اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر کروڑوں خرچ مطلوبہ نتائج نہ مل سکے
ہزاروں سرکاری اساتذہ کی تربیت غیرملکی ڈونر ایجنسیزکے فنڈزسے کی جارہی ہے،کچھ بجٹ حکومت سندھ نے بھی جاری کیا
محکمہ تعلیم سندھ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت پر سال میں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود مطلوبہ نتائج کے حصول میں بری طرح ناکام ہے۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں کے ہزاروں اساتذہ کی تربیت غیرملکی ڈونر ایجنسیزکے فنڈزسے کی جارہی ہے جبکہ کچھ بجٹ حکومت سندھ نے بھی جاری کیاہے صرف رواں سال سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی مختلف پروجیکٹس کے تحت دی جانے والی تربیت کی مد میں 200ملین روپے سے زائدکے اخراجات متوقع ہیں جس میں سے کئی ملین خرچ بھی کیے جاچکے ہیں اورفی استادتربیت کے چھ روزہ دورانیے میں کم از کم 10ہزارروپے کے اخراجات کیے جارہے ہیں تاہم "مال مفت دل بے رحم" کے مصداق کروڑوں روپے کے اخراجات سے اساتذہ کودی جانے والی تربیت سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے نتائج اوراہلیت پراثراندازنہیں ہورہی ہے۔
مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق میٹرک بورڈ کراچی کے 2019کے سالانہ امتحانات میں سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے اے ون گریڈ کاتناسب مجموعی گریڈ کا1.0ہے۔ کل 15894اے ون گریڈزمیں سے صرف 174طلبہ سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھتے تھے این ای ڈی کے داخلہ ٹیسٹ میں سوائے کراچی کے اندرون سندھ کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈطلبہ کے پاس ہونے کاتناسب 37فیصدسے زیادہ نہیں ہے سندھ کے بڑے اورمعروف 7کالجوں میں سرکاری اسکولوں سے میٹرک کرنے والے محض 16طلبہ ہی انٹرسال اول میں داخلہ حاصل کرسکیں ہیں۔
اسی طرح جب حال ہی میں محکمہ اسکول ایجوکیشن نے پانچویں اورآٹھویں جماعتوں کے ریاضی، سائنس اورانگریزی کے مضامین کے امتحانات لیے تھے توانرولڈ 6لاکھ طلبہ میں سے ایک لاکھ طلبہ غیرحاضرجبکہ 5ہزاراس امتحان میں فیل ہوگئے تھے۔
کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی روایتی تدریس طلباءوطالبات کوبہترتعلیمی نتائج دلوانے،انھیں نجی اسکولوں کے طلبہ سے مسابقت کے لیے تیارکرنے اورطلبہ کو پیشہ ورانہ اورمعروف سرکاری کالجوں اورجامعات تک بھجوانے میں کارگرثابت نہیں ہوپارہی جبکہ پلاننگ کے فقدان اورحکام کی عدم دلچسپی اورکرپشن کے واضح عنصرکے سبب محکمہ تعلیم سندھ میں اساتذہ کی تربیت کاشعبہ انتہائی زبوں حالی سے دوچارہے۔
"ایکسپریس"کی جانب سے سندھ میں اساتذہ کی تربیت کے ذمے داراداروں"اسٹیڈا، پائیٹ، ٹی ٹی آئی،آرایس یو اورسیڈاپروجیکٹ"(سندھ ٹیچرایجوکیشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی،پرووینشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرایجوکیشن،ٹیچرزٹریننگ انسٹی ٹیوٹس اورریفارم سپورٹ یونٹ ) میں سے بعض کے دفاترکے دوروں اورکچھ متعلقہ داروں کے افسران سے ملاقاتوں میں معلومات سامنے آئی ہیں کہ ان میں سے بعض ادارے خود بھی سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے حوالے سے پیشہ ورانہ استعدادہی نہیں رکھتے ۔ ان اداروں کی جانب سے اگراساتذہ کوکسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت کرائی جارہی ہے تواس تربیت سے حاصل ہونے والی اسکلزکے حوالے سے کوئی Follow Up assessmentکانظام ہی موجودنہیں ہے جس سے اساتذہ کی پیشہ ورانہ استعدادکااندازہ ہوسکے۔
