معجزہ

آج کے اس سائنٹیفک دور میں بھی ایسے زبردست ریاضیاتی معیار کے ساتھ کوئی کتاب لکھنا سپر کمپیوٹرز کی مدد سے بھی ممکن نہیں

القرآن الکریم ہر لحاظ سے ایک کلامِ خداوندی اور معجزاتی کتاب ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل کے جدید دور میں علم ومعلومات کا جیسے ایک بپھرا ہوا دریا ہے جو مختلف ماخذات سے گویا امڈتا چلا آرہا ہے اور آج معلومات تک رسائی جتنی آسان ہوگئی ہے ماضی میں پہلے اتنی آسان کبھی نہ تھی۔ پھر فی زمانہ منطق، دلیل، اعداد و شمار کی اہمیت بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اسی تناظر میں ایک ایسے معجزے پر بات کرتے ہیں جو صدیوں سے موجود ہے اور تاقیامت موجود رہے گا اور اس معجزے کا نام ہے القرآن الکریم۔

نہیں آپ غلط سمجھے، یہ قرآن پاک کے فضائل پر مشتمل کوئی ٹھیٹ مذہبی قسم کی تحریر و تفسیر نہیں ہے، بلکہ اس عظیم کتاب سے وابستہ کچھ ایسے حقائق کا ذکر ہے جو واقعتاً معجزانہ سطح کے ہیں۔ برسبیل تذکرہ تقریباً 30 سال پرانی ایک بات یاد آگئی۔ ایک دفعہ ہم اپنے استاد محترم سے انٹر کی سطح کی ریاضی کی ٹیوشن لے رہے تھے۔ ہم سے مراد طلبا کا گروپ ہے۔ میں اس زمانے میں آج سے کچھ زیادہ جاہل، شکی اور منطقی بنا پھرتا تھا۔ چنانچہ کلاس ختم ہونے کے بعد سر سے ہمیشہ کی طرح ہونے والی ہلکی پھلکی گپ شپ میں، میں نے طنزاً کہا ''سر! جو بھی نئی تھیوری یا ایجاد یہ گورے، یہ مغرب والے اپنی محنت سے سامنے لاتے ہیں، ہمارا مذہبی طبقہ جھٹ کہہ دیتا ہے کہ یہ تو قرآن پاک میں پہلے ہی سے موجود ہے۔ اگر موجود ہے تو پھر یہ خود پہلے کیوں وہاں سے نکال نہیں لیتے''۔ اور بھی اسی قسم کی دو چار باتیں کیں۔ ہمارے استاد محترم مسکرائے اور کہا کہ میاں یہ سوال میں نے بھی دوران طالب علمی اپنے ایک پروفیسر کے سامنے رکھا تھا تو انہوں نے دو باتیں کرکے یہ کانسپٹ ہمیشہ کےلیے مجھے کلیئر کردیا تھا۔ وہ دو باتیں تم بھی سن لو۔

کہنے لگے پہلی بات یہ یاد رکھو کہ قرآن کریم سائنس کی کتاب نہیں ہے، بلکہ سائنز (signs) کی کتاب ہے اور اس کے اشارے اور علامات کو پہچاننا ہما شما اور ایرے غیرے کے بس کی بات نہیں، بلکہ اس بحرالعلوم میں ڈوبنا پڑتا ہے۔ پھر موتی ہاتھ آتے ہیں۔

دوسری بات یہ کہ فرض کریں آپ ایک تاحد نظر طویل اور وسیع لائبریری میں موجود ہیں، جہاں ہزاروں لاکھوں الماریاں اور ریکس لگے ہوئے ہیں۔ اور ہر علم و فن کی کتابوں کی الگ الگ الماریاں موجود ہیں۔ ایک لائبریرین آپ کو لائبریری کی سیر کروا رہا ہے اور بتارہا ہے کہ اس الماری میں فزکس کی اول و آخر تک کی تمام کتابیں ہیں، اس الماری میں کیمسٹری کی، اس الماری میں ریاضی کی اور علیٰ ہٰذالقیاس۔ اسی طرح وہ آپ کو لائبریری کی سیر کرارہا ہے اور یکایک آپ کی نظر ایک طاقچے یا خانے پر پڑتی ہے، جس میں صرف ایک کتاب رکھی ہوئی ہے۔ آپ حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ یہ کون سی کتاب ہے جو اکیلی رکھی ہوئی ہے؟ لائبریرین بتاتا ہے کہ یہ وہ کتاب ہے جس میں اس لائبریری کی ساری کتابوں کا نچوڑ اور خلاصہ موجود ہے۔

