تحریک انصاف سنٹرل پنجاب کی تنظیم سازی شدید اختلافات کا شکار
تنظیم سازی کے عمل میں بامعنی مشاورت کا نہ ہونا تنازعات کا سبب بنا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی تنظیم سازی کا معاملہ اس اونٹ کی مانند ہے جو کسی جانب بھی ٹھیک سے بیٹھ ہی پاتا۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان حکومتی امور میں زیادہ مصروف ہو چکے ہیں اور انہوں نے اس مرتبہ ہونے والی تنظیم سازی میںذاتی دلچسپی نہیں لی اور معاملات چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ،سیکرٹری جنرل عامر کیانی کے سپرد کر دیئے تھے۔
ان دونوں نے ریجنل تنظیمیں بنانے کے بعد ضلعی اور تحصیل کی تنظیمیں بنانے کیلئے تمام اختیارات ریجنل تنظیموں کے حوالے کر دیئے تھے تاکہ ریجنل عہدیدار گراونڈ لیول پر بامعنی مشاورت اور تمام مقامی رہنماوں کو آن بورڈ لیکر تنظیم سازی کریں۔ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ چند ماہ قبل عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشنل کونسل نے صوبائی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ بنانے کی منظوری دی تھی ۔
جس کے بعد پنجاب کا صوبائی صدر اعجاز چوہدری کو مقرر کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ضلعی تنظیم سازی کے امور پر اعجاز چوہدری کی مخالفت شدت اختیار کر گئی، بالخصوص سیکرٹری جنرل عامر کیانی کو بعض معاملات پر تحفظات تھے جس کے بعد صوبائی تنظیمی ڈھانچہ ختم کر کے ریجنل تنظیمیں بنانے کا فیصلہ ہوا ۔اس موقع پر آپس میں بہترین دوست قرار دیئے جانے والے سیف نیازی اور عامر کیانی کے درمیان بھی اختلاف رائے پیدا گیا۔ عامر کیانی پنجاب کو 4 ریجن میں تقسیم کرنے کے حق میں تھے لیکن حتمی فیصلہ 3 ریجن بنانے کے حق میں ہوا۔
پنجاب میں تنظیم سازی کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ اعتراضات، تحفظات اور الزامات سنٹرل ریجن میں کی جانے والی ضلع و تحصیل تنظیم سازی کے حوالے سے سامنے آرہے ہیںجبکہ عہدیداروں کے انتخاب کے تنازعہ پر ہی تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سنٹرل ریجن کے جنرل سیکرٹری شعیب صدیقی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا کیونکہ وہ ایک متوازن اور اکثریت کیلئے قابل قبول تنظیم بنانے کے حق میں تھے ۔
ٹکٹ ہولڈرز اور اہم رہنماو ں کی ایک بڑی تعداد کاکہنا ہے کہ ان کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی ،کچھ کا الزام ہے کہ ایک دو دفعہ ملاقات میں ہونے والی سرسری گفتگو کو مشاورت کا نام دیکر اپنی مرضی کے بندے لگا دیئے گئے جبکہ کچھ لوگ تو یہ گفتگو بھی کر رہے ہیں کہ ہم ''گاڑی'' دیکر عہدہ لینے کی استعداد نہیں رکھتے اس لئے اب ''نیلامی'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔عمران خان کا کئی برسوں سے یہ خواب رہا ہے کہ تحریک انصاف ایک منظم اور متحد سیاسی جماعت بنے لیکن افسوس کہ آج تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