اس حوالے سے قائم ادارے "پائیٹ"(پرووینشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرایجوکیشن)کااپناکوئی سربراہ ہی نہیں ہے اوراسٹیڈاکے ایگزیکیوٹیووڈائریکٹرعبدالمجید برت کے پاس ڈائریکٹرجنرل پائیٹ کااضافی چارج بھی ہے ۔ بتایاجارہاہے کہ پائیٹ کے پاس پیشہ ورانہ استطاعت موجودہی نہیں ہے کہ وہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کوپیشہ ورانہ تربیت فراہم کرسکے۔
پائیٹ کے ایک افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی بنیادپر"ایکسپریس"کوانکشاف کیاکہ پائیٹ کے پاس تدریسی اورغیرتدریسی اسامیوں کے ساتھ کل 211مختص اسامیاں ہیں جن پرمحض 94ملازمین کام کررہے ہیں جبکہ 117اسامیاں خالی ہیں ۔ متعلقہ افسرنے مزیدبتایاکہ اساتذہ کوتربیت دینے کے لیے کل 49تدریسی اسامیوں صرف 15فیکلٹی ممبرموجودہیں، ایسوسی ایٹ کی 6اوراسسٹنٹ پروفیسرکی بھی 6اسامیاں خالی ہیں، اسی طرح لیکچررکی 19اسامیوں پر10جبکہ سینئرانسٹرکٹرکی 18اسامیوں پر 5انسٹرکٹرکام کررہے ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ سندھ میں سرکاری اسکول کے اساتذہ کی تربیت کے لیے قائم اس سب سے بڑے ادارے کوخود کسی "ریسکیو"کی ضرورت ہے۔
ادھر"ایکسپریس"نے جب پائیٹ اوراسٹیڈاکے مشترکہ سربراہ عبدالمجید برت سے اس سلسلے میں رابطہ کیاتوانھوں نے اس حقیقت سے اتفاق کیاکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کودی جانے والی تربیت طلبہ پر اثراندازنہیں ہورہی ۔ان کاکہناتھاکہ ہمارے پاس "فالواپ مکینزم"کمزورہے جبکہ اساتذہ کوجوتربیت دی جاتی ہے وہ اپنی تدریس میں اس کااستعمال نہیں کرتے تاہم انھوں نے بتایاکہ ہم نے "کلسٹرحب اسکول"کے نام سے پائیلٹ پروجیکٹ شروع کیاہے جس میں تربیت حاصل کرنے والے اساتذہ سے ان کی ٹریننگ کے حوالے سے فالواپ لیں گے اوران سے جانیں گے کہ اساتذہ نے گزشتہ تربیت میں کیاکچھ سیکھاہے۔ ادھراسٹیڈاکے دفترکے دورے کے موقع پر ایک افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ اسٹیڈاکے پاس تقریبادودرجن کے قریب اسامیاں خالی ہیں اوران اسامیوں پر افسران ومتعلقہ عملہ موجودہی نہیں نہ ہی حکومت ان اسامیوں کوپرکرنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔
انھوں نے بتایاکہ اسٹیڈاکاکام اساتذہ کی تربیت کے پورے منصوبے کی نگرانی کرناہے اسٹیڈاخود تربیت نہیں کراتابلکہ تربیت کرانا"پائیٹ"کی ذمے داری ہے ۔ اسٹیڈااساتذہ کی تربیت کے عمل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ تربیت کے لیے تیارکیے گئے نصاب کی جانچ اوراس کی حتمی منظوری دیتاہے ۔ انھوں نے بتایاکہ اساتذہ کی حالیہ تربیت کے لیے استعمال کیاجانے والانصاب "آہنگ"نامی این جی اونے تیارکیاہے جسے اسٹیڈانے متعلقہ نوٹیفائیڈماہرین سے منظوربھی کرایاہے۔