پھر سر نے ہم سے ایک سوال کیا کہ آپ لوگ یہ بتائیں کیا ہم اس ایک اکلوتی کتاب کو پڑھ کر ساری لائبریری کی کتابوں کو سمجھ سکتے ہیں یا اس ایک کتاب کو پوری طرح سمجھنے کےلیے آپ کو ساری لائبریری کی کتابوں کو تدریجاً پڑھنا اور سمجھنا پڑے گا؟ تو ظاہر ہے کہ ہم نے دوسرا والا جواب دیا اور وہی ہمارے شبہے کا بھی جواب تھا کہ قرآن پاک میں اولین و آخرین کے تمام علوم کا تذکرہ ہے، مگر اجمالی اور اشاراتی انداز میں جنہیں سمجھنے میں ساری ساری زندگیاں کھپانی پڑتی ہیں۔


اب اسی معجزاتی کتاب کے متعلق کچھ ریاضیاتی حقائق نظر سے گزرے، دل چاہا کہ اسے شیئر کیا جائے۔ ذرا غور تو فرمائیے کہ اتنی بڑی کتاب میں ایسی باریک اور متوازن کیلکولیشنز کا کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا، اور یہ استعمالِ الفاظ اپنے پس منظر میں بجائے خود علم و عرفان کا ایک جہان ہے۔

دیکھئے کہ اگر قرآن پاک میں دنیا کا لفظ 115 مرتبہ استعمال ہوا ہے تو آخرت کا لفظ بھی 115 مرتبہ ہی آیا ہے۔ اسی طرح (شیاطین و ملائکہ: 88 بار)، (موت و حیات: 145)، ( کفر و ایمان: 25)، (نفع و فساد: 50)۔ سارے قرآن میں شہر کا لفظ 12 مرتبہ استعمال ہوا ہے اور عربی میں شہر کا مطلب ہوتا ہے مہینہ اور سال میں 12 مہینے ہوتے ہیں۔ یوم یعنی دن کا لفظ 360 بار آیا ہے۔ یہ بھی غور کریں کہ سورۂ فاتحہ کے بعد قرآن کریم کی پہلی سورۂ مبارکہ البقرہ ہے، جس کی آیات کی تعداد 286 ہے۔ اس 286 میں سے 2 کو اگر ہٹادیں تو مکی سورتوں کی تعداد سامنے آجاتی ہے، یعنی 86 اور اگر آخری نمبر یعنی 6 کو ہٹادیں تو مدنی سورتوں کی تعداد آجاتی ہے، یعنی 28 اور ان دونوں نمبروں کو یعنی 28 اور 86 کو جمع کرنے پر قرآن پاک کی کل سورتوں کی تعداد سامنے آجاتی ہے یعنی 114۔

بات ابھی ختم نہیں ہوتی اور بھی بے شمار معجزاتی حد تک پہنچے ہوئے ریاضیاتی اور سائنسی حقائق ہیں جو نہایت سادہ طریقے سے سمجھ میں آتے ہیں، لیکن بلاگ کا دامن تنگ ہونے کی وجہ سے ان پر اگر موقع ملا تو انشااللہ پھر کبھی بات ہوگی۔ لیکن آخر میں بس یہ کہنا ہے کہ آج جب عقلی علوم اور سائنسی ترقی کا غلغلہ مچا ہوا ہے اور عقل و خرد اپنی معراج کو چھو رہی ہے تو ایک پندرہ سو سال پرانی کتاب اپنا چیلنج اسی طرح دہرا رہی ہے کہ اس میں کوئی غلطی نکال کر دکھا دو یا کم از کم قرآن کے معیار کی ایک ایسی آیت ہی بنادو جو مقابلے پر پیش کرسکو۔

آج کے اس سائنٹیفک دور میں بھی ایسے زبردست ریاضیاتی معیار کے ساتھ کوئی کتاب لکھنا سپر کمپیوٹرز کی مدد سے بھی ممکن نہیں۔ لیکن آج سے چودہ سو سال پہلے تو یہ اور بھی زیادہ ناممکنات میں سے تھا۔ اور قرآن خود ایک جگہ فرماتا ہے کہ پوچھ لو گنتی والوں سے (القرآن)۔ تو ہر تعصب سے پاک عقل سلیم رکھنے والا اگر غور و فکر سے کام لے تو یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا کہ القرآن الکریم ہر لحاظ سے ایک کلامِ خداوندی اور معجزاتی کتاب ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story