عمران فاروق قتل کیس میں برطانوی پولیس کے افسر نے ریکارڈ پیش کردیا

عمران فاروق کیس کی تفتیش کا نام “آپریشن ہیسٹار “ رکھا، چیف انویسٹی گیشن آفیسر


ویب ڈیسک December 02, 2019
ڈاکٹر عمران فاروق کو 16 ستمبر 2010 کو لندن میں قتل کیا گیا تھا فوٹو: فائل

لندن میں ایم کیو ایم کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کی تفتیش کرنے والے برطانوی چیف انویسٹی گیشن آفیسر نے عدالت کے روبرو ریکارڈ پیش کردیا۔

اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت کے جج شاہ رخ ارجمند نے لندن میں ایم کیو ایم کے مقتول رہنما ڈاکٹر عمران فاروق کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران لندن پولیس کے چیف انویسٹی گیشن افسر اسٹیورڈ گرین وے، سارجنٹ اور کانسٹیبل اپنا بیان ریکارڈ کرانے پہنچے۔ اس موقع پر تینوں ملزمان خالد شمیم، محسن اور معظم علی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عمران فاروق کیس کے برطانیہ میں چیف انویسٹی گیشن آفیسر اسٹیورڈ گرین وے نے ریکارڈ پیش کرایا جس میں انگلیوں کے نشان، واقعے کی ویڈیوز، ملزم کی برطانیہ پہنچنے سے متعلق دستاویزات ، تعلیمی ریکارڈ، کالج حاضری اور ای میلز عدالت میں شامل ہیں۔ انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عمران فاروق کیس کی تفتیش کا نام "آپریشن ہیسٹار " رکھا گیا تھا۔

'ابھی آپ انتظار کریں'

سماعت کے دوران ملزم معظم علی نے ایک ہاتھ سے ہتھکڑی کھولنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ 4 گھنٹوں سے دونوں ہاتھوں پر ہتھکڑی لگی ہوئی ہے ہاتھوں کے درمیان گنجائش کم ہے، جس پر جج شاہ رخ ارجمند نے ریمارکس دیئے کہ برطانوی گواہ اپنا بیان ریکارڈ کروا رہے ہیں ابھی آپ انتظار کریں۔

پس منظر

ڈاکٹر عمران فاروق 16 ستمبر 2010 کو لندن میں اپنے دفتر سے گھر جارہے تھے کہ انہیں گرین لین کے قریب واقع ان کے گھر کے باہر چاقو اور اینٹوں سے حملہ کرکے قتل کردیا گیا تھا۔

وقوعہ لندن میں ہونے کے باوجود 2015 میں اس وقت کے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہدایت پر ایف آئی اے نے عمران فاروق کے قتل میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے شبہ میں بانی متحدہ اور ایم کیو ایم کے دیگر سینئر رہنماؤں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا۔ کاشف خان کامران، محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو مرکزی ملزم قرار دیا گیا تھا۔ 2015 میں ہی محسن علی سید، معظم خان اور خالد شمیم کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا گیا تھا جب کہ کاشف خان کامران تاحال مفرور ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اس کی موت ہوچکی ہے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں