صادقین۔۔۔۔ شاعر مصور خطاط
لائبریری میں ایک جلسہ ہوا جس میں وائس چانسلر نے تقریر کی اور اپنے ہاتھوں سے صادقین کو وہ شیروانی پہنائی۔
خاکوں، خود نوشت اور مضامین پر مشتمل سلطان احمد نقوی کی مرتب کردہ کتاب ''صادقین۔۔۔۔شاعر، مصور، خطاط'' راشد اشرف نے زندہ کتابوں کے سلسلے میں شایع کی ہے۔ پہلے خاکے ہیں۔
احمد ندیم قاسمی فرماتے ہیں ''مصور صادقین، خطاط صادقین، شاعر صادقین ہمارے فنون اور ہماری تہذیب اور ہمارے کلچر پر اپنے انمٹ اثرات کندہ کرکے ہم سے ہمیشہ کے لیے رخصت ہوچکا ہے مگر وہ اپنی مصوری اور خطاطی اور شاعری کے دم سے اس وقت تک زندہ رہے گا جب تک انسان کی حس جمال زندہ ہے۔''
صادقین سے ایک انٹرویو میں جب یہ سوال کیا گیا کہ جناب آپ خطاط بھی ہیں، مصور بھی ہیں اور شاعر بھی۔ آپ کے ان تینوں فنون کا باہمی رشتہ کیا ہے تو انھوں نے جواب دیا ''میرے یہ تینوں فنون ایک دوسرے کے تابع ہیں۔ میری مصوری خطاطی کی طرف بڑھ رہی ہے، خطاطی شاعری کی طرف بڑھ رہی ہے اور پھر شاعری مصوری کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اس طرح میرے ان تینوں فنون کا دائرہ وار عمل ظہور پذیر ہوتا ہے۔ میری مصوری سے شاعری تخلیق ہوتی ہے۔ مثلاً میری ایک رباعی ہے:
مکھڑے کی تو تنویر سے باتیں کی تھیں
اور زلف کی زنجیر سے باتیں کی تھیں
کل اک تیری تصویر بنا کر میں نے
پھر کچھ تیری تصویر سے باتیں کی تھیں
آغا ناصر اپنے مضمون میں لکھتے ہیں '' صادقین کی شخصیت کو الفاظ میں بیان کرنا بڑا مشکل ہے۔ لانبے قد ،کھلتی رنگت ، تیکھے خد وخال کا یہ انسان اپنے اندر بہت کشش رکھتا تھا۔ ان کے چہرے پر ہمہ وقت تخلیق کا ایک کرب ہوتا۔ باتیں بہت مست ہوکرکرتے تھے۔ انداز بیان کا ایک خاص ڈھب تھا اور الفاظ کے انتخاب کا بھی۔ پینٹنگ کرتے وقت فرش پر آلتی پالتی مارکر بیٹھ جاتے یا اگر کینوس بہت بڑا ہو تو تقریباً لیٹ جاتے۔
طبیعت میں ایک قسم کی خود پسندی تھی جس کا اظہار متواتر اور مسلسل جاری رہتا۔ خود اپنی صفات بیان کرنا اور اپنے پرستاروں کا ذکر کرنا ان کا محبوب ترین موضوع تھا۔ برسہا برس تصویریں بنانے کے بعد جب خطاطی کی طرف توجہ دی تو بس پھر اسی کے ہو رہے۔ سچی بات ہے صادقین کو اپنی خطاطی سے بے حد محبت تھی اور وہ اس پر بہت فخر کرتے تھے۔ اس کا احساس اس وقت ہوتا تھا جب وہ اپنی لکھی رباعیاں خطاطی کی تعریف میں سناتے تھے۔''
صادقین اپنے رباعی گوئی کے شوق کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انھوں نے جس گرد و پیش میں آنکھ کھولی اس کی ثقافتی علامات میں رباعی بحیثیت ایک صنف سخن کے بہت مقبول تھی۔ بچوں کو حمدیہ نعتیہ رباعیاں یاد کرائی جاتی تھیں۔ وہ لکھتے ہیں ''میں خود بھی ایام طفولیت میں تختی پر رباعیاں لکھنے کا شوقین تھا۔ صنف رباعی سے میری محبت بچپن سے ہے۔ نہ جانے کیوں اس میں ایک خاص حسن و جمال، ایک خاص متانت اور سنجیدگی نظر آتی ہے۔''
