دیوار قہقہہ اور عدالتی فیصلہ
جب تک وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار رسمی اختیار میں نہیں بدلے گا، یاجوج ماجوج کی دیوار قہقہہ ہمارا منہ چڑاتی رہے گی
صدر ذوالفقار علی بھٹو نے 1972 میں پاک فوج کے سربراہ کو کمانڈر اِن چیف کے بجائے جب چیف آف آرمی اسٹاف کا نام دے کر جنرل ٹکا خان کا انتخاب کیا تو اس کی مدت بھی ایک قانون کے ذریعے تین سال طے کردی تھی۔ یہ قانون جنرل پرویز مشرف کے صدر پاکستان بننے تک موجود رہا۔ جنرل ضیاء الحق نے اسے ختم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہوگی، البتہ پرویز مشرف نے اس قانون کی موجودگی میں وردی کو اپنی ''کھال'' بنانا مناسب نہ سمجھا ہوگا، اس لیے ختم کر دیا گیا۔
مذکورہ قانون چونکہ آئین کا حصہ تھا نہ آرمی ایکٹ کا، شاید اسی لیے ہماری یادداشت کا حصہ بھی نہ رہا اور عدالت عظمیٰ میں پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی سماعت کے دوران اس کی کسی طرف سے بھی بازگشت سنائی نہ دی۔ سرکاری وکلا شاید پرویز مشرف کے نام کی بازگشت سے بچنے کےلیے اس کا تذکرہ نہ کرنا چاہتے ہوں، تاہم میڈیا کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
یہاں یہ وضاحت حفظ ماتقدم کے طور پر ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اپنی دھاک بٹھانا نہیں، محض حیرت کا اظہار مقصود ہے۔ فوجی ماحول میں پرورش پانے کے باعث یہ ہماری اس یادداشت کا حصہ ہے جو ہم اپنے بڑوں اور بھائی بندوں کی گفتگو سے محفوظ رکھ سکے۔ اب اس کا تذکرہ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو بھی شامل کرنا قرین انصاف ہوگا۔
پرویز مشرف دور کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو مذکورہ قانون بحال کرنا چاہیے تھا، جو بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں تخلیق ہوا۔ یہاں یہ نکتہ اختراع کیا جاسکتا ہے کہ قانونی موشگافیوں کی ماہر پیپلز پارٹی زرداری کی سرکردگی میں شاید بھٹو کے نام کی بازگشت نہ سننا چاہتی ہو۔ اس لیے فرض کی ادائیگی سے چوکی۔ اس اختراعی نکتے میں نون لیگ کےلیے بھی گنجائش نکالنا پڑے گی۔ کیوں کہ براہ راست متاثر ہونے کی وجہ سے پرویز مشرف کا نام وہ بھی کہاں سننا چاہتی ہوگی۔ بہرحال ہمارے نزدیک تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی یہ بھی ہے کہ وہ اس میں حصہ بقدر جثہ پی پی اور نون لیگ کو شامل نہیں کرپائی۔
عدالت عظمیٰ نے ایک اچھے ماسٹر کی طرح جھڑکیں پلا کر شاگرد کی اصلاح تو کردی، مگر اس ملک کے حقیقی دشمنوں اور حقیقی خیرخواہ دونوں کو قدرے مایوس بھی کیا۔ دشمن تو جھڑکوں سے مغالطہ کھا کر سمجھے کہ ان کے دل کی مراد پوری ہونے لگی ہے، مگر عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جذبات پر اوس ڈال دی۔ خیرخواہ آس لگا بیٹھے تھے کہ دیوار قہقہہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجائے گی۔ عدالت عظمیٰ ہی کی سربراہی کی طرح فوج کی سربراہی کا بھی کوئی متعین رہنما اصول وضع کرنے کی ہدایت جاری ہوگی۔ جو ظاہر ہے نہیں ہوئی کہ یہ عدالت کے دائرہ کار سے باہر تھا۔ درخواست توسیع سے متعلق زیرسماعت تھی۔ فوجی سربراہ کے چناؤ کے طریقہ کار پر اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔ اصل میں خیرخواہ بھی جھڑکوں سے مغالطہ کھا گئے کہ بات توسیع سے آگے بڑھے گی لیکن عدالت نے سرکاری مسودے میں املا کی غلطی پر توجہ مرکوز کرانے پر ہی اکتفا کیا۔
نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ وزیراعظم کا فوجی سربراہ کے چناؤ کا صوابدیدی اختیار، جس پر عدالت کو بھی کوئی ابہام نہ تھا، وہی اصل معاملہ تھا جو بدستور جوں کا توں رہا۔ کسی بھی فوجی افسر کو آرمی چیف بنانے کےلیے جاری ہونے والا وزیراعظم کا مراسلہ بیک وقت تقرری بھی ہے اور توسیع بھی۔ تقرری تو سمجھ آتی ہے، توسیع کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ فوجی افسر کی مدت ملازمت ختم ہونے میں چاہے ایک گھنٹہ رہ گیا ہو، وزیراعظم کا مراسلہ اسے تین سال کی توسیع بخش دیتا ہے۔ گویا یہ مراسلہ فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کو غیر موثر کردیتا ہے اور افسر اپنی مدت ملازمت کے اعتبار سے بطور ریٹائرڈ چیف نئی مدت گزارتا ہے۔ آئین کی جو شق وزیراعظم کو یہ اختیار دیتی ہے وہ اس عمل کو دہرانے سے بھی نہیں روکتی۔ روکنا تو پہلی دفعہ کا فائدہ مند ہوگا، جس جانب توجہ مبذول کرانے کی جرأت رندانہ کی جارہی ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم نے فوجی سربراہوں کے انتخاب کا شوق پال کر تاحال کیا پایا:
اس شوق کے ذریعے فوج میں سیاست کے بیج کون بوتا ہے؟ وہی جسے شکایت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ فوج بھٹو دور کے مذکورہ قانون کو آرمی ایکٹ کا حصہ بناکر اپنے سربراہ کے چناؤ اور توسیع کا طریقہ کار بھی وضع کرلے اور وزیراعظم سے منظوری محض رسمی کارروائی تک محدود رکھی جائے۔ یوں آئینی تقاضا بھی پورا ہوجائے گا اور نئی قانون سازی کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جب تک وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار رسمی اختیار میں نہیں بدلے گا، یاجوج ماجوج کی دیوار قہقہہ ہمارا منہ چڑاتی رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مذکورہ قانون چونکہ آئین کا حصہ تھا نہ آرمی ایکٹ کا، شاید اسی لیے ہماری یادداشت کا حصہ بھی نہ رہا اور عدالت عظمیٰ میں پاک فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت میں توسیع کی سماعت کے دوران اس کی کسی طرف سے بھی بازگشت سنائی نہ دی۔ سرکاری وکلا شاید پرویز مشرف کے نام کی بازگشت سے بچنے کےلیے اس کا تذکرہ نہ کرنا چاہتے ہوں، تاہم میڈیا کے بارے میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
یہاں یہ وضاحت حفظ ماتقدم کے طور پر ضروری معلوم ہوتی ہے کہ اپنی دھاک بٹھانا نہیں، محض حیرت کا اظہار مقصود ہے۔ فوجی ماحول میں پرورش پانے کے باعث یہ ہماری اس یادداشت کا حصہ ہے جو ہم اپنے بڑوں اور بھائی بندوں کی گفتگو سے محفوظ رکھ سکے۔ اب اس کا تذکرہ اس لیے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور نون لیگ کو بھی شامل کرنا قرین انصاف ہوگا۔
