
تاحال ملزمان کی گرفتاری اور لڑکی کی بازیابی کے حوالے سے کوئی پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ پولیس نے روایتی طور پر جائے وقوعہ کی جیوفنسنگ کرانے اور سی سی ٹی وی فوٹیجز بھی حاصل کرکے تحقیقات شروع کرنے کا دعویٰ کیا۔
پیپلز پارٹی کے سینیٹر عاجزدھامرا کا کہنا تھا کہ بغیر تاوان کے دعامنگی کو بازیاب کرایا جائے گا۔ ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں یوں ایک لڑکی کا چہل قدمی کرتے ہوئے اغوا ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ ملزموں کے دل میں قانون کا کوئی خوف باقی نہیں رہا،کیونکہ پولیس کراچی میں شہریوں کو جرائم پیشہ گروہوں سے تحفظ دینے میں بری طرح ناکام نظر آتی ہے۔
دوسری جانب دادو میں 11سالہ بچی کاری قرار دے کر سنگسارکر دینے کا درد انگیز واقعہ رپورٹ ہوا ہے، والد نے اپنے رشتے داروں کے ہمراہ منصوبہ بندی کرکے اپنی نو برس کی بیٹی گل سما کو پتھر مار مارکر بے دردی سے قتل کر دیا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب بھی دورجاہلیت میں رہ رہے ہیں۔ معصوم بچیوں کو یوں زندہ درگورکرنے کے عمل کو روایت کا نام دینا باعث شرم ہے۔ یہ جہل کا راستہ ہے۔
ایک طرف تو ملزموں اور مجرموں کے دل سے قانون کا ڈر اور خوف ختم ہوچکا ہے تو دوسری جانب پولیس خود بھی لاقانونیت پر اتری آئی ہے۔ کراچی گذری پولیس کے ہاتھوں ایک ہفتے قبل قتل کیے جانے والے نبیل کے ورثا اور عزیز واقارب نے سی وی پر نجی ریسٹورنٹ کے باہر احتجاج کیا۔ کراچی میں پولیس مقابلوں کے نام پر کئی بے گناہ افراد، میڈیکل کی طالبہ اورکمسن بچی کو پولیس والے قتل کرچکے ہیں ۔
گرفتار پولیس اہلکارکچھ دنوں بعد ضمانتوں پر رہا ہونے کے بعد دوبارہ سے ڈیوٹیاں دینا شروع کردیتے ہیں۔ دراصل پولیس میں بڑے پیمانے پر اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ورنہ معاشرہ مزید تباہی وبربادی کا شکار ہوجائے گا اور عدم تحفظ کا احساس بڑھ جائے گا۔
تبصرے
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