اسلام اور پشتون اخلاقیات
دوستی تو سب بہت اچھی طرح نبھاتے ہیں لیکن دشمنی بھی اچھی اور وقار کے ساتھ نبھائی جائے تب پتہ چلتا ہے۔
KARACHI:
ویسے تو ہم کافی عرصے سے جناب علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب قدس سرہ کو ''مس'' کر رہے ہیں کہ جب سے انھوں نے ہم سے ناتا توڑ کر ممالک غیر میں مسند جمائی ہے، ہر ہر وقت ان کی یاد آتی ہے بلکہ ''ستاتی'' ہے۔ وہ جو پیا گئے تھے رنگون اس نے تو پھر بھی وہاں سے ٹیلی فون کیا تھا کہ تمہاری یاد ستاتی ہے، ہمارے پیا تو ٹیلی فون بھی نہیں کرتے اور نہ ہمارا وصول کرتے ہیں۔
آپ آتے بھی نہیں ہم کو بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
بلکہ ہمارا پتنگے جیسا حال ہو رہا ہے، جب دنیا میں لاٹین پھر شمع دان، پھر بلب اور پھر فانوس وغیرہ آ گئے تو کسی دکھی عاشق نے ''پروانے'' کو یا خود اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
پتنگہ خاورے دے پہ سر شوے
شمعے تہ جوڑ شول پہ شیشو کے مکانونہ
یعنی اے پتنگہ تو در بدر اور خاک بسر ہو گیا کہ ''شمع'' کے لیے اب شیشے کے مکان تعمیر ہو گئے ہیں، شیشوں کی جگہ آپ کناڈا بھی رکھ سکتے ہیں۔ دراصل حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر جناب طاہر القادری کی یاد ہمیں اس لیے بہت آتی ہے کہ کچھ باتیں کچھ مسائل کچھ سوال ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جواب صرف وہی دے سکتے ہیں کیونکہ علامہ اور پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی معاملات اور اسرار و سلوک کی دنیاؤں سے بھی واقف ہیں، صاحبان دیوان سے بھی ان کا رابطہ ہے اور دوسرے جہانوں میں جھانک لیتے ہیں لیکن اب کے جو مسئلہ یا سوال ہمیں درپیش ہے وہ ہمیں بہت پریشان کیے ہوئے ہے ، انصاف داروں میں سے ایک ٹاپو ٹاپ کے انصاف دار نے ایک نہایت ہی اہم اور ریاست مدینہ کے شایان شان بیان دیا ہے۔
جس میں ملک کے واحد چور بلکہ چور اعظم نواز شریف کے بارے میں کہا ہے۔ کہ پہلے سعودی عرب بھاگ گئے، اب لندن بھاگے۔ شرم وحیا بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ ان کو انصاف کا یہ دورہ بلکہ جہاد کا جذبہ نواز شریف کے ایئر المبولینس میں جانے پر چڑھا ہے اور اپنے ٹوئیٹر پر یہ کلمہ خیر نشر کیا ہے جو اخبار میں بھی آیا۔ کسی چیز کے یا شاید پانی والے کے وزیر بھی ہیں۔ ہم علامہ صاحب سے یہ استدعا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا عالم دیوان ہیں جھانک کر دیکھیں کہ مذکورہ وزیر کو اس سراپا اخلاق اور شرافت سے بھرپور بیان پر کتنے ''نوافل'' کا ثواب ملا ہے اور اس کے کھانے میں کتنا ثواب دارین اور جزائے عظیم جمع ہواہے۔
تا کہ دوسرے بھی اس کے نقش قدم بلکہ نقش زبان پر چل کر ثواب کمانا شروع کر دیں۔ ثواب دارین یہ اس لیے کہ اس جہاں میں بھی ایسے بیانات کا صلہ ملتا ہے اور اگلے جہاں میں کہنے ہی کیا ہیں۔ یعنی ہم خرما و ہم ثواب تو پہلے سے تھا لیکن اب ''کچھ اور'' کھانے کا ثواب دونوں جہانوں میں ملے گا۔ جناب ڈاکٹر پروفیسر سے ہم اس جہان کے ثواب کا پتہ کرنا چاہتے ہیں ورنہ اس جہاں کا پتہ تو ہمیں اخباروں سے لگتا رہتا ہے کہ نیکی کا کام پھیلتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ ریاست مدینہ کے سربراہ جن کو اب بجا طور پر امیرالمومین اور ''خلیفتہ المسلمین'' کا خطاب ملنا چاہیے، انھوں اپنی زبان مبارک اور دہان مقدس سے بہت سارے پھول جھاڑے ہیں جو سارے کے سارے نواز شریف اور اس کی بیماری پر نچھاور کیے گئے ہیں۔
جن کی خوشبو سارے عالم میں پھیل گئی ہے۔ مثلاً۔ نواز شریف کو جہاز پر چڑھتے دیکھ کر حیران رہ گیا، اللہ کی شان ہے، ڈاکٹرز کی رپورٹس سامنے رکھیں، ہارٹ ٹھیک نہیں، شوگر ٹھیک نہیں، پلیٹ لٹیس بھی ٹھیک نہیں ، مریض کا اتنا برا حال ہے کہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے، مریض جہاز دیکھ کر ٹھیک ہوا یا لندن کی ہوا لگنے سے۔ ہمیں اپنے گاؤں کا ایک واقعہ یاد ہے جو زبان زدعام و خاص ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی تاک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ شخص آتا دکھائی دیا، اس نے ٹریگر پر انگلی رکھی لیکن رینج میں آنے سے پہلے ہی وہ شخص کھانسنے لگا ،کھانستے کھانستے اچانک اس کے منہ سے خون کا فوارہ نکلا اور پھر وہ خود بھی گر کر بے ہوش ہو گیا۔
تاک لگائے دشمن کو سکتہ سا ہو گیا۔ پھر اچانک وہ دوڑ کر گیا، اس شخص کو دیکھا بھالا اور کندھے پر ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا، گھر والوں نے علاج معالجہ کیا اور اس شخص کی جان بچ گئی۔ بعد میں لوگ اس شخص سے جب پوچھتے تو وہ جواب دیتا، اگر میں اس مریض اور ادھ مرے انسان کو مارتا تو میری بہادری کی کیا قیمت رہ جاتی،کسی مرے ہوئے کو مارنا مردانگی نہیں بلکہ بزدلی اور ذلالت ہے۔ یہ شخص علاقے کا نامی گرامی آدمی تھا اور ہم نے خود اسے دیکھا تھا۔ دوسرا واقعہ اور مشہور قاتل مفرور کا ہے ''ڈبنگے'' اس کا نام تھا۔ ہمارے ہی زمانے میں تھا۔ اس کے بارے میں ایک چشم دید نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنی مسلح پارٹی کے ساتھ ایک گاؤں سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے اس کے دشمن کے گھر کی خواتین آتی ہوئی دکھائی دیں۔
خواتین خوف کے مارے راستے کی طرف پشت کر کے کھڑی ہو گئیں اور خوف سے کانپنے لگیں۔ ڈبنگے نے بھی ان کو پہچان لیا۔ تھوڑی دیر ان کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنے ایک ساتھی کو بلایا، اس ساتھی کے پاس کباب اور روٹیاں تھیں جو انھوں نے راستے میں لی تھیں کہ کسی جگہ اطمینان سے بیٹھ کر کھائیں گے لیکن اب وہ پوٹلی اس نے لے کرخود ان خواتین میں سے ایک کے ہاتھ میں دی اور اپنی پارٹی کو لے کر چلا گیا۔ اسے کہتے ہیں اخلاق اور عالی ظرفی کسی گھرے ہوئے دشمن پر بھی وار اس وقت تک نہیں کیا جاتا جب تک وہ کھڑا نہ ہو۔ ہم دنیا میں بہت کچھ اچھے برے کام کرتے رہتے ہیں لیکن اخلاق کا زیور ہرگز نہیں اتارنا چاہیے۔
کسی بزرگ نے کہا بھی ہے کہ دوستی تو سب بہت اچھی طرح نبھاتے ہیں لیکن دشمنی بھی اچھی اور وقار کے ساتھ نبھائی جائے تب پتہ چلتا ہے۔ ہماری خود ایک خاتون سے تین پشت سے دشمنی چلی آ رہی ہے لیکن آج تک دشمنی کے باوجود شادی تو نہیں لیکن غمی بالکل منقطع نہیں ہوئی ہے۔ کسی کو کوئی بھی تکلیف ہو، حادثہ بیماری یا کچھ بھی۔ تو عیادت اور عذرداری باقاعدگی سے جاری رہتی ہے اور دکھ ہمیں اس بات پر ہے کہ اوروں کو تو ایک طرف کر دیجیے جناب کپتان صاحب کو تو پشتون ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔
ویسے تو ہم کافی عرصے سے جناب علامہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب قدس سرہ کو ''مس'' کر رہے ہیں کہ جب سے انھوں نے ہم سے ناتا توڑ کر ممالک غیر میں مسند جمائی ہے، ہر ہر وقت ان کی یاد آتی ہے بلکہ ''ستاتی'' ہے۔ وہ جو پیا گئے تھے رنگون اس نے تو پھر بھی وہاں سے ٹیلی فون کیا تھا کہ تمہاری یاد ستاتی ہے، ہمارے پیا تو ٹیلی فون بھی نہیں کرتے اور نہ ہمارا وصول کرتے ہیں۔
آپ آتے بھی نہیں ہم کو بلاتے بھی نہیں
باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں
بلکہ ہمارا پتنگے جیسا حال ہو رہا ہے، جب دنیا میں لاٹین پھر شمع دان، پھر بلب اور پھر فانوس وغیرہ آ گئے تو کسی دکھی عاشق نے ''پروانے'' کو یا خود اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا کہ:
پتنگہ خاورے دے پہ سر شوے
شمعے تہ جوڑ شول پہ شیشو کے مکانونہ
یعنی اے پتنگہ تو در بدر اور خاک بسر ہو گیا کہ ''شمع'' کے لیے اب شیشے کے مکان تعمیر ہو گئے ہیں، شیشوں کی جگہ آپ کناڈا بھی رکھ سکتے ہیں۔ دراصل حضرت علامہ ڈاکٹر پروفیسر جناب طاہر القادری کی یاد ہمیں اس لیے بہت آتی ہے کہ کچھ باتیں کچھ مسائل کچھ سوال ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کا جواب صرف وہی دے سکتے ہیں کیونکہ علامہ اور پروفیسر ہونے کے ساتھ ساتھ روحانی معاملات اور اسرار و سلوک کی دنیاؤں سے بھی واقف ہیں، صاحبان دیوان سے بھی ان کا رابطہ ہے اور دوسرے جہانوں میں جھانک لیتے ہیں لیکن اب کے جو مسئلہ یا سوال ہمیں درپیش ہے وہ ہمیں بہت پریشان کیے ہوئے ہے ، انصاف داروں میں سے ایک ٹاپو ٹاپ کے انصاف دار نے ایک نہایت ہی اہم اور ریاست مدینہ کے شایان شان بیان دیا ہے۔
جس میں ملک کے واحد چور بلکہ چور اعظم نواز شریف کے بارے میں کہا ہے۔ کہ پہلے سعودی عرب بھاگ گئے، اب لندن بھاگے۔ شرم وحیا بھی کوئی چیز ہے کہ نہیں۔ ان کو انصاف کا یہ دورہ بلکہ جہاد کا جذبہ نواز شریف کے ایئر المبولینس میں جانے پر چڑھا ہے اور اپنے ٹوئیٹر پر یہ کلمہ خیر نشر کیا ہے جو اخبار میں بھی آیا۔ کسی چیز کے یا شاید پانی والے کے وزیر بھی ہیں۔ ہم علامہ صاحب سے یہ استدعا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ ذرا عالم دیوان ہیں جھانک کر دیکھیں کہ مذکورہ وزیر کو اس سراپا اخلاق اور شرافت سے بھرپور بیان پر کتنے ''نوافل'' کا ثواب ملا ہے اور اس کے کھانے میں کتنا ثواب دارین اور جزائے عظیم جمع ہواہے۔
تا کہ دوسرے بھی اس کے نقش قدم بلکہ نقش زبان پر چل کر ثواب کمانا شروع کر دیں۔ ثواب دارین یہ اس لیے کہ اس جہاں میں بھی ایسے بیانات کا صلہ ملتا ہے اور اگلے جہاں میں کہنے ہی کیا ہیں۔ یعنی ہم خرما و ہم ثواب تو پہلے سے تھا لیکن اب ''کچھ اور'' کھانے کا ثواب دونوں جہانوں میں ملے گا۔ جناب ڈاکٹر پروفیسر سے ہم اس جہان کے ثواب کا پتہ کرنا چاہتے ہیں ورنہ اس جہاں کا پتہ تو ہمیں اخباروں سے لگتا رہتا ہے کہ نیکی کا کام پھیلتا چلا جاتا ہے۔ چنانچہ ریاست مدینہ کے سربراہ جن کو اب بجا طور پر امیرالمومین اور ''خلیفتہ المسلمین'' کا خطاب ملنا چاہیے، انھوں اپنی زبان مبارک اور دہان مقدس سے بہت سارے پھول جھاڑے ہیں جو سارے کے سارے نواز شریف اور اس کی بیماری پر نچھاور کیے گئے ہیں۔