سنٹرل پنجاب میں تنظیم سازی تنازعات کی بات کریں تو سب سے بڑا اعتراض شمالی لاہور تنظیم کا صدر بنائے جانے والے غلام محی الدین دیوان کے اوپر کیا جا رہا ہے جو بڑی حد تک درست ہے۔غلام محی الدین دیوان کو اعجاز چوہدری کے نہایت''قریب'' سمجھا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ لاہور میں تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کی مخالفت کے باوجود دیوان صاحب کو صدر بنا دیا گیا ہے جس کے خلاف آئندہ چند روز میں ٹکٹ ہولڈرز کی بڑی تعداد چیف آرگنائزر سے ملاقات کر کے ریویو پٹیشن جمع کروانے والی ہے، اس پٹیشن میں صوبائی حکومت کی جانب سے نظر انداز کیئے جانے اور ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کا شکوہ بھی درج ہوگا۔
اس حوالے سے لاہور کے صوبائی ٹکٹ ہولڈرز عبدالکریم کلواڑ،ملک زمان نصیب، ارشاد ڈوگر، خالد گھرکی، خالد گجر(شاہدرہ والے)،ملک آصف، میاں افتخار، چوہدری یوسف ،بلال اسلم بھٹی نے آپس میں مشاورت مکمل کر لی ہے۔شمالی تنظیم کے جنرل سیکرٹری مہر واجد عظیم ایک منجھے ہوئے تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کے غلام محی الدین دیوان کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ایک موقع ایسا بھی آیا کہ مہر واجد عظیم استعفی دینے لگے تھے لیکن شعیب صدیقی سمیت دیگر رہنماوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ دیوان صاحب آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن ہیں اور درحقیقت وہ لاہور میں آزاد کشمیر کے مکینوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی تحریک انصاف کیلئے کوئی قابل ذکر خدمات بھی نہیں ہیں جس وجہ سے ان کی مخالفت شدت اختیار کر رہی ہے۔
شمالی تنظیم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مہر وسیم کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ جمشید اقبال چیمہ کی سفارش پر بنائے گئے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 ء کے الیکشن میں جمشید چیمہ کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ خالد گھرکی کی بجائے مہر وسیم کو صوبائی حلقے میں بطور امیدوار اپنے ساتھ شامل کرلیں لیکن اس وقت جمشید چیمہ نے یہ بات نہیں مانی اور مہر وسیم نے ن لیگ کا ساتھ دیا تھا لیکن اب چیمہ صاحب خالد گھرکی کی جگہ مہر وسیم کو تیار کر رہے ہیں۔
جنوبی لاہور کی تنظیم کا صدر ظہیر عباس کھوکھر کو بنایا گیا ہے جو ایک محنتی اور پارٹی کے وفادار رہنما ہیں لیکن ریجنل عہدیداروں نے بنا رضامندی لئے اعجاز ڈیال جیسے مرکزی اور اہم ترین رہنما کو سینئر نائب صدر جیسے عہدے پر نوٹیفائی کردیا جس پرا عجاز ڈیال نے عہدہ لینے سے انکار کردیا ہے جبکہ طویل عرصہ سے غیر فعال میاں اکرم عثمان کو اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ہے جو کہ صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کے قریبی عزیز ہیں۔اس تنظیم میں وفاقی وزیر شفقت محمود کی سفارش پر علی عباس بوبی اور عاصم شوکت کو شامل کیا گیا ہے۔دیگر اضلاع میں بھی تنازعات سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
