ہم کیا کریں گے
سقراط کا ’’صفائی کا بیان‘‘ ہم پڑھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں۔ س
اکیسویں صدی آغاز ہوئی تو ہمارا خیال تھا کہ انسان نے بیسویں صدی کی خوں ریزیوں سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور اکیسویں صدی امن چین کی صدی ہوگی لیکن نائن الیون نے پہلے برس سے دنیا کو سر کے بل کھڑا کر دیا۔ اس کے بعد سے اب تک کرہ ارض پر رہنے والوں کو چین نہیں آیا۔ مشرق وسطیٰ کی سڑکیں خون سے نہا گئیں۔ آج ہانگ کانگ میں لاکھوں لوگ کوچہ و بازار میں ہیں۔
پاکستان کے مختلف بڑے اور چھوٹے شہروں میں ہزاروں طلبا سرخ پرچم لہراتے اور چی گویرا کی تصویریں اٹھائے یونین سازی کا اپنا حق مانگنے نکلے ہیں۔ مقتدرین انھیں بتا رہے ہیں کہ یونیورسٹیاں تشدد کا مرکز ہیں اور یونین سازی کے اصول مقتدرین طے کریں گے۔ ایسے میں ملک کے دانشوروں، ادیبوں، صحافیوں اور مزدور رہنماؤں کا خاموش رہنا اور ان کا احتجاج کرنے والوں کے شانہ بہ شانہ، نہ چلنا کسی جرم سے کم نہیں۔
اس حوالے سے سیکڑوں ہزاروں برس پہلے دانشور اور اہل قلم اپنی ذمے داریوں کے اصول متعین کر گئے ہیں۔ یہ وہی ہیں جنھوں نے غور و فکر سے اپنے سماج کو تبدیل کیا اور فکری ارتقا کی راہیں نکالیں۔ ان مرحلوں سے گزرتے ہوئے کچھ اپنی جان سے گئے، کچھ نے جلاوطنی سہی، کچھ غدار اور گمراہ ٹھہرے۔ یہ ڈھائی ہزار برس پہلے کے یونانی تھے جنھوں نے سچ اور باضمیری کے نہایت کڑے معیار قائم کیے۔
سقراط کا ''صفائی کا بیان'' ہم پڑھتے ہیں اور حیران ہوتے ہیں۔ سقراط پر دیوتاؤں سے بغاوت اور شہر کے نوجوانوں کو گمراہ کرنے کا الزام تھا۔ اس پر بغاوت کا مقدمہ چلا اور موت کی سزا سنائی گئی۔ وہ جب اپنا دفاع کرنے کے لیے کھڑا ہوا تو اس نے کہا ''اے ایتھنز والو! جب تک میری جان میں جان ہے اور بدن میں طاقت ہے، میں فلسفے پر عمل کرنا اور اس کی تعلیم دینا نہیں چھوڑوں گا۔
تم مجھے رہا کرو یا نہ کرو، دونوں صورتوں میں یہ جان لو کہ میں اپنا راستہ کبھی نہیں بدلوں گا۔'' سزائے موت سے چند گھنٹوں پہلے جب اس کے دوستوں نے اسے قید خانے سے فرار کرانا چاہا تو اس نے یہ کہہ کر ان کی پیشکش ٹھکرا دی کہ ''میں دنیا سے ایک ظالم کی حیثیت سے نہیں ایک مظلوم کے طور پر رخصت ہونا چاہتا ہوں۔''
تاریخ اسلام کے صفحوں پر ہمیں ابن رشد، منصور حلاج، رازی اور سرمد ایسے متعدد کردار ملتے ہیں جن میں سے کئی اپنے افکار و خیالات کی وجہ سے زندگی، زندان میں گزار کر ختم ہوئے۔ کسی نے سولی پر یوں جان دی کہ اس کا بدن تین دن اور تین رات کترا جاتا رہا اور کسی کی گردن جامع مسجد، دلی کی سیڑھیوں پر اڑا دی گئی۔
دانشوروں اور اہل قلم نے اپنی ذمے داریوں کو سولہویں صدی سے ہی بہت شدت سے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا۔ 1600ء میں اپنے عہد کے ایک بڑے دانشور، شاعر، ریاضی داں اور ہیئت داں برونو سے کلیسا بہت ناراض تھے۔ اس کے سائنسی خیالات کی زد مذہب عقائد پر پڑتی تھی۔
اسے گرفتار کیا گیا اور سات برس تک اس پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلا۔ برونو کو موت کی سزا سنائی گئی اور سیکڑوں افراد کی موجودگی میں روم کے ایک چوک میں ناقابل یقین تشدد کے بعد اسے زندہ جلا دیا گیا اور لوگ کلیسا کے حق میں پُرجوش نعرے لگاتے رہے۔ برونو کو تاریخ میں سائنس کا پہلا شہید کہا گیا ہے۔ برونو کی ہلاکت کے 16 برس بعد گلیلیو نے بھی خیال دشمن پادریوں کے سامنے ایک توہین آمیز مقدمے کا سامنا کیا۔ برونو اور گلیلیو وہ لوگ ہیں جنھوں نے اپنی علمی اور سائنسی تحقیقات پر اصرار نہ کیا ہوتا تو انسان چاند پر قدم نہ رکھ سکتا تھا اور نہ جہاز کروڑوں میل دور سے مریخ کے احوال کی خبر لاتا۔
صنعتی انقلاب اور چھاپے خانے کی ایجاد نے اہل قلم اور اہل دانش کی ذمے داریوں کو روز افزوں کیا۔ اپنے رجعت پسند اور عقل دشمن سماج کو بدلنے کی کوشش کرنے والوں میں روسو اور والٹیر سامنے کے نام ہیں۔ انقلاب فرانس کی بنیادیں ان کے خیالات پر استوار ہوئیں۔ حقوق انسانی، آزادی تحریر و تقریر، دنیا کے تمام انسانوں کے لیے مساوی حقوق اور عدل و انصاف کا آوازہ آج دنیا کے ہر کونے میں سنا جا رہا ہے۔