جن کی خوشبو سارے عالم میں پھیل گئی ہے۔ مثلاً۔ نواز شریف کو جہاز پر چڑھتے دیکھ کر حیران رہ گیا، اللہ کی شان ہے، ڈاکٹرز کی رپورٹس سامنے رکھیں، ہارٹ ٹھیک نہیں، شوگر ٹھیک نہیں، پلیٹ لٹیس بھی ٹھیک نہیں ، مریض کا اتنا برا حال ہے کہ کسی بھی وقت مر سکتا ہے، مریض جہاز دیکھ کر ٹھیک ہوا یا لندن کی ہوا لگنے سے۔ ہمیں اپنے گاؤں کا ایک واقعہ یاد ہے جو زبان زدعام و خاص ہے کہ ایک شخص کسی دوسرے کو قتل کرنے کی تاک لگائے بیٹھا تھا۔ وہ شخص آتا دکھائی دیا، اس نے ٹریگر پر انگلی رکھی لیکن رینج میں آنے سے پہلے ہی وہ شخص کھانسنے لگا ،کھانستے کھانستے اچانک اس کے منہ سے خون کا فوارہ نکلا اور پھر وہ خود بھی گر کر بے ہوش ہو گیا۔
تاک لگائے دشمن کو سکتہ سا ہو گیا۔ پھر اچانک وہ دوڑ کر گیا، اس شخص کو دیکھا بھالا اور کندھے پر ڈال کر اس کے گھر پہنچا دیا، گھر والوں نے علاج معالجہ کیا اور اس شخص کی جان بچ گئی۔ بعد میں لوگ اس شخص سے جب پوچھتے تو وہ جواب دیتا، اگر میں اس مریض اور ادھ مرے انسان کو مارتا تو میری بہادری کی کیا قیمت رہ جاتی،کسی مرے ہوئے کو مارنا مردانگی نہیں بلکہ بزدلی اور ذلالت ہے۔ یہ شخص علاقے کا نامی گرامی آدمی تھا اور ہم نے خود اسے دیکھا تھا۔ دوسرا واقعہ اور مشہور قاتل مفرور کا ہے ''ڈبنگے'' اس کا نام تھا۔ ہمارے ہی زمانے میں تھا۔ اس کے بارے میں ایک چشم دید نے بتایا کہ ایک دن وہ اپنی مسلح پارٹی کے ساتھ ایک گاؤں سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے اس کے دشمن کے گھر کی خواتین آتی ہوئی دکھائی دیں۔
خواتین خوف کے مارے راستے کی طرف پشت کر کے کھڑی ہو گئیں اور خوف سے کانپنے لگیں۔ ڈبنگے نے بھی ان کو پہچان لیا۔ تھوڑی دیر ان کی طرف دیکھتا رہا پھر اپنے ایک ساتھی کو بلایا، اس ساتھی کے پاس کباب اور روٹیاں تھیں جو انھوں نے راستے میں لی تھیں کہ کسی جگہ اطمینان سے بیٹھ کر کھائیں گے لیکن اب وہ پوٹلی اس نے لے کرخود ان خواتین میں سے ایک کے ہاتھ میں دی اور اپنی پارٹی کو لے کر چلا گیا۔ اسے کہتے ہیں اخلاق اور عالی ظرفی کسی گھرے ہوئے دشمن پر بھی وار اس وقت تک نہیں کیا جاتا جب تک وہ کھڑا نہ ہو۔ ہم دنیا میں بہت کچھ اچھے برے کام کرتے رہتے ہیں لیکن اخلاق کا زیور ہرگز نہیں اتارنا چاہیے۔
کسی بزرگ نے کہا بھی ہے کہ دوستی تو سب بہت اچھی طرح نبھاتے ہیں لیکن دشمنی بھی اچھی اور وقار کے ساتھ نبھائی جائے تب پتہ چلتا ہے۔ ہماری خود ایک خاتون سے تین پشت سے دشمنی چلی آ رہی ہے لیکن آج تک دشمنی کے باوجود شادی تو نہیں لیکن غمی بالکل منقطع نہیں ہوئی ہے۔ کسی کو کوئی بھی تکلیف ہو، حادثہ بیماری یا کچھ بھی۔ تو عیادت اور عذرداری باقاعدگی سے جاری رہتی ہے اور دکھ ہمیں اس بات پر ہے کہ اوروں کو تو ایک طرف کر دیجیے جناب کپتان صاحب کو تو پشتون ہونے کا بھی دعویٰ ہے۔