یادرہے کہ اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے سندھ میں معروف ادارہ "پائیٹ" محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ایک ذیلی ادارے "ریفارم سپورٹ یونٹ"کے تعاون سے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں قائم ارلی چائلڈ ہڈ کلاسز کوپڑھانے والے پرائمری اسکول اساتذہ کو تربیت دے رہاہے ۔ اس تربیت کے لیے فنڈزعالمی ادارے یونیسیف نے جاری کیے ہیں ۔ ارلی چائلڈ ہڈ کی تربیت لینے والے اساتذہ 1000روپے یومیہ کے حساب سے معاوضہ لے رہے ہیں جبکہ ماسٹرٹریننرکامعاوضہ اس کے علاوہ ہے۔ ریفارم سپورٹ یونٹ کے آفیشلزکے مطابق حال ہی میں یونیسیف نے 72ماسٹرٹریننراورتربیت کے دیگراخراجات کی مد میں 3ملین روپے آغاخان ایجوکیشن سروسز کواداکیے ہیں۔
اس تربیت میں آغاخان ایجوکیشن سروسز سے وہ افرادمانیٹرنگ اورویجلنس کی حیثیت سے شامل کیے گئے ہیں جنھوں نے ماسٹرٹریننرزکو تربیت دی ہے۔
ریفارم سپورٹ یونٹ کے ایک پروجیکٹ منیجر نے "ایکسپریس"کوایک ملاقات میں بتایاکہ ریفارم سپورٹ یونٹ یونیسکواورآغاخان ایجوکیشن سروسز کے تعاون سے اب تک سندھ کے چار اضلاع کے مختلف گریڈزکے 1358ان اساتذہ کی حال ہی میں تربیت مکمل کرچکاہے جواپنے اسکولوں میں کچی پہلی اورارلی چائلڈ ہڈکی کلاسز پڑھارہے ہیں۔
انھوں نے بتایاکہ یونیسیف نے پہلی بارتربیت حاصل کرنے والے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے لیے "ٹیچنگ کٹس"پاکستان بھجوائی ہیں جوان اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرزکوبھجوائی جارہی ہیں جن کے اساتذہ اپنی تربیت مکمل کرچکے ہیں ۔ فی "کٹ" 1ہزارروپے مالیت کی ہے اس کٹ میں ای سی کے طلبہ کوپڑھانے کے حوالے سے تفصیلی مواد موجودہے ۔ یہ ایک بڑااقدام ہے تاہم متعلقہ پروجیکٹ منیجرنے اس امرسے اتفاق کیاکہ ماضی میں سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کودی جانے والی تربیت کے وہ نتائج سامنے نہیں آسکے جس کی امید تھی ۔ ان کایہ بھی کہناتھاکہ حالیہ تربیت کے نتائج آئندہ چند برسوں میں ضروری نظرآئیں گے۔
دوسری جانب کینیڈاکی حکومت کے فنڈزسے قائم مزیدایک جز وقتی ادارہ جومحض ایک پروجیکٹ"سیڈا"کے نام سے پہچاناجاتاہے ۔ کینیڈین حکومت کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ سے اساتذہ کوتربیت فراہم کرتارہاہے ۔ پروجیکٹ کے ایک افسرنے"ایکسپریس"کوبتایاکہ یہ ادارہ سندھ کے 7ہزارسے زائد جونیئراسکول ٹیچرز(جے ایس ٹی)کو"ایل ایس بی ای"(لائف اسکل بیس ایجوکیشن)کے نام سے تربیت فراہم کررہاہے جو7 دسمبرتک پورے سندھ کے مختص کیے گئے اسکولوں میں جاری رہے گی ۔ یہ تربیت سندھ کے سرکاری اسکولوں کے جے ایس ٹی(میلفیمیل) اساتذہ کودی جارہی ہے ۔ چھ روزہ تربیت میں ہراستادکوفی یوم 1ہزارروپے اورتربیت دینے والے ماسٹرٹریننرکو2ہزارروپے کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں جبکہ دوپہرکے کھانے کے سلسلے میں متعلقہ سینٹرکوفی استاد500روپے کے حساب سے ادائیگی کی جارہی ہے تربیت کے حوالے سے دیگراخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
