غیر مطمئن حکومتی حلیف
شکایات ہونے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کی طرح برملا وزیر اعظم سے اپنی جائز شکایات کا بھی اظہار نہیں کرتے۔
موجودہ حکومت میں سوا سال سے حلیف رہنے والی پارٹیوں نے پہلی بار سابق وزیر اعظم نواز شریف کی شدید علالت پر وزیر اعظم عمران خان کے موقف سے اختلاف کا اظہار برملا کیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، متحدہ کے کنوینر اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ پیر پگاڑا کی زیر قیادت حکومتی حلیف جی ڈی اے کے رکن قومی اسمبلی نے کھلے عام عمران خان کے موقف کی مخالفت کی اور کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے سلسلے میں حکومتی موقف کے حامی نہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں غیر مشروط طور پر باہر جانے دے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جنھیں حکومت نے خفیہ پلاننگ کے تحت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے بچایا تھا وہ بھی حکومت کی مشروط اجازت کے حامی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ 3 بار وزیر اعظم رہنے والے بیمار نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر سیاست نہ کی جائے اور انھیں غیر مشروط طور پر جانے دیا جائے۔ صادق سنجرانی بلوچستان حکومت بنانے والی حکومتی حلیف پارٹی بی اے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔
کے پی کے کی سابق پی ٹی آئی حکومت کی حلیف پارٹی جماعت اسلامی جو موجودہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں ہے وہ بھی کھلم کھلا موجودہ حکومت کی شدید مخالف ہے اور وزیر اعظم پر کڑی تنقید کرتی آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے اس کے اپنے ارکان اسمبلی بھی مطمئن نہیں ہیں جس کا برملا اظہار پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے قومی اسمبلی میں کیا تھا جن کی شکایات پر نوٹس لینے کی بجائے وزیر اعظم نے جھاڑ پلا دی تھی۔
جس کے بعد نور عالم خان جو امیر ترین رکن قومی اسمبلی ہیں اور پہلے پیپلز پارٹی میں تھے نہ جانے کیوں خاموش ہو گئے حالانکہ ان کے لیے مشہور ہے کہ حق بات کہنے اور عوام کی ترجمانی سے نہیں گھبراتے مگر وہ بھی خاموش کرا دیے گئے ہیں۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حکومتی فیصلے کی حکومتی حلیف جی ڈی اے بھی حامی نہیں اور ان کے رکن قومی اسمبلی اور جنرل پرویز مشرف دور کے وزیر ریلوے غوث بخش مہر نے برملا اس کا اظہار کیا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی موقف درست نہیں۔
چوہدری شجاعت حسین اپنے کزن چوہدری پرویز الٰہی کی طرح شریف فیملی کے خلاف کبھی سخت اور جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرتے اور دیرینہ تعلقات نبھانے پر یقین رکھتے ہیں انھوں نے نواز شریف کے مسئلے پر وزیر اعظم کو بروقت درست مشورے دیے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ملک میں زیر حراست نواز شریف کو کچھ ہو جاتا تو وزیر اعظم پر کلنک کا ٹیکہ لگ جاتا۔ چوہدری شجاعت نے وزیر اعظم سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے ایسے وزیروں کی سرزنش کریں جنھوں نے اس سلسلے میں عمران خان کو غلط مشورے دیے تھے۔
حکومت کے حلیفوں میں واحد مسلم لیگ (ق) ہے جو شکایات ہونے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کی طرح برملا وزیر اعظم سے اپنی جائز شکایات کا بھی اظہار نہیں کرتے۔ بجٹ کے موقع پر حکومت نے اپنے ایک اصول پسندی کے دعوے دار حلیف سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کی شکایتوں پر بجٹ منظور کرانے کے لیے ان کی بعض شکایات فوری رفع کر کے انھیں رام کر لیا تھا جس پر ان پر الزامات بھی لگے تھے جس کا جواب اختر مینگل نے نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بی این پی مینگل کی اصل شکایات بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے لوگوں سے متعلق تھیں جو اب تک دور نہیں ہوئیں اور اختر مینگل کسی بھی وقت اپنی شکایات کے لیے منظر عام پر آ سکتے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی جس کے سینیٹر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ ہیں بھی بعض معاملات پر اپنی رائے کا کھلا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بی اے پی