فنکار اثاثہ ان کی حفاظت ہم پر فرض
دنیا کا سب سے حساس طبقہ فنکار لوگ ہوتے ہیں، تبھی یہ ایک دوسرے کے لیے خاص جذبات رکھتے ہیں۔
''مجھے پھولوں کی نہیں امداد کی ضرورت ہے''یہ الفاظ کسی اور کے نہیں بلکہ صدارتی ایوارڈ یافتہ لیجنڈ گلوکار شوکت علی کے ہیں جو آج کل جگر کے مرض میں مبتلا ہیں اور اسپتال سے گھر اور گھر سے پھر اسپتال والی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک فنکار کے منہ سے ''امداد'' جیسے اعلانیہ الفاظ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ہم صرف ''مردہ پرست'' لوگ ہیں جو دنیا میں زندوں کی قدر کرنے کے بجائے اُن کی پوجا کرتے ہیں جو مر جاتے ہیں۔
اُن کے لیے قل خوانی، چہلم، تعزیتی ریفرنس، سیمینارز اور یادداشتوں سے بھری تقریبات کا اہتمام کر کے اپنے تئیں ضمیر کو مطمئن کرنے کی بھی کوششوں میں مصروف رہتے ہیں۔ خیر شوکت علی صاحب کے یہ الفاظ جب اخبار میں پڑھے تو میں نے خود میں بھی شرم محسوس کی اور سوچا کہ اگر ہم کچھ کر نہیں کر سکتے تو حکومت کے گوش گزار ایک کالم ہی لکھ دیں کہ وہ ان فنکاروں کو کم از کم ''فکرِ معاش'' سے آزاد کرے تاکہ جب یہ اگلی عمر میں اپنے فن کی تاثیر کھو چکے ہوتے ہیں تو ان کا بڑھاپا کسی پر بوجھ نہ بن جائے۔
ماہرین نفسیات کی تحقیق کے مطابق دنیا کا سب سے حساس طبقہ فنکار لوگ ہوتے ہیں، تبھی یہ ایک دوسرے کے لیے خاص جذبات رکھتے ہیں، اور ایک دوسرے کی جتنی ممکن ہو سکے مدد بھی کرتے ہیں ۔ مگر جب انھیں ''فوٹو شوٹ'' کے ساتھ ''امدادی چیک'' دیا جاتا ہے تو یہ مارے شرم کے سر چھپائے پھرتے ہیں۔ اور یہ عادت ہمارا قومی مسئلہ بن چکا ہے۔
یا اگر یہ کہلایا جائے کہ ہمارے حکمرانوں سے لے کر اداروں تک کے سربراہان ایک ہی بیماری میں مبتلا ہیں کہ کسی کو سو پچاس، ہزار دو ہزار بھی دیتے ہیں تو اس موقع پر تصویر اتار کر اسے میڈیا پر شایع اور نشر کر کے بطور سند استعمال کرنا ضروری سمجھتے ہیں، اس حوالے سے گزشتہ کئی ادوار سے مختلف وزرائے اعظم، وزرائے اعلیٰ، وزراء بلکہ نچلے درجے کے افسران بالا تک کو ''مستحقین'' میں زکوٰۃ تک کے چیک تقسیم کرتے وقت شریف لوگوں کی ''پگڑیاں'' اچھالتے یعنی پبلک مقامات پر ان کو چیک دے کر شرمندہ کرتے ، پوری قوم دیکھتی آ رہی ہے، حتیٰ کہ امان اللہ جیسے بڑے فنکار کو بھی امدادی چیک دیتے وقت کھینچی گئی تصویر کو میڈیا پر وائرل کر دیا گیا حالانکہ بے چارہ ایسے موقع پر تصویر اتروانے سے انکار کی تاب کہاں لا سکتا تھا۔ اقبال عظیم آبادی نے کہا تھا کہ
جھک کر سلام کرنے میں حرج ہے، مگر
سر اتنا مت جھکاؤ کہ دستار گر پڑے
مگر ان معاملات میں تو ''سائلوں'' کے سر اتنے جھکا دیے جاتے ہیں کہ بے چارے شرم کے ہاتھوں پھر اسے اٹھانے کی ہمت ہی نہیں کر سکتے اور کسی سے آنکھ ملانے کی جرأت ان میں باقی نہیں رہتی ، الغرض جب سے فنکاروں کے وظائف بند ہوئے ہیں تب سے شاید متعلقہ حکام فنکاروںکی''موت''کی خبروں ہی کے منتظر رہنے لگے ہیں کہ کب کوئی مرتا ہے اور اس کے لواحقین کو تجہیز و تکفین کے اخراجات کے کھاتے میں کچھ رقم دے کر حاتم کی قبر پر لات مار دی جائے، حالانکہ باوقار قومیں اپنے اہل کمال کو پہلے تو باعزت روزگار کے بہترین مواقعے فراہم کرتی ہیں اور اگر اس کے باوجود ان کے حالات نہیں بدلتے تو پھر ان کی ''دادرسی''کا اہتمام کیا جاتا ہے، بہت سے بیماریوں میں مبتلا ہو گئے اور کافی سارے دال روٹی کمانے کی چکر میں فن سے کنارا کشی اختیار کر گئے۔