زاہدہ حنا کہتی ہیں کہ صادقین اپنی ذات میں فطرت پرست اور حسن پرست تھے۔ صادقین خود اپنے بارے میں لکھتے ہیں ''مظاہر قدرت نے سب سے پہلے میرے ذہن و خیال کو متاثر کرنا شروع کیا۔ اس میں رنگ اور شکل بدلتے ہوئے بادل ہیں اور بادلوں کے بعد طلوع آفتاب کا منظر تھا۔ بادل پرستی کے بعد آفتاب پرستی آئی اور آفتاب پرستی کے لیے موسم سرما کی صبحوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ کر آنکھیں بند کرلی جاتیں۔ اس عمل کے دوران کبھی ایک دو پل کے لیے آنکھیں کھولی بھی جاتی تھیں۔ جب آنکھیں بند رہتیں تو طرح طرح کے چمکیلے رنگوں میں سورج کا ایک تصور متحرک میرے ذہن میں ابھرتا تھا۔ کبھی سرخ، کبھی سبز اور کبھی فیروزی۔ میں بادلوں کو ایک محویت کے عالم میں تادیر دیکھتا اور پھر اپنی انگشت شہادت کو فضاؤں میں آہستہ آہستہ گھماتا۔ داغ دھبے جہاں کہیں بھی نظر آتے ان میں تلاش حسن و جمال غیر ارادی طور پر کرتا۔''
صادقین نے ایک انٹرویو میں یہ بھی کہا تھا کہ وہ زندگی میں ایک ماورائی اور مابعدالطبیعاتی تنظیم پر یقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے کہا ''میں نے زندگی میں کبھی منصوبہ بندی نہیں کی یعنی اپنے وجود کو وقت کی لہروں پر چھوڑ دیا اور وہ مجھے بہا کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ میں مختلف سمتوں میں بہتا رہا۔ بعض اوقات مجھے محسوس ہوتا ہے کہ زندگی میں مجھ سے جو کچھ کام ہوا وہ پہلے سے بنا بنایا وقت کی تہوں میں موجود تھا اور جب اس کے رونما ہونے کا وقت آیا تو وہ رونما ہوگیا۔''
صادقین کے خاندان میں شعر و ادب کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی لکھتے ہیں ''صادقین نے جس ماحول میں آنکھیں کھولیں اس میں شعر و شاعری، خطاطی اور ادب دوستی یقینا تھی مگر کوئی محرک نہیں تھا جو انھیں مصور بننے کے لیے ابھارتا تاہم انھیں پوری طرح شعور سنبھالنے سے پہلے خطاطی، مصوری اور شاعری تینوں کا چسکا لگ چکا تھا۔ یہ صلاحیتیں وہ خلقی طور پر اپنے ساتھ لائے تھے۔
ان تینوں میدانوں میں انھوں نے جو بھی حاصل کیا وہ صرف اپنی مسلسل محنت اور لگن سے پایا ہے۔ ان کا کوئی استاد نہیں ہے۔ غالب کی طرح وہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ مجھے مبدا فیض سے تلمذ ہے۔ غالب ہی کی طرح وہ بھی 15 سال کی عمر میں صاحب دیوان ہوچکے تھے۔ ابتدا میں غزلیں، نظمیں، قطعات، رباعیات سب کچھ لکھا۔ لیکن اکثر کلام ضایع ہوگیا۔ جو کچھ زمانے کی دست برد سے بچ گیا وہ بعد میں انھوں نے ''جزو بوسیدہ'' کے نام سے شایع کردیا۔ اس میں بعض نظموں کا لب و لہجہ اور خیالات کی پرواز دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ایک پندرہ سولہ سال کے لڑکے نے کیسے کہا ہوگا۔''
