔ اسی دوران مسیلمہ بن کذاب نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کردیا، جو آپ ﷺ کے لیے انتہائی باعث تکلیف تھا۔ اپنے کفارے کی ادائیگی کا وحشی کے پاس یہ اچھا موقع تھا۔ وحشی نے سوچا کہ میں نے مسلمانوں میں سے ایک بہترین انسان کو شہید کرکے آپ ﷺ کو بہت زیادہ تکلیف دی ہے اگر آپ ﷺ کو تکلیف دینے والے بدترین انسان کو قتل کردوں تو ممکن ہے میرے گناہوں کا کفارہ ادا ہوجائے۔ اس وقت سب سے بدتر انسان مسیلمہ بن کذاب ہی تھا جس نے جھوٹی نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ وحشی بن حرب نے جس نیزے سے حضرت حمزہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کیا تھا اسی نیزے کے ساتھ مسیلمہ بن کذاب کو قتل کرکے اپنا کفارہ ادا کیا۔
مجھے وحشی بن حرب کا یہ واقعہ اس وقت یاد آیا جب میں نے یہ خبر پڑھی کہ گستاخانہ فلم 'فتنہ' کے شریک پروڈیوسر ''ارناؤڈ فانڈورن'' نے اسلام قبول کرلیا ہے اور اپنے گناہوں کے ازالے کے لیے اپنی پوری زندگی اسلام کی نشر و اشاعت کے لیے وقف کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ ارناؤڈ فانڈورن ہالینڈ کی بڑی سیاسی جماعت ''فریڈم پارٹی'' کے اہم رہنما اور سابق رکن پارلیمان تھے۔ اسلام کے خلاف بنائی جانے والی گستاخانہ فلم ''فتنہ'' میں ارناؤڈ فانڈورن کا مرکزی کردار تھا۔ اس فلم کو انٹرنیٹ پر اپ لوڈ کرنے پر اس فلم کے خلاف پاکستان سمیت پوری دنیا میں احتجاج اور جلاؤ، گھیراؤ کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا تھا اور اسی وجہ سے پاکستان میں یوٹیوب کو بند کرنا پڑا۔ ارناؤڈ فانڈورن کی پہچان اسلام دشمن شخصیت کے طور پر کی جاتی تھی۔
اس نے امن و سلامتی کے مذہب کے خلاف جھوٹا پروپیگنڈا کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ ارناؤڈ فانڈورن نے اپنے ایک دوست کی تبلیغ سے متاثر ہوکر اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور گزشتہ سال اسلام قبول کرلیا تھا، جس کے بعد ایک عمرہ بھی ادا کیا تھا اور اب حج بیت اﷲ کرنے کی سعادت حاصل کی ہے۔ ارناؤڈ فانڈورن کا کہنا ہے کہ نفرت انگیز فلم 'فتنہ' کی تیاری میں حصہ لینے پر انھیں بے حد افسوس ہے۔ ''فتنہ'' ایک مکمل غلط اور گمراہ کن فلم تھی جس نے بڑے پیمانے پر گمراہی اور غلط معلومات کو پھیلانے کا کام کیا۔
وہ اپنے گناہوں کو دھونے مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے آئے ہیں۔ اس فلم میں جو کچھ باتیں پیش کی گئی ہیں، ان کا عظیم پیغمبر (صلی اﷲ علیہ وسلم) یا اسلام جیسے مقدس مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس موقع پر وہ یہ کہتے ہوئے آبدیدہ ہوگئے ''میں نے حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کے مزار اقدس کے روبرو کھڑے ہونے میں شرم محسوس کی، میں جب وہاں پہنچا تو میرے ذہن پر بدترین گناہ کا بوجھ تھا، میں نے دعا کی اور مجھے پوری امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھے معاف کردیں گے اور میری توبہ قبول فرمائیں گے، میں اہل ایمان اور مطمئن قلوب کے درمیان اپنے آپ کو بڑا پرسکون محسوس کرتا ہوں، مجھے یقین ہے کہ میرے ندامت کے آنسو میری توبہ کا ذریعہ بن جائیں گے۔''
