مہنگائی کا خاتمہ اور مجسٹریسی نظام

امید کی جانی چاہیے کہ حکام اس آزمائش سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں گے جس پر عالمی مگرمچھوں کی نگاہ ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ حکام اس آزمائش سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں گے جس پر عالمی مگرمچھوں کی نگاہ ہے۔ فوٹو: فائل

ملکی اقتصادیات اور روزمرہ کی معاشی صورتحال بلاشبہ بریک تھرو اور مشکل فیصلوں کی اعصابی جنگ لڑ رہی ہے۔ معاشی ماہرین اور مسیحاؤں کی کوشش ہے کہ عوام کو معیشت کی بہتری کے اخباری بیانات کے بھنور سے نکالتے ہوئے حقائق کے ساحل مراد تک لایا جائے، جہاں قوم کو یقین ہو جائے کہ معیشت بحران سے نجات پانے کی آخری جنگ جیت لے گی۔

بادی النظر میں ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ موثر معاشی پالیسیوں کی بدولت حکومت ایک بہتر مستقبل کی طرف گامزن ہونے کا عندیہ دینے کی سر توڑ کوشش کررہی ہے، مگر اب دیکھنا یہ ہے کہ معاشی جدلیات کی حقیقت کیا ہے اور عوام کو ایک مستحکم معیشت کی ٹھوس نوید کب ملتی ہے؟

وفاقی وزیر اقتصادی امورحماد اظہر نے کہا ہے کہ مہنگائی اور ذخیرہ اندوزی پر قابو پانے کے لیے وفاقی حکومت صوبوں سے مجسٹریسی نظام کی بحالی پر مشاورت کر رہی ہے۔ یہاں مشیر خزانہ ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ اور چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی کے ساتھ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے مہنگائی کے اسباب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ افراط زرکے دہرے ہندسے میں رہنے کی ایک وجہ تو سپلائی کے موسمی مسائل اور بھارت کے ساتھ تجارت کا منقطع ہونا ہے، دوسرا انتظامیہ کی ناکامی اور تاجروں کی ذخیرہ اندوزی بھی ہے۔

حقیقت میں اسے انتظامی طور پر بنیادی سقم کہا جانا چاہیے، اور اس سیاق وسباق میں مجسٹریسی نظام کو عوام ''بڑی دیرکی مہرباں آتے آتے '' کو زیادہ مناسب حوالہ نہیں کہہ سکتے، اگرچہ اس نظام کی آمد بھی صورتحال کی بہتری کی ضمانت دے سکتی ہے ، بشرطیکہ ضلعی مشینری اور مارکیٹ فورسزکوکنٹرول کرنے کے لیے حکومت مڈل مین یا آڑھتیوں کو کھل کھیلنے کا موقع نہ دے ، پوری منڈی مائنڈ سیٹ کو اس بات کا پتا ہے کہ مہنگائی ، ذخیرہ اندوزی اور چور بازاری کے ناسورکو آڑھتیوں کو غیر موثر کرکے ہی طلب ورسد کے نظام کو سموتھ سیلنگ دی جاسکتی ہے۔

شہریوں کا سوال یہ ہے کہ ٹماٹر تمام تر تشہیر اور دلچسپ تشبیہات اور وزرا کے انوکھے مشوروں کے باوجود من مانی قیمتوں پر بک رہا ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کی معاشی رٹ بھی قائم نہیں، فری فار آل منڈی چل رہی ہے، عوام کا کچومر نکل رہا ہے، وفاقی وزیر اقتصادی امور کا کہنا تھا کہ ہم نے ملکی معیشت کو دیوالیہ ہونے سے بچایا ہے، لیکن حکومتی معاشی حکمت عملی سے غیر متفق ماہرین کی رائے ہے کہ عوام کا دیوالیہ بھی نکالے جانے سے بچانا ایک اہم ٹاسک ہے۔

حماد اظہر کا کہا صائب ہے کہ اب ہم چند ماہ میں ریکوری اور گروتھ کی طرف جائیں گے اور امید ہے جنوری یا فروری میں مہنگائی میں کمی آئے گی۔ لوگ اس ڈیڈ لائن کو یاد رکھیں گے، جنوری اور فروری زیادہ دور نہیں، لازم ہے کہ سبزی منڈیوں، مارکیٹوں ، خوردہ فروشوں ، گلی کوچوں کی پرچون دکانوں اور پوش تجارتی مراکز پر حکومتی معاشی پالیسی پوری طاقت سے نافذ کی جائے، اور عوام کو خون چوسنے والوں کو کیفرکردار تک پہنچایا جائے۔


اس موقعے پر مشیرخزانہ حفیظ شیخ نے کہا ہے کہ موڈیزکی رپورٹ نے پوری دنیا کے سامنے ہمارے معاشی اقدامات آشکارکیے،آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک بھی حکومت کی معاشی کارکردگی کے معترف ہیں، اگر سود کی ادائیگی ہٹا دیں تو مالی خسارہ ختم ہو چکا ہے، مہنگائی پر بھی قابو پالیں گے۔ حکومت نے پچھلے پانچ ماہ میں پیٹرول کی قیمت نہیں بڑھائی۔ انھوںنے امید ظاہر کی کہ دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑے گا۔ انھوں نے کہا کہ آئی ایم ایف ٹیم نے پاکستان کی اقتصادی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے 500 ارب ڈالرکی دوسری قسط جلدہی ریلیزکرنے کااعلان کیا ہے۔