اٹھارہویں صدی میں تھامس پائین جیسے متعدد دانشوروں نے انسانی حقوق رائج کرنے کے لیے بھاری قیمت ادا کی۔ عورتوں کے حقوق کے لیے جون اسٹوارٹ اور دوسروں نے کتابیں لکھیں۔ میری اسٹون وال کرافٹ سے ورجینیا وولف اور ایما گولڈمان تک درجنوں دانشور عورتیں تھیں جنھوں نے اپنے قلم اور عمل سے عورتوں کے مساوی حقوق کی لڑائی لڑی جو آج تک جاری ہے۔ اسی طرح مارکس نے جلاوطنی اور مفلسی کی زندگی گزار کر دنیا بھر کے مزدوروں اور محنت کشوں کو منظم کیا اور سوشلسٹ انقلاب کی بنیاد رکھی۔
اٹھارہویں اور انیسویں صدی سیاسی اور سماجی شکست و ریخت کی صدیاں تھیں۔ شاہی، جاگیرداری اور اشرافیہ پسپائی پر تھی۔ مساوات، عدل و انصاف، غلامی کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کے لیے سیکڑوں اہل قلم کی جدوجہد جاری تھی۔ اخباروں اور جریدوں کی اشاعت کے سبب شخصی اور مذہبی آزادی کے معاملات لوگوں کی توجہ کا مرکز بن رہے تھے۔
یہ انیسویں صدی کے آخری دن تھے جب فرانس میں ایک یہودی فوجی افسر پر چلنے والا مقدمہ فرانس کے مشہور ادیب ژولا کو مضطرب کرگیا۔ اس نے 1898 میں فرانسیسی صدی کے نام ایک کھلا خط اخبار میں شایع کرایا۔ یہ خط تاریخ میں J Accuse کے نام سے مشہور ہے۔ اس خط نے مجبور، مفلس اور بے آسرا اقلیتوں کے حقوق کی لڑائی کا سرنامہ لکھا۔ ژولا کو ایک اعلیٰ عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ جان بچانے کے لیے اسے انگلستان میں پناہ لینی پڑی۔ کرنل ڈرینس پر دوبارہ سے مقدمہ چلا اور جب اس کی بے گناہی ثابت ہوگئی تو ژولا کی عزت اور احترام میں بے حد اضافہ ہوگیا۔
بیسویں صدی کی تیسری، چوتھی اور پانچویں دہائی میں یورپ نے نازی فاش ازم اور دوسری جنگ عظیم کو جھیلا۔ لاکھوں لوگ یہودی ہونے کے جرم میں ہلاک کیے گئے۔ ان کے لیے انصاف مانگنے اور فاشزم سے لڑنے والے جرمن ادیب، سائنسدان اور دانشور جان بچانے کے لیے یورپ کے ایک سے دوسرے ملک میں پناہ لیتے رہے۔ بریخت، ہرمن ہسیے، تھامس مان،ا سٹیفن ژویگ اور فرائیڈ اس کی سامنے کی مثال ہیں۔
1945 میں جاپان کے دو شہروں پر امریکا کا ایٹمی حملہ دنیا بھر کے دانشوروں اور اہل قلم کو دہلا گیا۔ رسل، آئن اسٹائن، سارتر، سیمون دی بووا، آندرے سخاروف اور متعدد دوسرے اہل قلم کی ایٹمی ہتھیاروں کے خلاف مزاحمت نے انھیں اپنی حکومتوں اور عوام کی نگاہوں میں غدار ٹھہرایا۔ الجزائر کو فرانس سے آزادی دلانے کے لیے جو جدوجہد ہو رہی تھی اس نے باضمیر ادیبوں اور دانشوروں کو قاتلانہ حملوں کا نشانہ بنایا۔ اسی طرح ویت نام کی جنگ کے خلاف امریکا اور یورپ کے ادیبوں کی سخت مزاحمت نے رائے عامہ کو حکومت کے خلاف کر دیا اور بات وہاں تک پہنچی کہ امریکا کو ویت نام سے رخصت ہونا پڑا۔
ہم اگر دنیا کے نقشے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ بیسویں اور اکیسویں صدی کے آغاز سے دنیا بھر کے بیشتر ملکوں میں دانشوروں اور اہل قلم نے ظلم اور نا انصافی کے خلاف جم کر لڑائی لڑی ہے۔ آج ہمارے یہاں پُر جوش طلبا اپنے حق کے لیے سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔
وہ یونین سازی کا اور آزادی اظہار کا حق مانگ رہے ہیں، جواباً ان سے کہا جا رہا ہے کہ یونیورسٹیاں تشدد کا گڑھ ہیں۔ کیسی عجیب بات ہے کہ مشال خان جو یونیورسٹی انتظامیہ کی طرف سے بدترین تشدد کا نشانہ بنا، اس کی داد رسی کے بجائے طلبا کو تشدد کا محرک اور مرتکب قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ ہمارے سوچنے کی بات ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ان کا حق دلانے کے لیے ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے یا تماشائی کی طرح ان پر ہونے والے تشدد کو دیکھتے رہیں گے۔