ارناؤڈ فانڈورن کا قبول اسلام محسن انسانیت، نبی برحق حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا ایک زندہ معجزہ اور اسلام کی ابدی صداقت و حقانیت کی ایک تازہ روشن دلیل ہے۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی حیات طیبہ میں بھی ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ کچھ افراد نے ابتداً آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کی مخالفت ہی نہیں کی بلکہ آپؐ کی شان اقدس میں گستاخی کو اپنا وطیرہ بنالیا تھا لیکن پھر آفتاب نبوت کی ہر سمت پھیلتی روشن کرنوں کو دیکھ کر بتوفیق الٰہی اپنے دل اور ضمیر کی آواز پر لبیک کہا اور اسلام قبول کرکے شمع رسالت کے ایسے پروانے بن گئے کہ جن کی فداکاری و جاں سپاری کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکتی۔ حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ اور حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ جیسے نجانے کتنے تھے جو پہلے اسلام کے دشمن تھے پھر اﷲ کے فضل سے اسلام کے محافظ بن گئے۔
آج چودہ سوسال بعد بھی یہ صورت حال بر قرار ہے۔ اسی طرح کا معاملہ بھارت میں مسلمانوں کی تاریخی ''بابری مسجد'' کو شہید کرنے والے سکھ کا ہے۔ اس کا نام ''رام جی لال گپتا'' تھا، اس کے بقول ''ذہن میں اسلام دشمنی بچپن سے کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، بابری مسجد کی شہادت کی تحریک میں لاکھوں روپے اپنی جیب سے خرچ کیے، بابری مسجد کا تالا کھلوانے سے لے کر اس کو مکمل طور پر مسمار کرنے تک بہت سا کام میرے ذمے تھا، لیکن اﷲ کا کرنا ایسا ہوا کہ 2006 میں مجھے اسلام کے متعلق مطالعہ کرنے کا اتفاق ہوا جس سے متاثر ہوکر میں نے اسلام قبول کرلیا، اپنا اسلامی نام سیٹھ محمد عمر رکھا اور اس کے بعد سے میرا مشن یہ ہے کہ کفارے کے طور پر مساجد تعمیر کرواتا ہوں، میں اب تک کئی مساجد تعمیر کروا چکا ہوں۔''
کتنے ہی لوگ ہیں جنھوں نے اسلام کے خلاف مغربی پروپیگنڈے سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کی مخالفت اور پیغمبر اسلام کی شان میں گستاخی کا ''آزادی اظہار کا حق'' استعمال کیا لیکن اسی دوران انھیں تنقیدی نقطہ نظر سے اسلام اور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ کرنے کا موقع ملا اور یہی موقع ان کی ہدایت کا ذریعہ بن گیا۔ حالیہ دنوں خود مغربی میڈیا نے متعدد ایسی رپورٹیں شایع کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ مغربی ممالک میں لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ صرف برطانیہ میں ایک لاکھ لوگ پرانا مذہب چھوڑ کر اسلام میں داخل ہوئے ہیں۔ ویلز یونیورسٹی کے محقق کیون بروس کے مطابق ہر سال 5200 افراد دائرہ اسلام میں داخل ہورہے ہیں۔ برطانوی ماڈل کارلے واٹس جو اسلام قبول کرچکی ہیں کا کہنا ہے کہ برطانیہ میں نسلی امتیاز اور اخلاقی اقدار کے فقدان کی وجہ سے لوگ اسلام جیسے امن پسند مذہب کی جانب راغب ہورہے ہیں۔ ایک سال قبل ایک برطانوی میگزین نے رپورٹ شایع کی تھی جس میں بتایا گیا کہ نائن الیون 2001 سے لے کر 2011 تک ایک لاکھ افراد اسلام کی چھتری تلے پناہ لے چکے ہیں۔ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اسلام کل بھی دنیا میںاپنی حقانیت اور روحانی و اخلاقی طاقت کی بنا پر پھیلا تھا اور آج بھی اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو دنیا کے ہر رنگ و نسل اورہر خطے کے انسانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