ورلڈ بینک کے صدر نے بھی معاشی کارکردگی کو سراہا۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنے پروگرام میں تین ارب ڈالر کا اضافہ کیا ہے، موڈیز نے پاکستان کی ریٹنگزکو منفی سے ہٹا کر مستحکم قرار دیا ہے۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ 40 ہزارکی سطح عبور کرچکی ہے اور بلوم برگ نے پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کو دنیا کی سب سے بہترین کارکردگی والی اسٹاک مارکیٹ قرار دیا ہے، ہمارے ٹیکس محصولات میں گزشتہ سال کے مقابلے میں16 فیصد اضافہ ہوا، گزشتہ پانچ ماہ میں نان ٹیکس محصولات میں 100 فیصد اضافہ ہوا، حکومت نے اخراجات پر زبردست کنٹرول قائم رکھا ہے اور اسٹیٹ بینک کے ذخائر میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بتدریج کمی آرہی ہے۔ پچھلے 5 ماہ میں مالی خسارہ سرپلس میں گیا ، ٹیکس ریونیو میں ان 5 ماہ میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے، تجارتی خسارہ کم ہو رہا ہے، بین الاقوامی سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں 236 فیصد اضافہ ہوا ، پچھلے سال کے مقابلے میں ساڑھے 600 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری ہوئی، پاکستان میں بیرونی سرمایہ کاروں نے ایک ارب ڈالرکی پورٹ فولیو سرمایہ کاری کی۔ چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے کہا ری فنڈ میں کسی فرد واحد کا کوئی کردار نہیں ہے، 25 ارب کے ری فنڈ کلیم آئے، دس ارب کے ری فنڈ تھے، پانچ ارب کا ریفنڈ کلیم واپس کر چکے ہیں۔ اس پیش رفت کی اپنی اہمیت ہے ۔

تاہم تاجروں اور صنعت کاروں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے، ان کے معاملات پر ٹھنڈے دل کے ساتھ غور وفکر ہونا چاہیے، ملک میں صنعتی امن اور تاجرانہ کلچر کا عوامی مفاد میں پھلنا پھولنا شرط ہے۔ادھر منگل کو ڈاکٹر عبد الحفیظ شیخ سے ایشیاء کے لیے امریکی نائب معاون سیکریٹری خارجہ رابرٹ کاپروتھ نے ملاقات کی۔ ملاقات میں امریکی سفیر پال جونز اور امریکا کے ڈائریکٹر جنوب اور جنوبی ایشیا سیٹھ بلی ویس اور سیکریٹری خزانہ نوید کامران بلوچ بھی موجود تھے۔

مشیر خزانہ نے امریکی وفد کو پاکستان میں کلی معیشت (میکرو اکنامک) کے استحکام کے حصول کے لیے کی گئی حکومتی کوششوں اور بالخصوص حسابات جاریہ اور تجارتی خسارے میں کمی، محصولات میں اضافے،کرنسی کی شرح تبادلہ میں استحکام، اسٹاک ایکسچینج میں ہونے والی مثالی کاروباری سرگرمی سمیت حالیہ مہینوں میں حاصل ہونے والی دیگر اقتصادی کامیابیوں سے آگاہ کیا۔ بہر حال وزارت خزانہ و ریونیو کے ذرایع کے مطابق آئی ایم ایف نے بلڈرز اور ڈویلپرزکو ٹیکس ریلیف دینے کی تجویز مسترد کردی۔

ذرایع کا کہنا ہے کہ مالیاتی فنڈ نے زور دیا کہ آئی ایم ایف کا مسخ شدہ ٹیکس سسٹم میں انصاف اور مساوات لانے کی کوشش کی جائے، چیئرمین ایف بی آر شبر زیدی نے ایف بی آر کی تمام فارمیشنز کو بجلی اور گیس کی تقسیم کار کمپنیوں کے صنعتی اور تجارتی صارفین کی رجسٹریشن اور ان کے ان ٹیکس ریٹرن جمع کرائے جانے کو یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے، ٹوئٹر پر جاری اپنے پیغام میں انھوں نے کہا ہے کہ وہ صارفین جنہوں نے ابھی تک ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے انھیں ریٹرن دائر کرنے کی مدت میں توسیع سے استفادہ کرنا چاہیے۔

یہ خوش آیند بات ہے کہ حکمرانوں کو FATFکی یاد دامن گیر تھی، میڈیا کے مطابق پاکستان نے سال کی آخری سہ ماہی عمل درآمد رپورٹ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو جمع کرا دی۔ بتایا جاتا ہے کہ ایف اے ٹی ایٖ جائزے کے بعد پاکستان کو مفصل سوال نامہ بجھوائے گا، رپورٹ اور سوال نامہ پر بحث اگلے ماہ فیس ٹو فیس میٹنگ میں کی جائے گی، ذرایع کے مطابق حکومت نے گرے لسٹ سے نکلنے کی کوششیں تیز کردی ہیں،ایف اے ٹی ایف7 دسمبرکو پاکستان کی عمل درآمد رپورٹ کا ابتدائی جائزہ لے گا، امید کی جانی چاہیے کہ حکام اس آزمائش سے بھی سرخرو ہوکر نکلیں گے جس پر عالمی مگرمچھوں کی نگاہ ہے۔
Load Next Story