صادقین نے 1981 میں ہندوستان کا سفر کیا۔ وہ 1948 میں امروہہ سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ ان کا یہ سفر ایک بین الاقوامی نمائش میں شرکت کے لیے تھا انھیں صرف ایک ہفتہ یہاں رہنا تھا لیکن وہ ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ ٹھہرے۔ اس طویل قیام کے دوران وہ بہت مصروف رہے۔ کئی شہروں میں اپنی تصویروں اور خطاطی کی نمائشیں کیں۔
علی گڑھ یونیورسٹی، بنارس یونیورسٹی، سرنگا پٹم میں ٹیپو سلطان شہید کے مزار، دہلی میں اسلامک ریسرچ انسٹیٹیوٹ کی دیواروں اور چھتوں پر اپنے فن کے نقش ثبت کیے۔ اندرا گاندھی وزیر اعظم تھیں۔ انھیں صادقین کے آنے کی اطلاع ملی تو دوسرے ہی دن ملاقات کے لیے بلالیا۔ صادقین نے اپنے آبائی گھر امروہہ جانے کی خواہش کا ذکر کیا تو سرکاری طور پر اس کے انتظام کا حکم دے دیا۔
منیر احمد شیخ ان دنوں دہلی میں پاکستان کے سفارت خانے میں پریس کونسلر تھے۔ وہ لکھتے ہیں ''دہلی سے روانگی کے دن ریلوے کے پلیٹ فارم پر امروہہ جانے والی ٹرین میں صادقین کے لیے الگ ڈبہ لگا دیا گیا تھا جس پر جلی حروف میں ''صادقین'' لکھا ہوا تھا۔ جب گاڑی امروہہ پہنچی تو اسٹیشن پر صادقین کو خوش آمدید کہنے کے لیے شہر امنڈ پڑا۔ کمشنر کے ساتھ اعلیٰ حکام اور عمائدین ہاتھوں میں ہار لیے کھڑے تھے۔ پلیٹ فارم پر ایک ہاتھی کو سجا کر کھڑا کیا گیا تھا۔ ہاتھی کی سواری شہر کی جانب چلی۔ جگہ جگہ کیلوں کے درختوں کے آرائشی دروازے بنے تھے اور بازاروں میں مکانوں کی چھتوں سے صادقین پر پھولوں کی پتیوں کی بارش ہو رہی تھی۔ صادقین کا اپنے شہر کے بازاروں میں اس طمطراق سے جانا ان کی زندگی کا یقینا ایک اہم واقعہ تھا۔''
امروہہ کے بعد صادقین علی گڑھ بھی آئے اور یہاں یونیورسٹی کے مہمان ہوئے۔ سید حامد ان دنوں وائس چانسلر تھے۔ کچھ دن قیام کے بعد جب صادقین علی گڑھ سے جانے لگے تو وائس چانسلر کی طرف سے کچھ پیش کرنے کی تجویز ہوئی۔ صادقین نے منع کردیا لیکن یہ کہا کہ میرے دل میں یہ خلش رہی ہے کہ میں علی گڑھ میں تعلیم حاصل نہ کرسکا۔ ورنہ میری کالی شیروانی کے کالر پر بھی یونیورسٹی کا بیج لگا ہوتا۔
وائس چانسلر چاہیں تو مجھے علی گڑھ کی یونیفارم یعنی کالی شیروانی بیج لگی ہوئی دے سکتے ہیں۔ وائس چانسلر صاحب نے سنا تو حکم دیا کہ ٹیلر کو بلاکر صادقین کا ناپ لیا جائے اور اچھی سے اچھی سرج کی شیروانی تیار کرکے لائی جائے جسے وہ خود صادقین کو پیش کریں گے۔ اس حکم کی تعمیل کی گئی شیروانی تیار ہوئی۔ لائبریری میں ایک جلسہ ہوا جس میں وائس چانسلر نے تقریر کی اور اپنے ہاتھوں سے صادقین کو وہ شیروانی پہنائی۔ صادقین نے جھک کر سلام کیا اور شکریہ ادا کیا کہ آج آپ نے مجھے علیگ برادری میں شامل کرکے میری ایک دیرینہ آرزو پوری کردی۔