میں ضرور آؤں گا
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی حکمران نے استحکام پاکستان کا کام نہیں کیا۔
72 سال سے جو قانون نہ بن سکا ، وہ تین ماہ میں کیسے بن جائے گا؟ یہ کہنا تھا چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کا۔ مسئلہ زیر بحث تھا چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا۔ کتنے ہی جنرل آئے، بعض جنرل حکمران بھی رہے۔ کسی بھی حکمران کا اتنے اہم ترین فرض کی باقاعدہ آئینی قانونی حیثیت کی طرف درستگی کی طرف دھیان نہیں گیا۔ اب جب کہ '' نیا پاکستان'' کا زور و شور ہے تو بھلا ہو چیف جسٹس کا جنھوں نے اس اہم ترین کام کو آئینی اور قانونی بنانے کے لیے حکومت وقت کو متوجہ کیا ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر آج تک کسی بھی حکمران نے استحکام پاکستان کا کام نہیں کیا۔ سب نے ہی ملک کو لوٹا اور چلے گئے۔ نتیجہ یہ ہے کہ آج ملک کا جو خراب حال ہے یہ سب کچھ ہمارے حکمرانوں کا ہی کیا دھرا ہے۔ قدم قدم پر خرابیاں اور بڑے دھڑلے سے خرابیاں کرنے والے '' نیا پاکستان '' کے مقابل اپنے مکروہ، غیر انسانی، غیر اخلاقی کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
معصوم بچوں کا اغوا ، بدفعلی، ان کی ویڈیو اور آخر میں بچوں کی لاشیں۔ یہ کام نہیں رک رہے، بلکہ ان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ مظفرگڑھ میں زمیندار نے ایک 70 سالہ غریب اور اس کے بیٹے پر اپنے خونخوار کتے چھوڑ دیے۔ کتے ان غریبوں کو بھنبھوڑتے رہے اور زمیندار قہقہے لگاتا رہا۔ کراچی میں ایک کار سوار نوجوان عورت نے ٹریفک سگنل توڑا۔ ایک پولیس انسپکٹر (ASI) نے اس خاتون کو روکا تو اس عورت نے پولیس انسپکٹر کو گالیاں بکیں اور کہا ''میں تم جیسے دو ٹکے کے انسان سے بات نہیں کرنا چاہتی۔ چل چل نکل ادھر سے۔'' اور کار دوڑاتی ہوئی فرار ہوگئی۔ تین دن ہوگئے وہ ملزمہ عورت ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکی۔ پولیس ڈیفنس کراچی میں اس عورت کے مہنگے ترین اپارٹمنٹ تک پہنچ گئی ہے۔
وقوعہ والی کار بیسمنٹ میں کھڑی ہے اور ''مہنگی خاتون'' دو ٹکے کے پولیس انسپکٹر کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ اسی کراچی شہر میں پولیس والوں نے ایک نوجوان نبیل ہود بھائی کو گولی مار کر ہلاک کردیا۔ نبیل کی والدہ کہتی ہیں ''پولیس والے کار کے ٹائر پر گولی مارتے، کار رک جاتی'' مگر پولیس نے نبیل کی گردن کا نشانہ لیا اور گولی چلا دی اور پھر زخمی کو وہیں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ کار میں دو نوجوان تھے، نبیل مر گیا اور دوسرا نوجوان زخمی پڑا ہے۔
اسی شہر کراچی میں گلستان جوہر کی کچی آبادی چشتی نگر میں گزشتہ 30 سال سے مقیم کم آمدنی والے لوگ اپنے ہی جیسے غریبانہ مکانوں میں رہ رہے ہیں، کل پولیس والے بندوقیں، آنسو گیس لے کر ان سفید پوش لوگوں کے مکان گرانے پہنچ گئے۔ دن بھر گولیاں اور آنسو گیس چلتی رہیں۔ یہ صوبہ سندھ ہے، جس کے صدر مقام میں یہ ہوتا رہا۔ ذرا صوبائی حکومت غور فرمائے میری گزارش ہے، سوال ہے ''کیا بڑے بڑے مسائل حل ہوچکے؟ کیا بڑے بڑے ملک لوٹنے والے اپنے انجام کو پہنچ چکے؟ جو غریبوں کو بے گھر کر رہے ہو؟ ارے پہلے بڑے چوروں، ڈاکوؤں سے تو نمٹ لو، پھر مرے ہوؤں کو اور مار دینا۔''
سیاست دان اور ان کے ''حواری'' اپنے اپنے لیڈروں کے غم میں مرے جا رہے ہیں، پاکستان کے لیے کوئی فکر مند نہیں ہے۔ پاکستان مر رہا ہے۔ دیمک اسے چاٹ رہی ہے۔ زمیندار غریبوں کو مار رہے ہیں غریبوں کا کوئی والی وارث نہیں ہے اور امیروں کے خزانے ہیرے جواہرات، سونے چاندی اور اربوں روپوں سے بھرے پڑے ہیں۔ برازیل کی عدالت نے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے جرم میں سابق صدر لوئز اناسیو لولاڈی سلوا کی سزا کی توثیق کرتے ہوئے 17 سال قید کا حکم دیا ہے۔ پاکستان کی عدالتیں ''فیصلے'' دیتی ہیں تو خوب واویلا مچتا ہے۔
پاکستان کے حالات بے حد خراب ہیں، ''صفائی'' اور ''ستھرائی '' ان دونوں میں بہت وقت لگے گا۔ قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں سب لوگ لگے ہوئے ہیں ، کس کس بات کا رونا رویا جائے۔ طالب علم اپنے اساتذہ کو مار پیٹ رہے ہیں، وکلا عدالتیں توڑ پھوڑ رہے ہیں، مولوی حضرات بھی قانون توڑ رہے ہیں۔ ہندوستان سرحدوں پر گولیاں برساتا ہے۔ عام شہری ہلاک ہو رہے ہیں، مکانات مسمار ہو رہے ہیں، کشمیر کا حال سب کے سامنے ہے، انڈیا آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کی باتیں کر رہا ہے اور اپوزیشن کی جماعتیں نئے انتخابات چاہتی ہیں۔ عمران خان کی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دو، پھر انتخابات ہوجائیں گے۔
مزید تین سال میں جو مزید اچھا برا ہونا ہے، ہو جانے دو۔ یہاں اپنے پاکستان میں تو 73 سالوں سے روز قیامتیں ٹوٹتی ہیں۔ اب تو عوام ان قیامتوں کے عادی ہوچکے ہیں۔ بقول جالب'' اب اور نیا کیا ستم ایجاد کرو گے'' اور اسی شاعر کا ایک اور مصرعہ ''اور کچھ دیر کہ ٹوٹا درِ زنداں یارو''
اپوزیشن کہتی ہے ''موجودہ حکومت ناتجربہ کار ہے، نالائق ہے'' بالکل درست! مگر جناب ملک کو تجربہ کار اور لائقوں نے ہی اس انجام تک پہنچایا ہے، انھی کا کیا دھرا ہے۔ جو عوام بھگت رہے ہیں۔ میں جہاں بیٹھ کر کالم لکھتا ہوں۔ میرے سامنے حبیب جالب کے پورٹریٹ والا وال کلاک لگا ہوا ہے۔ یہ وقت بھی بتاتا ہے اور اس کے ماتھے پر جالب بول رہا ہے ''میں ضرور آؤں گا اک عہدِ حسیں کی صورت۔''