آپ اداکارہ دیبا ہی کو دیکھ لیں اُن کے شوہر 2016 میں انتقال کر گئے تھے، وہ آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہیں۔دیبا نے 250 فلموں میں کام کیا لیکن آج انھیں حکومتی امداد دینے والے افسران پوچھتے کہ یہ کون ہیں؟ حالانکہ اب بھی وہ گاہے بگاہے ٹیلی ویژن ڈراموں میں جلوہ افروز ہوتی ہیں۔ دیبا 70اور 80 کی دہائی کی فلموں کی مشہور ہیروئن تھی، جس نے زیبا، شبنم، آسیہ، رانی، فردوس، سنگیتا، نغمہ نشو'انجمن اور دیگر بڑی ہیروئنوں کے جلو میں اپنی منفرد پہچان بنائی۔
قلوپطرہ کے سراپا والی یہ اداکارہ محمد علی، اعجاز، وحید مراد، ندیم، شاہد، حبیب، یوسف خان اور مسعود اختر کے مقابل سیکڑوں فلموں میں ہیروئن آئی۔ اس کی دل موہ لینے والی اداکاری کا ایک زمانہ معترف ہے۔ المیہ اداکاری میں وہ پتھر دلوں کو بھی آنسو بہانے پر مجبور کر دیا کرتی تھی۔ اس کی یادگار فلموں میں ''ملن، آئینہ،پائل کی جھنکار، سنگدل، درد، جب سے دیکھا ہے تمہیں، نیند ہماری خواب تمہارے، سجناں دور دیا، آنسو، پردیس، صدقے تیری موت توں، روٹی، سرمایہ، وطن کے رکھوالے، انٹرنیشنل لٹیرے اور پَل دو پَل سرفہرست ہیں۔ جب کہ ٹی وی ڈراموں ''مورت، منزل، سرکار صاحب اور ریاست'' میں بھی انھوں نے یادگار کردار ادا کیے لیکن آج انھیں بھی ہم بھلا رہے ہیں۔
المختصر آپ فنکاروں کی مشکلات کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ جب حکومت نے مالی معاونت کے لیے درخواستیں طلب کیں تو انھیں ایک چھوٹے صوبے سے پچیس سو سے زیادہ فنکاروں کی درخواستیں ملی تھیں، جن میں سے بعض مالی لحاظ سے کافی مشکل حالات کا سامنا کر رہے تھے۔ اس وقت حکومت نے ان سے وعدہ کیا تھا کہ اگلے سال مزید فنکاروں کو ''ثقافت کے زندہ امین'' اسکیم میں شامل کیا جائے گا لیکن بقول شاعر
کوئی نہیں ہمارا پرسان حال اب کے
پہلے سے بھی شکستہ آیا ہے سال اب کے
بہرحال اپنے وقت میں عوام کے دلوں پر راج کرنے اور لاکھوں روپے کمانے والے سپراسٹارز کی بڑھاپے میں کسمپرسی کی زندگی المیہ سے کم نہیں۔ مگر اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ جب زبوں حالی کے شکار فنکار دادرسی کے لیے حکومت سے رجوع کرتے ہیں تو سرکاری افسران ان کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ ان کا نامہ اعمال کیا ہے؟اس حوالے سے معروف ڈریس ڈیزائنربی جی کا نام نہ لیا جائے تو یہ زیادتی ہوگی، بی جی نے اپنے ذاتی تعلقات کی بنیاد پر درجنوں مستحق فنکاروں کو ان کا حق دلوایا لیکن موجودہ حکومت تا حال فنکاروں کو تسلی ہی دے رہی ہے۔یہی وجہ ہے شوکت علی جیسا فنکار یہ کہنے پر مجبور ہوگیا ہے کہ مجھے پھولوں کی نہیں بلکہ مدد کی ضرورت ہے۔
لہٰذاموجودہ حکومت سے التماس ہے کہ جہاں حکومت نے ملک کو بحرانوںاور عذابوں سے نکالنے کے لیے انقلابی اقدامات کا آغاز کر رکھا ہے۔ زبوں حالی کی شکار معیشت بڑی حد تک سدھر چکی ہے، خارجہ پالیسی میں بہتری سے بگڑی سنور رہی ہے۔ اسی طرح تحریک انصاف کی حکومت فنکاروں کی فلاح و بہبود کے لیے بھی کمر بستہ رہے، مستحق فنکاروں کی مالی امداد کو یقینی بنائے ، ''آرٹسٹ ہیلتھ انشورنس کارڈ'' جاری کرے تاکہ یہ حساس لوگ جو قوم کا سرمایہ ہیں ان کی عزت نفس بھی مجروح نہ ہو اور انھیں ان کا حق بھی ملتا رہے!