کی صوبہ بلوچستان کی حکومت بھی اتحادیوں کی حکومت ہے مگر بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں کے پی کے مقابلے میں اب بھی دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور بلوچستان میں بھی سب اچھا نہیں ہے مگر وفاقی حکومت اپنی حلیف بلوچستان حکومت پر کبھی تنقید یا باز پرس نہیں کرتی جب کہ سندھ حکومت پر تنقید کے لیے وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنما موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور سندھ سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرانے کی متعدد کوششیں بھی کر چکے ہیں مگر ناکام رہے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال جو بی اے پی بنائے جانے سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر مملکت رہے ہیں وہ صرف اپنی حکومت اور اپنے لوگوں کے مفادات سے آگے نہیں جاتے اور وفاقی حکومت پر تنقید تو کیا کبھی جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ بھی نہیں کہتے انھیں اپنے صوبے کے مفادات کی بجائے صرف اپنی حکومت برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے پسماندہ صوبے کے لیے کبھی حکومت سے کچھ نہیں مانگتے اور ایسے ہی حکومتی حلیف پی ٹی آئی کو پسند ہیں۔
وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں ایک ایک مزید وزیر دینے کا وعدہ کیا تھا جس پر اب تک کوئی عمل نہیں ہوا جب کہ اپنے لوگوں کو عہدے دینے کا سلسلہ جاری ہے جس کا تازہ ثبوت گلوکار ابرار الحق کی تعیناتی ہے جس پر عمل ہائی کورٹ نے روک دیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنماؤں کی بجٹ کے بعد وزیر اعظم سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ چوہدری شجاعت وزیر اعظم سے ملاقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے حلیفوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے کہ اپنی حلیف جماعتوں کے سربراہوں سے خود ہی ملاقات کر لیں البتہ پی ٹی آئی کے دوسری سطح کے رہنماؤں کی (ق) لیگ قیادت سے ملاقات رہتی ہے مگر (ق) لیگ جو شکایات وزیر اعظم تک پہنچانا چاہتی ہے وہ وہاں تک نہیں پہنچتیں اور (ق) لیگ اپنا ساتھ نبھا رہی ہے کیونکہ وہ تعلقات آخر تک برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ایم کیو ایم کے کنوینر و وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی میئر کراچی وسیم اختر اور ڈپٹی کنوینر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کر رہی ہے اور وزیر اعظم نے کراچی کے لیے 162 ارب کے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔
حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت صرف آصف علی زرداری میں ہے اور وہ حلیفوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں مگر یہ صلاحیت وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر اعظم نواز شریف میں نہیں تھی جس کی سزا نواز شریف بھگت چکے اور لگتا یہی ہے کہ عمران خان بھی بھگتیں گے۔
مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین، متحدہ کے کنوینر اور وفاقی وزیر خالد مقبول صدیقی اور مسلم لیگ (ن) کے سربراہ پیر پگاڑا کی زیر قیادت حکومتی حلیف جی ڈی اے کے رکن قومی اسمبلی نے کھلے عام عمران خان کے موقف کی مخالفت کی اور کہا کہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے سلسلے میں حکومتی موقف کے حامی نہیں اور چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں غیر مشروط طور پر باہر جانے دے۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی جنھیں حکومت نے خفیہ پلاننگ کے تحت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے بچایا تھا وہ بھی حکومت کی مشروط اجازت کے حامی نہیں بلکہ کہتے ہیں کہ 3 بار وزیر اعظم رہنے والے بیمار نواز شریف کے بیرون ملک جانے پر سیاست نہ کی جائے اور انھیں غیر مشروط طور پر جانے دیا جائے۔ صادق سنجرانی بلوچستان حکومت بنانے والی حکومتی حلیف پارٹی بی اے پی سے تعلق رکھتے ہیں۔
کے پی کے کی سابق پی ٹی آئی حکومت کی حلیف پارٹی جماعت اسلامی جو موجودہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں ہے وہ بھی کھلم کھلا موجودہ حکومت کی شدید مخالف ہے اور وزیر اعظم پر کڑی تنقید کرتی آ رہی ہے۔ موجودہ حکومت کی پالیسیوں سے اس کے اپنے ارکان اسمبلی بھی مطمئن نہیں ہیں جس کا برملا اظہار پی ٹی آئی کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان نے قومی اسمبلی میں کیا تھا جن کی شکایات پر نوٹس لینے کی بجائے وزیر اعظم نے جھاڑ پلا دی تھی۔