پرویز مشرف دور کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت کو مذکورہ قانون بحال کرنا چاہیے تھا، جو بانی پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں تخلیق ہوا۔ یہاں یہ نکتہ اختراع کیا جاسکتا ہے کہ قانونی موشگافیوں کی ماہر پیپلز پارٹی زرداری کی سرکردگی میں شاید بھٹو کے نام کی بازگشت نہ سننا چاہتی ہو۔ اس لیے فرض کی ادائیگی سے چوکی۔ اس اختراعی نکتے میں نون لیگ کےلیے بھی گنجائش نکالنا پڑے گی۔ کیوں کہ براہ راست متاثر ہونے کی وجہ سے پرویز مشرف کا نام وہ بھی کہاں سننا چاہتی ہوگی۔ بہرحال ہمارے نزدیک تحریک انصاف کی حکومت کی نااہلی یہ بھی ہے کہ وہ اس میں حصہ بقدر جثہ پی پی اور نون لیگ کو شامل نہیں کرپائی۔
عدالت عظمیٰ نے ایک اچھے ماسٹر کی طرح جھڑکیں پلا کر شاگرد کی اصلاح تو کردی، مگر اس ملک کے حقیقی دشمنوں اور حقیقی خیرخواہ دونوں کو قدرے مایوس بھی کیا۔ دشمن تو جھڑکوں سے مغالطہ کھا کر سمجھے کہ ان کے دل کی مراد پوری ہونے لگی ہے، مگر عدالت نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے جذبات پر اوس ڈال دی۔ خیرخواہ آس لگا بیٹھے تھے کہ دیوار قہقہہ ہمیشہ کےلیے ختم ہوجائے گی۔ عدالت عظمیٰ ہی کی سربراہی کی طرح فوج کی سربراہی کا بھی کوئی متعین رہنما اصول وضع کرنے کی ہدایت جاری ہوگی۔ جو ظاہر ہے نہیں ہوئی کہ یہ عدالت کے دائرہ کار سے باہر تھا۔ درخواست توسیع سے متعلق زیرسماعت تھی۔ فوجی سربراہ کے چناؤ کے طریقہ کار پر اعتراض نہیں اٹھایا گیا تھا۔ اصل میں خیرخواہ بھی جھڑکوں سے مغالطہ کھا گئے کہ بات توسیع سے آگے بڑھے گی لیکن عدالت نے سرکاری مسودے میں املا کی غلطی پر توجہ مرکوز کرانے پر ہی اکتفا کیا۔
نہایت ادب کے ساتھ عرض ہے کہ وزیراعظم کا فوجی سربراہ کے چناؤ کا صوابدیدی اختیار، جس پر عدالت کو بھی کوئی ابہام نہ تھا، وہی اصل معاملہ تھا جو بدستور جوں کا توں رہا۔ کسی بھی فوجی افسر کو آرمی چیف بنانے کےلیے جاری ہونے والا وزیراعظم کا مراسلہ بیک وقت تقرری بھی ہے اور توسیع بھی۔ تقرری تو سمجھ آتی ہے، توسیع کی وضاحت کچھ یوں ہے کہ فوجی افسر کی مدت ملازمت ختم ہونے میں چاہے ایک گھنٹہ رہ گیا ہو، وزیراعظم کا مراسلہ اسے تین سال کی توسیع بخش دیتا ہے۔ گویا یہ مراسلہ فوجی افسر کی ریٹائرمنٹ کو غیر موثر کردیتا ہے اور افسر اپنی مدت ملازمت کے اعتبار سے بطور ریٹائرڈ چیف نئی مدت گزارتا ہے۔ آئین کی جو شق وزیراعظم کو یہ اختیار دیتی ہے وہ اس عمل کو دہرانے سے بھی نہیں روکتی۔ روکنا تو پہلی دفعہ کا فائدہ مند ہوگا، جس جانب توجہ مبذول کرانے کی جرأت رندانہ کی جارہی ہے۔ ہمارے وزرائے اعظم نے فوجی سربراہوں کے انتخاب کا شوق پال کر تاحال کیا پایا:
وائے دیوانگی شوق کہ ہر دم مجھ کو
آپ جانا ادھر اور آپ ہی پریشاں ہونا
اس شوق کے ذریعے فوج میں سیاست کے بیج کون بوتا ہے؟ وہی جسے شکایت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ بہتر ہوگا کہ فوج بھٹو دور کے مذکورہ قانون کو آرمی ایکٹ کا حصہ بناکر اپنے سربراہ کے چناؤ اور توسیع کا طریقہ کار بھی وضع کرلے اور وزیراعظم سے منظوری محض رسمی کارروائی تک محدود رکھی جائے۔ یوں آئینی تقاضا بھی پورا ہوجائے گا اور نئی قانون سازی کی بھی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ جب تک وزیراعظم کا صوابدیدی اختیار رسمی اختیار میں نہیں بدلے گا، یاجوج ماجوج کی دیوار قہقہہ ہمارا منہ چڑاتی رہے گی۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