یادرہے کہ ماسٹرٹریننرزاوراساتذہ کوتربیت دینے کاسلسلہ ماضی میں فنڈزکی عدم ادائیگی کے سبب رک گیاتھا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ماضی میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کوکرائی گئی تربیت کے سلسلے میں ان ٹیچرزکوادائیگیاں نہیں کی گئی تھیں تاہم اساتذہ کی ادائیگیوں کے حوالے سے مختص فنڈزکہاں گیااس پرکوئی بات کرنے کے تیارنہیں۔
سیڈاپروجیکٹ کے سربراہ غلام نبی پٹھان نے اپنے دفترمیں "ایکسپریس"سے ایک ملاقات میں بتایاکہ سیڈاکوکینیڈین حکومت کی جانب سے "ایل ایس بی ای"کے لیے 14کروڑروپے موصول ہوئے ہیں جس کے بعد 16اگست سے کراچی سمیت پورے سندھ میں اساتذہ کی تربیت شروع کی گئی ہے یہ تربیت 7دسمبرتک جاری رہے گی ۔ یہ اس پروجیکٹ کاپہلافیزہے جبکہ دوسرے فیزمیں تربیت لینے والے اساتذہ کی "Impact Assessment"20جنوری سے 20مارچ تک ہوگی جس سے اندازہ لگایاجائے گاکہ تربیت لینے والے اساتذہ نے اس سے کیاکچھ حاصل کیاہے۔
ادھر"ایکسپریس"نے جب ریفارم سپورٹ یونٹ کے سربراہ اورحکومت سندھ کے سینئرزبیر چناسے آرایس یوکی جانب سے "ای سی"کلاسز لینے والے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ تربیت کے پورے نظام کے حوالے سے بات چیت کی توان کاکہناتھاکہ ہمارے اساتذہ سب کچھ جانتے ہیں انھیں اپنے مضمون کے حوالے سے سب کچھ آتاہے تاہم تدریس ایک آرٹ ہے جوبیشتراساتذہ نہیں جانتے کہ سمجھانے کے لیے پہلے خود سمجھناہوگا۔ ہم نے اس حوالے سے حکومت سندھ کوکئی سفارشات کی ہیں جس کی رپورٹ جاری کریں گے اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے بتایاکہ ٹیچرزکوسندھ حکومت کے ذریعے سے ہم ادائیگی کررہے ہیں 800سے ہزارروپے تک اورماسٹرٹریننرکوآغاخان ایجوکیشن سروسزکے ذریعے سے یونیسیف ادائیگی کررہی ہے ۔ سیڈاکی جانب سے جونیئراسکول ٹیچرزکی جاری تربیت کے حوالے سے آرایس یوچیف نے خود"ایکسپریس"سے یہ سوال کیاکہ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ جے ایس ٹی اساتذہ کوچھ روزکی تربیت کافی ہے۔
سندھ کے سرکاری اسکولوں کے ہزاروں اساتذہ کی تربیت غیرملکی ڈونر ایجنسیزکے فنڈزسے کی جارہی ہے جبکہ کچھ بجٹ حکومت سندھ نے بھی جاری کیاہے صرف رواں سال سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی مختلف پروجیکٹس کے تحت دی جانے والی تربیت کی مد میں 200ملین روپے سے زائدکے اخراجات متوقع ہیں جس میں سے کئی ملین خرچ بھی کیے جاچکے ہیں اورفی استادتربیت کے چھ روزہ دورانیے میں کم از کم 10ہزارروپے کے اخراجات کیے جارہے ہیں تاہم "مال مفت دل بے رحم" کے مصداق کروڑوں روپے کے اخراجات سے اساتذہ کودی جانے والی تربیت سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے نتائج اوراہلیت پراثراندازنہیں ہورہی ہے۔
مصدقہ اعدادوشمار کے مطابق میٹرک بورڈ کراچی کے 2019کے سالانہ امتحانات میں سرکاری اسکولوں کے طلبہ کے اے ون گریڈ کاتناسب مجموعی گریڈ کا1.0ہے۔ کل 15894اے ون گریڈزمیں سے صرف 174طلبہ سرکاری اسکولوں سے تعلق رکھتے تھے این ای ڈی کے داخلہ ٹیسٹ میں سوائے کراچی کے اندرون سندھ کے سرکاری تعلیمی بورڈ سے رجسٹرڈطلبہ کے پاس ہونے کاتناسب 37فیصدسے زیادہ نہیں ہے سندھ کے بڑے اورمعروف 7کالجوں میں سرکاری اسکولوں سے میٹرک کرنے والے محض 16طلبہ ہی انٹرسال اول میں داخلہ حاصل کرسکیں ہیں۔
