نااہلی کی حد ہو گئی پولیس ملزم ڈھونڈنے کا کام بھی مدعی سے لیتی ہےچیف جسٹس افتخار چوہدری
گاڑی چوری کے ملزم کی ضمانت خارج، بااثرافرادکے دباؤ پرغریب خاتون سے راضی نامہ کرایاگیا
چیف جسٹس نے قراردیا ہے کہ پولیس کی نااہلی کی حد ہوگئی ہے، وہ اب ملزمان کی تلاش کا کام بھی مدعی سے لیتی ہے، گاڑی چوری کے مقدمے میں ملزم کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کے دوران انھوں نے کہا بااثر لوگوں کے دبائو پرغریب عورت سے راضی نامہ کرا لیا گیا جبکہ ملزم کا چوری میں واضح کردار نظر آتا ہے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی، ملزم یاسرکے وکیل نے عدالت کو بتایا علاقے کے بااثر افراد کے سامنے درخواست گزار کا مدعی خاتون کے ساتھ راضی نامہ ہو گیا ہے اور اسے اب کوئی اعتراض نہیں، جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پوچھا کہ ملزم نے عورت کوکتنے پیسے ادا کیے؟ وکیل نے بتایا کہ ایک لاکھ 40 ہزار ادا کیے گئے ہیں ۔عدالت نے جب خاتون سے گاڑی کی قیمت دریافت کی تو اس نے بتایا کہ 8لاکھ کی تھی۔ اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ 8 لاکھ کی کارکے ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر ایک عورت کی بے بسی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہاکہ خاتون دیگر ملزمان کی نشاندہی نہیں کرسکی، چیف جسٹس نے کہاکہ نشاندہی کا ٹرینڈ پرانا ہو گیا ہے،اب تو پولیس مدعی سے کہتی ہے کہ ملزم تلاش کرکے بھی لائو۔
یاسر نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ اس نے چابی حوالے کی تھی، اس کیس میں پولیس والے جیل جائیں گے، انھوں نے گاڑی برآمد کیوں نہیں کی۔ بعد ازاں عدالت نے ملزم یاسر کی درخواست ضمانت خارج کردی۔ایف آئی آر کے مطابق مذکورہ خاتون نے کار یاسر نامی شخص کو بطور ٹیکسی چلانے کے لیے دی ہوئی تھی جس نے گاڑی چوری کے بعد بیان دیا کہ وہ سواری کو لے جا رہا تھا اس دوران گاڑی پارک میں کھڑی کی اور چابی سواری کے حوالے کرکے کسی کام سے باہرگیا، واپس آیا توگاڑی وہاں نہیں تھی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے وہ دورگیا جب کسی ملک کے استحکام اور اسکی سلامتی کا فیصلہ اس کے پاس موجود میزائلوں،ٹینکوں اورموجود مادی قوت کی بنیادپرکیا جاتا تھا۔
آج ملکی سلامتی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ملک اپنے شہریوں کومعاشرتی تحفظ دینے، ان کے لیے فلاحی ادارے قائم کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں کتنا کامیاب ہے۔پیر کو نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا یہ میراپختہ عقیدہ ہے کہ مضبوط بنیادوں پرقائم ادارے ہی پائیدار میکنزم اور معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی ترقی کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔انھوں نے کہا عدلیہ مسلسل کوشش میں ہے کہ اس ملک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کودوبارہ لکھا جائے اور یہ کہ نہ صرف سابقہ گناہوںکی تلافی کی جائے بلکہ شفافیت،قانون کی حکمرانی اورآئین میں دیے ہوئے حقوق کے نفاذکو یقینی بنانے کے لیے نئی مثالیں قائم کی جائیں۔
انھوں نے مسائل کے حل کے لیے پائیدار پالیسیوں کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اداروں کو قائم کرنے اور چلانے کے لیے ایک تعلیم یافتہ، بہتر تربیت یافتہ، متحرک اورمخلص بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔انھوں نے کہا ایک فلاحی ریاست صرف جمہوری نظام سے ہی ممکن ہے اور ایک جمہوری نظام حکومت کے ساتھ وابستگی کی تکمیل کے لیے عدلیہ نے بطورایک ادارہ اپنی شعوری کوشش کی ہے کہ ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا رہا جائے جوعوام کے لیے مددگار اور اداروں کے لیے استحکام کا باعث ہوں اورجوملک کے اندر جمہوری نظام کی ترقی کے استحکام کی باعث ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا سب کچھ غارت نہیں ہوا ہے بلکہ ترقی اور توازن کے حصول کے لیے اب بھی بہتر ماحول موجود ہے، ہمارے پاس ایک متحرک میڈیا موجود ہے جوعوامی مفاد سے متعلق معاملات کی خبرگیری اور چوکیداری کررہا ہے،کثیر تعداد میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو عوامی فلاح سے متعلق معاملات پر یک آواز ہو جاتی ہیں اور پھر ہمارے پاس ایک آزاد عدلیہ ہے جس کی ذمے داری میں یہ بھی شامل ہے کہ ملک کے اندر ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے خواہ آسمان ہی کیوں نہ گرِ جائے۔
چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں3 رکنی بینچ نے سماعت کی، ملزم یاسرکے وکیل نے عدالت کو بتایا علاقے کے بااثر افراد کے سامنے درخواست گزار کا مدعی خاتون کے ساتھ راضی نامہ ہو گیا ہے اور اسے اب کوئی اعتراض نہیں، جسٹس سرمد جلال عثمانی نے پوچھا کہ ملزم نے عورت کوکتنے پیسے ادا کیے؟ وکیل نے بتایا کہ ایک لاکھ 40 ہزار ادا کیے گئے ہیں ۔عدالت نے جب خاتون سے گاڑی کی قیمت دریافت کی تو اس نے بتایا کہ 8لاکھ کی تھی۔ اس پرچیف جسٹس نے کہاکہ 8 لاکھ کی کارکے ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر ایک عورت کی بے بسی کا فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ ملزم کے وکیل نے کہاکہ خاتون دیگر ملزمان کی نشاندہی نہیں کرسکی، چیف جسٹس نے کہاکہ نشاندہی کا ٹرینڈ پرانا ہو گیا ہے،اب تو پولیس مدعی سے کہتی ہے کہ ملزم تلاش کرکے بھی لائو۔
یاسر نے خود تسلیم کرلیا ہے کہ اس نے چابی حوالے کی تھی، اس کیس میں پولیس والے جیل جائیں گے، انھوں نے گاڑی برآمد کیوں نہیں کی۔ بعد ازاں عدالت نے ملزم یاسر کی درخواست ضمانت خارج کردی۔ایف آئی آر کے مطابق مذکورہ خاتون نے کار یاسر نامی شخص کو بطور ٹیکسی چلانے کے لیے دی ہوئی تھی جس نے گاڑی چوری کے بعد بیان دیا کہ وہ سواری کو لے جا رہا تھا اس دوران گاڑی پارک میں کھڑی کی اور چابی سواری کے حوالے کرکے کسی کام سے باہرگیا، واپس آیا توگاڑی وہاں نہیں تھی۔چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے وہ دورگیا جب کسی ملک کے استحکام اور اسکی سلامتی کا فیصلہ اس کے پاس موجود میزائلوں،ٹینکوں اورموجود مادی قوت کی بنیادپرکیا جاتا تھا۔
آج ملکی سلامتی کا پیمانہ یہ ہے کہ وہ ملک اپنے شہریوں کومعاشرتی تحفظ دینے، ان کے لیے فلاحی ادارے قائم کرنے اور ان کے بنیادی حقوق کا تحفظ کرنے میں کتنا کامیاب ہے۔پیر کو نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا یہ میراپختہ عقیدہ ہے کہ مضبوط بنیادوں پرقائم ادارے ہی پائیدار میکنزم اور معاشی، معاشرتی، سیاسی اور تہذیبی ترقی کے لیے بنیاد فراہم کرتے ہیں۔انھوں نے کہا عدلیہ مسلسل کوشش میں ہے کہ اس ملک کی آئینی اور سیاسی تاریخ کودوبارہ لکھا جائے اور یہ کہ نہ صرف سابقہ گناہوںکی تلافی کی جائے بلکہ شفافیت،قانون کی حکمرانی اورآئین میں دیے ہوئے حقوق کے نفاذکو یقینی بنانے کے لیے نئی مثالیں قائم کی جائیں۔
انھوں نے مسائل کے حل کے لیے پائیدار پالیسیوں کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ قومی اداروں کو قائم کرنے اور چلانے کے لیے ایک تعلیم یافتہ، بہتر تربیت یافتہ، متحرک اورمخلص بیوروکریسی کی ضرورت ہوتی ہے۔انھوں نے کہا ایک فلاحی ریاست صرف جمہوری نظام سے ہی ممکن ہے اور ایک جمہوری نظام حکومت کے ساتھ وابستگی کی تکمیل کے لیے عدلیہ نے بطورایک ادارہ اپنی شعوری کوشش کی ہے کہ ایسی پالیسیوں پر عمل پیرا رہا جائے جوعوام کے لیے مددگار اور اداروں کے لیے استحکام کا باعث ہوں اورجوملک کے اندر جمہوری نظام کی ترقی کے استحکام کی باعث ہوں۔
چیف جسٹس نے کہا سب کچھ غارت نہیں ہوا ہے بلکہ ترقی اور توازن کے حصول کے لیے اب بھی بہتر ماحول موجود ہے، ہمارے پاس ایک متحرک میڈیا موجود ہے جوعوامی مفاد سے متعلق معاملات کی خبرگیری اور چوکیداری کررہا ہے،کثیر تعداد میں ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود ہیں جو عوامی فلاح سے متعلق معاملات پر یک آواز ہو جاتی ہیں اور پھر ہمارے پاس ایک آزاد عدلیہ ہے جس کی ذمے داری میں یہ بھی شامل ہے کہ ملک کے اندر ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی کو یقینی بنایا جائے خواہ آسمان ہی کیوں نہ گرِ جائے۔