نارووال میں ضلعی صدر طارق انیس چوہدری کو بنایا گیا ہے جنہوں نے 2018 میں تحریک انصاف کے خلاف الیکشن میں حصہ لیاتھا۔ سیالکوٹ میں قومی اور صوبائی حلقوں کے 16 ٹکٹ ہولڈرز بشمول وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے متفقہ طور پر کہا کہ ضلع سیالکوٹ کا صدر عمر ڈار اور جنرل سیکرٹری عظیم نوری گھمن کو بنایا جائے لیکن ان سب کونظر انداز کرتے ہوئے تمام تنظیم سازی عمر مائر گروپ کے سپرد کردی گئی۔
گوجرانوالہ سٹی میں صدر بنائے جانے والے رانا ساجد علی خان کے حوالے سے بھی تنازعات جنم لے رہے ہیں اور مقامی رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان رانا ساجد کی بجائے پارٹی کے پرانے رہنما رانا ساجد علی کو بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔گجرات سٹی کے صدر علیم اللہ وڑائچ اور جنرل سیکرٹری عثمان ،فیروز والہ سٹی کے صدر ملک تنویر اور جنرل سیکرٹری صغیر وڑائچ، مرید کے سٹی کے صدر میاں عبد الروف اور جنرل سیکرٹری طارق ریان کی تقرری بھی متنازعہ ہو چکی ہے ،اوکاڑہ میں عباس رضا کو صدر بنانے کی بھرپور مخالفت ہو رہی ہے۔شیخوپورہ میں مقامی رہنماوں کی اکثریت سرفراز ڈوگر کو صدر بنانے کے حق میں تھی لیکن کنور عمران سعید کو بنا دیا گیا۔
تنظیم سازی کے عمل میں بامعنی مشاورت کا نہ ہونا تنازعات کا سبب بنا ہے ،عبدالعلیم خان اور عمر ڈار سنٹرل پنجاب ریجن کے صدر رہے ہیں بالخصوص عبدالعلیم خان نے جس محنت سے پارٹی کیلئے کام کیا اس کا اعتراف تو عمران خان بھی کرتے ہیں، ملک اسد کھوکھر کے ضمنی الیکشن میں عمر ڈار نے شاندار کام کیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شدت اور تیزی سے تنظیم سازی پر اعتراضات اور الزامات سامنے آرہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے اعجاز چوہدری کی شخصیت ساتھی رہنماوں کی مخالفت اور اعتراضات کی وجہ سے متنازعہ ہو رہی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کپتان کو یہ تنظیمیں بھی تحلیل کرنا پڑ جائیں گی۔
وزیر اعظم بننے کے بعد عمران خان حکومتی امور میں زیادہ مصروف ہو چکے ہیں اور انہوں نے اس مرتبہ ہونے والی تنظیم سازی میںذاتی دلچسپی نہیں لی اور معاملات چیف آرگنائزر سیف اللہ نیازی ،سیکرٹری جنرل عامر کیانی کے سپرد کر دیئے تھے۔
ان دونوں نے ریجنل تنظیمیں بنانے کے بعد ضلعی اور تحصیل کی تنظیمیں بنانے کیلئے تمام اختیارات ریجنل تنظیموں کے حوالے کر دیئے تھے تاکہ ریجنل عہدیدار گراونڈ لیول پر بامعنی مشاورت اور تمام مقامی رہنماوں کو آن بورڈ لیکر تنظیم سازی کریں۔ یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ چند ماہ قبل عمران خان کی سربراہی میں تحریک انصاف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور نیشنل کونسل نے صوبائی سطح پر تنظیمی ڈھانچہ بنانے کی منظوری دی تھی ۔
جس کے بعد پنجاب کا صوبائی صدر اعجاز چوہدری کو مقرر کیا گیا لیکن کچھ عرصہ بعد ضلعی تنظیم سازی کے امور پر اعجاز چوہدری کی مخالفت شدت اختیار کر گئی، بالخصوص سیکرٹری جنرل عامر کیانی کو بعض معاملات پر تحفظات تھے جس کے بعد صوبائی تنظیمی ڈھانچہ ختم کر کے ریجنل تنظیمیں بنانے کا فیصلہ ہوا ۔اس موقع پر آپس میں بہترین دوست قرار دیئے جانے والے سیف نیازی اور عامر کیانی کے درمیان بھی اختلاف رائے پیدا گیا۔ عامر کیانی پنجاب کو 4 ریجن میں تقسیم کرنے کے حق میں تھے لیکن حتمی فیصلہ 3 ریجن بنانے کے حق میں ہوا۔