اسی طرح جب حال ہی میں محکمہ اسکول ایجوکیشن نے پانچویں اورآٹھویں جماعتوں کے ریاضی، سائنس اورانگریزی کے مضامین کے امتحانات لیے تھے توانرولڈ 6لاکھ طلبہ میں سے ایک لاکھ طلبہ غیرحاضرجبکہ 5ہزاراس امتحان میں فیل ہوگئے تھے۔
کراچی سمیت سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی روایتی تدریس طلباءوطالبات کوبہترتعلیمی نتائج دلوانے،انھیں نجی اسکولوں کے طلبہ سے مسابقت کے لیے تیارکرنے اورطلبہ کو پیشہ ورانہ اورمعروف سرکاری کالجوں اورجامعات تک بھجوانے میں کارگرثابت نہیں ہوپارہی جبکہ پلاننگ کے فقدان اورحکام کی عدم دلچسپی اورکرپشن کے واضح عنصرکے سبب محکمہ تعلیم سندھ میں اساتذہ کی تربیت کاشعبہ انتہائی زبوں حالی سے دوچارہے۔
"ایکسپریس"کی جانب سے سندھ میں اساتذہ کی تربیت کے ذمے داراداروں"اسٹیڈا، پائیٹ، ٹی ٹی آئی،آرایس یو اورسیڈاپروجیکٹ"(سندھ ٹیچرایجوکیشن ڈویلپمنٹ اتھارٹی،پرووینشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرایجوکیشن،ٹیچرزٹریننگ انسٹی ٹیوٹس اورریفارم سپورٹ یونٹ ) میں سے بعض کے دفاترکے دوروں اورکچھ متعلقہ داروں کے افسران سے ملاقاتوں میں معلومات سامنے آئی ہیں کہ ان میں سے بعض ادارے خود بھی سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت کے حوالے سے پیشہ ورانہ استعدادہی نہیں رکھتے ۔ ان اداروں کی جانب سے اگراساتذہ کوکسی قسم کی پیشہ ورانہ تربیت کرائی جارہی ہے تواس تربیت سے حاصل ہونے والی اسکلزکے حوالے سے کوئی Follow Up assessmentکانظام ہی موجودنہیں ہے جس سے اساتذہ کی پیشہ ورانہ استعدادکااندازہ ہوسکے۔
اس حوالے سے قائم ادارے "پائیٹ"(پرووینشل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیچرایجوکیشن)کااپناکوئی سربراہ ہی نہیں ہے اوراسٹیڈاکے ایگزیکیوٹیووڈائریکٹرعبدالمجید برت کے پاس ڈائریکٹرجنرل پائیٹ کااضافی چارج بھی ہے ۔ بتایاجارہاہے کہ پائیٹ کے پاس پیشہ ورانہ استطاعت موجودہی نہیں ہے کہ وہ سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کوپیشہ ورانہ تربیت فراہم کرسکے۔
پائیٹ کے ایک افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی بنیادپر"ایکسپریس"کوانکشاف کیاکہ پائیٹ کے پاس تدریسی اورغیرتدریسی اسامیوں کے ساتھ کل 211مختص اسامیاں ہیں جن پرمحض 94ملازمین کام کررہے ہیں جبکہ 117اسامیاں خالی ہیں ۔ متعلقہ افسرنے مزیدبتایاکہ اساتذہ کوتربیت دینے کے لیے کل 49تدریسی اسامیوں صرف 15فیکلٹی ممبرموجودہیں، ایسوسی ایٹ کی 6اوراسسٹنٹ پروفیسرکی بھی 6اسامیاں خالی ہیں، اسی طرح لیکچررکی 19اسامیوں پر10جبکہ سینئرانسٹرکٹرکی 18اسامیوں پر 5انسٹرکٹرکام کررہے ہیں جس سے ظاہرہوتاہے کہ سندھ میں سرکاری اسکول کے اساتذہ کی تربیت کے لیے قائم اس سب سے بڑے ادارے کوخود کسی "ریسکیو"کی ضرورت ہے۔
ادھر"ایکسپریس"نے جب پائیٹ اوراسٹیڈاکے مشترکہ سربراہ عبدالمجید برت سے اس سلسلے میں رابطہ کیاتوانھوں نے اس حقیقت سے اتفاق کیاکہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کودی جانے والی تربیت طلبہ پر اثراندازنہیں ہورہی ۔ان کاکہناتھاکہ ہمارے پاس "فالواپ مکینزم"کمزورہے جبکہ اساتذہ کوجوتربیت دی جاتی ہے وہ اپنی تدریس میں اس کااستعمال نہیں کرتے تاہم انھوں نے بتایاکہ ہم نے "کلسٹرحب اسکول"کے نام سے پائیلٹ پروجیکٹ شروع کیاہے جس میں تربیت حاصل کرنے والے اساتذہ سے ان کی ٹریننگ کے حوالے سے فالواپ لیں گے اوران سے جانیں گے کہ اساتذہ نے گزشتہ تربیت میں کیاکچھ سیکھاہے۔ ادھراسٹیڈاکے دفترکے دورے کے موقع پر ایک افسرنے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاکہ اسٹیڈاکے پاس تقریبادودرجن کے قریب اسامیاں خالی ہیں اوران اسامیوں پر افسران ومتعلقہ عملہ موجودہی نہیں نہ ہی حکومت ان اسامیوں کوپرکرنے میں کوئی دلچسپی رکھتی ہے۔
انھوں نے بتایاکہ اسٹیڈاکاکام اساتذہ کی تربیت کے پورے منصوبے کی نگرانی کرناہے اسٹیڈاخود تربیت نہیں کراتابلکہ تربیت کرانا"پائیٹ"کی ذمے داری ہے ۔ اسٹیڈااساتذہ کی تربیت کے عمل کی نگرانی کے ساتھ ساتھ تربیت کے لیے تیارکیے گئے نصاب کی جانچ اوراس کی حتمی منظوری دیتاہے ۔ انھوں نے بتایاکہ اساتذہ کی حالیہ تربیت کے لیے استعمال کیاجانے والانصاب "آہنگ"نامی این جی اونے تیارکیاہے جسے اسٹیڈانے متعلقہ نوٹیفائیڈماہرین سے منظوربھی کرایاہے۔
یادرہے کہ اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے سندھ میں معروف ادارہ "پائیٹ" محکمہ اسکول ایجوکیشن کے ایک ذیلی ادارے "ریفارم سپورٹ یونٹ"کے تعاون سے سندھ کے سرکاری اسکولوں میں قائم ارلی چائلڈ ہڈ کلاسز کوپڑھانے والے پرائمری اسکول اساتذہ کو تربیت دے رہاہے ۔ اس تربیت کے لیے فنڈزعالمی ادارے یونیسیف نے جاری کیے ہیں ۔ ارلی چائلڈ ہڈ کی تربیت لینے والے اساتذہ 1000روپے یومیہ کے حساب سے معاوضہ لے رہے ہیں جبکہ ماسٹرٹریننرکامعاوضہ اس کے علاوہ ہے۔ ریفارم سپورٹ یونٹ کے آفیشلزکے مطابق حال ہی میں یونیسیف نے 72ماسٹرٹریننراورتربیت کے دیگراخراجات کی مد میں 3ملین روپے آغاخان ایجوکیشن سروسز کواداکیے ہیں۔
اس تربیت میں آغاخان ایجوکیشن سروسز سے وہ افرادمانیٹرنگ اورویجلنس کی حیثیت سے شامل کیے گئے ہیں جنھوں نے ماسٹرٹریننرزکو تربیت دی ہے۔
ریفارم سپورٹ یونٹ کے ایک پروجیکٹ منیجر نے "ایکسپریس"کوایک ملاقات میں بتایاکہ ریفارم سپورٹ یونٹ یونیسکواورآغاخان ایجوکیشن سروسز کے تعاون سے اب تک سندھ کے چار اضلاع کے مختلف گریڈزکے 1358ان اساتذہ کی حال ہی میں تربیت مکمل کرچکاہے جواپنے اسکولوں میں کچی پہلی اورارلی چائلڈ ہڈکی کلاسز پڑھارہے ہیں۔
انھوں نے بتایاکہ یونیسیف نے پہلی بارتربیت حاصل کرنے والے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کے لیے "ٹیچنگ کٹس"پاکستان بھجوائی ہیں جوان اضلاع کے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسرزکوبھجوائی جارہی ہیں جن کے اساتذہ اپنی تربیت مکمل کرچکے ہیں ۔ فی "کٹ" 1ہزارروپے مالیت کی ہے اس کٹ میں ای سی کے طلبہ کوپڑھانے کے حوالے سے تفصیلی مواد موجودہے ۔ یہ ایک بڑااقدام ہے تاہم متعلقہ پروجیکٹ منیجرنے اس امرسے اتفاق کیاکہ ماضی میں سندھ کے سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کودی جانے والی تربیت کے وہ نتائج سامنے نہیں آسکے جس کی امید تھی ۔ ان کایہ بھی کہناتھاکہ حالیہ تربیت کے نتائج آئندہ چند برسوں میں ضروری نظرآئیں گے۔