پنجاب میں تنظیم سازی کی بات کی جائے تو سب سے زیادہ اعتراضات، تحفظات اور الزامات سنٹرل ریجن میں کی جانے والی ضلع و تحصیل تنظیم سازی کے حوالے سے سامنے آرہے ہیںجبکہ عہدیداروں کے انتخاب کے تنازعہ پر ہی تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سنٹرل ریجن کے جنرل سیکرٹری شعیب صدیقی نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا تھا کیونکہ وہ ایک متوازن اور اکثریت کیلئے قابل قبول تنظیم بنانے کے حق میں تھے ۔
ٹکٹ ہولڈرز اور اہم رہنماو ں کی ایک بڑی تعداد کاکہنا ہے کہ ان کے ساتھ مشاورت نہیں کی گئی ،کچھ کا الزام ہے کہ ایک دو دفعہ ملاقات میں ہونے والی سرسری گفتگو کو مشاورت کا نام دیکر اپنی مرضی کے بندے لگا دیئے گئے جبکہ کچھ لوگ تو یہ گفتگو بھی کر رہے ہیں کہ ہم ''گاڑی'' دیکر عہدہ لینے کی استعداد نہیں رکھتے اس لئے اب ''نیلامی'' سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔عمران خان کا کئی برسوں سے یہ خواب رہا ہے کہ تحریک انصاف ایک منظم اور متحد سیاسی جماعت بنے لیکن افسوس کہ آج تک ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔
سنٹرل پنجاب میں تنظیم سازی تنازعات کی بات کریں تو سب سے بڑا اعتراض شمالی لاہور تنظیم کا صدر بنائے جانے والے غلام محی الدین دیوان کے اوپر کیا جا رہا ہے جو بڑی حد تک درست ہے۔غلام محی الدین دیوان کو اعجاز چوہدری کے نہایت''قریب'' سمجھا جاتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ لاہور میں تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کی بہت بڑی تعداد کی مخالفت کے باوجود دیوان صاحب کو صدر بنا دیا گیا ہے جس کے خلاف آئندہ چند روز میں ٹکٹ ہولڈرز کی بڑی تعداد چیف آرگنائزر سے ملاقات کر کے ریویو پٹیشن جمع کروانے والی ہے، اس پٹیشن میں صوبائی حکومت کی جانب سے نظر انداز کیئے جانے اور ترقیاتی فنڈز نہ ملنے کا شکوہ بھی درج ہوگا۔
اس حوالے سے لاہور کے صوبائی ٹکٹ ہولڈرز عبدالکریم کلواڑ،ملک زمان نصیب، ارشاد ڈوگر، خالد گھرکی، خالد گجر(شاہدرہ والے)،ملک آصف، میاں افتخار، چوہدری یوسف ،بلال اسلم بھٹی نے آپس میں مشاورت مکمل کر لی ہے۔شمالی تنظیم کے جنرل سیکرٹری مہر واجد عظیم ایک منجھے ہوئے تجربہ کار سیاستدان ہیں۔ ان کے غلام محی الدین دیوان کے ساتھ اختلافات بھی سامنے آ رہے ہیں۔
ایک موقع ایسا بھی آیا کہ مہر واجد عظیم استعفی دینے لگے تھے لیکن شعیب صدیقی سمیت دیگر رہنماوں نے انہیں ایسا کرنے سے روک دیا۔ دیوان صاحب آزاد کشمیر اسمبلی کے رکن ہیں اور درحقیقت وہ لاہور میں آزاد کشمیر کے مکینوں کی نمائندگی کرتے ہیں اور ان کی تحریک انصاف کیلئے کوئی قابل ذکر خدمات بھی نہیں ہیں جس وجہ سے ان کی مخالفت شدت اختیار کر رہی ہے۔