دوسری جانب کینیڈاکی حکومت کے فنڈزسے قائم مزیدایک جز وقتی ادارہ جومحض ایک پروجیکٹ"سیڈا"کے نام سے پہچاناجاتاہے ۔ کینیڈین حکومت کی جانب سے دی جانے والی فنڈنگ سے اساتذہ کوتربیت فراہم کرتارہاہے ۔ پروجیکٹ کے ایک افسرنے"ایکسپریس"کوبتایاکہ یہ ادارہ سندھ کے 7ہزارسے زائد جونیئراسکول ٹیچرز(جے ایس ٹی)کو"ایل ایس بی ای"(لائف اسکل بیس ایجوکیشن)کے نام سے تربیت فراہم کررہاہے جو7 دسمبرتک پورے سندھ کے مختص کیے گئے اسکولوں میں جاری رہے گی ۔ یہ تربیت سندھ کے سرکاری اسکولوں کے جے ایس ٹی(میلفیمیل) اساتذہ کودی جارہی ہے ۔ چھ روزہ تربیت میں ہراستادکوفی یوم 1ہزارروپے اورتربیت دینے والے ماسٹرٹریننرکو2ہزارروپے کی ادائیگیاں کی جارہی ہیں جبکہ دوپہرکے کھانے کے سلسلے میں متعلقہ سینٹرکوفی استاد500روپے کے حساب سے ادائیگی کی جارہی ہے تربیت کے حوالے سے دیگراخراجات اس کے علاوہ ہیں۔
یادرہے کہ ماسٹرٹریننرزاوراساتذہ کوتربیت دینے کاسلسلہ ماضی میں فنڈزکی عدم ادائیگی کے سبب رک گیاتھا۔ یہاں یہ بات واضح رہے کہ ماضی میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کوکرائی گئی تربیت کے سلسلے میں ان ٹیچرزکوادائیگیاں نہیں کی گئی تھیں تاہم اساتذہ کی ادائیگیوں کے حوالے سے مختص فنڈزکہاں گیااس پرکوئی بات کرنے کے تیارنہیں۔
سیڈاپروجیکٹ کے سربراہ غلام نبی پٹھان نے اپنے دفترمیں "ایکسپریس"سے ایک ملاقات میں بتایاکہ سیڈاکوکینیڈین حکومت کی جانب سے "ایل ایس بی ای"کے لیے 14کروڑروپے موصول ہوئے ہیں جس کے بعد 16اگست سے کراچی سمیت پورے سندھ میں اساتذہ کی تربیت شروع کی گئی ہے یہ تربیت 7دسمبرتک جاری رہے گی ۔ یہ اس پروجیکٹ کاپہلافیزہے جبکہ دوسرے فیزمیں تربیت لینے والے اساتذہ کی "Impact Assessment"20جنوری سے 20مارچ تک ہوگی جس سے اندازہ لگایاجائے گاکہ تربیت لینے والے اساتذہ نے اس سے کیاکچھ حاصل کیاہے۔
ادھر"ایکسپریس"نے جب ریفارم سپورٹ یونٹ کے سربراہ اورحکومت سندھ کے سینئرزبیر چناسے آرایس یوکی جانب سے "ای سی"کلاسز لینے والے اساتذہ کی تربیت کے ساتھ ساتھ تربیت کے پورے نظام کے حوالے سے بات چیت کی توان کاکہناتھاکہ ہمارے اساتذہ سب کچھ جانتے ہیں انھیں اپنے مضمون کے حوالے سے سب کچھ آتاہے تاہم تدریس ایک آرٹ ہے جوبیشتراساتذہ نہیں جانتے کہ سمجھانے کے لیے پہلے خود سمجھناہوگا۔ ہم نے اس حوالے سے حکومت سندھ کوکئی سفارشات کی ہیں جس کی رپورٹ جاری کریں گے اساتذہ کی تربیت کے حوالے سے انھوں نے بتایاکہ ٹیچرزکوسندھ حکومت کے ذریعے سے ہم ادائیگی کررہے ہیں 800سے ہزارروپے تک اورماسٹرٹریننرکوآغاخان ایجوکیشن سروسزکے ذریعے سے یونیسیف ادائیگی کررہی ہے ۔ سیڈاکی جانب سے جونیئراسکول ٹیچرزکی جاری تربیت کے حوالے سے آرایس یوچیف نے خود"ایکسپریس"سے یہ سوال کیاکہ کیاآپ سمجھتے ہیں کہ جے ایس ٹی اساتذہ کوچھ روزکی تربیت کافی ہے۔