شمالی تنظیم کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل مہر وسیم کے بارے کہا جا رہا ہے کہ وہ جمشید اقبال چیمہ کی سفارش پر بنائے گئے ہیں ،دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 ء کے الیکشن میں جمشید چیمہ کو یہ مشورہ دیا گیا تھا کہ خالد گھرکی کی بجائے مہر وسیم کو صوبائی حلقے میں بطور امیدوار اپنے ساتھ شامل کرلیں لیکن اس وقت جمشید چیمہ نے یہ بات نہیں مانی اور مہر وسیم نے ن لیگ کا ساتھ دیا تھا لیکن اب چیمہ صاحب خالد گھرکی کی جگہ مہر وسیم کو تیار کر رہے ہیں۔
جنوبی لاہور کی تنظیم کا صدر ظہیر عباس کھوکھر کو بنایا گیا ہے جو ایک محنتی اور پارٹی کے وفادار رہنما ہیں لیکن ریجنل عہدیداروں نے بنا رضامندی لئے اعجاز ڈیال جیسے مرکزی اور اہم ترین رہنما کو سینئر نائب صدر جیسے عہدے پر نوٹیفائی کردیا جس پرا عجاز ڈیال نے عہدہ لینے سے انکار کردیا ہے جبکہ طویل عرصہ سے غیر فعال میاں اکرم عثمان کو اس تنظیم کا جنرل سیکرٹری بنایا گیا ہے جو کہ صوبائی وزیر میاں محمود الرشید کے قریبی عزیز ہیں۔اس تنظیم میں وفاقی وزیر شفقت محمود کی سفارش پر علی عباس بوبی اور عاصم شوکت کو شامل کیا گیا ہے۔دیگر اضلاع میں بھی تنازعات سنگین ہوتے جا رہے ہیں۔
نارووال میں ضلعی صدر طارق انیس چوہدری کو بنایا گیا ہے جنہوں نے 2018 میں تحریک انصاف کے خلاف الیکشن میں حصہ لیاتھا۔ سیالکوٹ میں قومی اور صوبائی حلقوں کے 16 ٹکٹ ہولڈرز بشمول وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے متفقہ طور پر کہا کہ ضلع سیالکوٹ کا صدر عمر ڈار اور جنرل سیکرٹری عظیم نوری گھمن کو بنایا جائے لیکن ان سب کونظر انداز کرتے ہوئے تمام تنظیم سازی عمر مائر گروپ کے سپرد کردی گئی۔
گوجرانوالہ سٹی میں صدر بنائے جانے والے رانا ساجد علی خان کے حوالے سے بھی تنازعات جنم لے رہے ہیں اور مقامی رہنماوں کا کہنا ہے کہ ان رانا ساجد کی بجائے پارٹی کے پرانے رہنما رانا ساجد علی کو بنایا جاتا تو بہتر ہوتا۔گجرات سٹی کے صدر علیم اللہ وڑائچ اور جنرل سیکرٹری عثمان ،فیروز والہ سٹی کے صدر ملک تنویر اور جنرل سیکرٹری صغیر وڑائچ، مرید کے سٹی کے صدر میاں عبد الروف اور جنرل سیکرٹری طارق ریان کی تقرری بھی متنازعہ ہو چکی ہے ،اوکاڑہ میں عباس رضا کو صدر بنانے کی بھرپور مخالفت ہو رہی ہے۔شیخوپورہ میں مقامی رہنماوں کی اکثریت سرفراز ڈوگر کو صدر بنانے کے حق میں تھی لیکن کنور عمران سعید کو بنا دیا گیا۔
تنظیم سازی کے عمل میں بامعنی مشاورت کا نہ ہونا تنازعات کا سبب بنا ہے ،عبدالعلیم خان اور عمر ڈار سنٹرل پنجاب ریجن کے صدر رہے ہیں بالخصوص عبدالعلیم خان نے جس محنت سے پارٹی کیلئے کام کیا اس کا اعتراف تو عمران خان بھی کرتے ہیں، ملک اسد کھوکھر کے ضمنی الیکشن میں عمر ڈار نے شاندار کام کیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ جس شدت اور تیزی سے تنظیم سازی پر اعتراضات اور الزامات سامنے آرہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر سے اعجاز چوہدری کی شخصیت ساتھی رہنماوں کی مخالفت اور اعتراضات کی وجہ سے متنازعہ ہو رہی ہے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ آئندہ چند ماہ میں کپتان کو یہ تنظیمیں بھی تحلیل کرنا پڑ جائیں گی۔