جس کے بعد نور عالم خان جو امیر ترین رکن قومی اسمبلی ہیں اور پہلے پیپلز پارٹی میں تھے نہ جانے کیوں خاموش ہو گئے حالانکہ ان کے لیے مشہور ہے کہ حق بات کہنے اور عوام کی ترجمانی سے نہیں گھبراتے مگر وہ بھی خاموش کرا دیے گئے ہیں۔ نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے حکومتی فیصلے کی حکومتی حلیف جی ڈی اے بھی حامی نہیں اور ان کے رکن قومی اسمبلی اور جنرل پرویز مشرف دور کے وزیر ریلوے غوث بخش مہر نے برملا اس کا اظہار کیا ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی موقف درست نہیں۔
چوہدری شجاعت حسین اپنے کزن چوہدری پرویز الٰہی کی طرح شریف فیملی کے خلاف کبھی سخت اور جارحانہ رویہ اختیار نہیں کرتے اور دیرینہ تعلقات نبھانے پر یقین رکھتے ہیں انھوں نے نواز شریف کے مسئلے پر وزیر اعظم کو بروقت درست مشورے دیے اور یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ملک میں زیر حراست نواز شریف کو کچھ ہو جاتا تو وزیر اعظم پر کلنک کا ٹیکہ لگ جاتا۔ چوہدری شجاعت نے وزیر اعظم سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ اپنے ایسے وزیروں کی سرزنش کریں جنھوں نے اس سلسلے میں عمران خان کو غلط مشورے دیے تھے۔
حکومت کے حلیفوں میں واحد مسلم لیگ (ق) ہے جو شکایات ہونے کے باوجود متحدہ قومی موومنٹ کی طرح برملا وزیر اعظم سے اپنی جائز شکایات کا بھی اظہار نہیں کرتے۔ بجٹ کے موقع پر حکومت نے اپنے ایک اصول پسندی کے دعوے دار حلیف سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کی شکایتوں پر بجٹ منظور کرانے کے لیے ان کی بعض شکایات فوری رفع کر کے انھیں رام کر لیا تھا جس پر ان پر الزامات بھی لگے تھے جس کا جواب اختر مینگل نے نہیں دیا اور خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ بی این پی مینگل کی اصل شکایات بلوچستان سے لاپتہ کیے گئے لوگوں سے متعلق تھیں جو اب تک دور نہیں ہوئیں اور اختر مینگل کسی بھی وقت اپنی شکایات کے لیے منظر عام پر آ سکتے ہیں۔
بلوچستان عوامی پارٹی جس کے سینیٹر صادق سنجرانی چیئرمین سینیٹ ہیں بھی بعض معاملات پر اپنی رائے کا کھلا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بی اے پی کی صوبہ بلوچستان کی حکومت بھی اتحادیوں کی حکومت ہے مگر بلوچستان واحد صوبہ ہے جہاں کے پی کے مقابلے میں اب بھی دہشتگردی پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے اور بلوچستان میں بھی سب اچھا نہیں ہے مگر وفاقی حکومت اپنی حلیف بلوچستان حکومت پر کبھی تنقید یا باز پرس نہیں کرتی جب کہ سندھ حکومت پر تنقید کے لیے وفاقی حکومت اور پی ٹی آئی کے وزرا اور رہنما موقع کی تاک میں رہتے ہیں اور سندھ سے پیپلز پارٹی کی حکومت ختم کرانے کی متعدد کوششیں بھی کر چکے ہیں مگر ناکام رہے ہیں۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ جام کمال جو بی اے پی بنائے جانے سے قبل مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں وزیر مملکت رہے ہیں وہ صرف اپنی حکومت اور اپنے لوگوں کے مفادات سے آگے نہیں جاتے اور وفاقی حکومت پر تنقید تو کیا کبھی جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ بھی نہیں کہتے انھیں اپنے صوبے کے مفادات کی بجائے صرف اپنی حکومت برقرار رکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور اپنے پسماندہ صوبے کے لیے کبھی حکومت سے کچھ نہیں مانگتے اور ایسے ہی حکومتی حلیف پی ٹی آئی کو پسند ہیں۔
وزیر اعظم نے مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کو وفاقی کابینہ میں ایک ایک مزید وزیر دینے کا وعدہ کیا تھا جس پر اب تک کوئی عمل نہیں ہوا جب کہ اپنے لوگوں کو عہدے دینے کا سلسلہ جاری ہے جس کا تازہ ثبوت گلوکار ابرار الحق کی تعیناتی ہے جس پر عمل ہائی کورٹ نے روک دیا ہے۔
مسلم لیگ (ق) کے مرکزی رہنماؤں کی بجٹ کے بعد وزیر اعظم سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی اور نہ چوہدری شجاعت وزیر اعظم سے ملاقات میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم اپنے حلیفوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے کہ اپنی حلیف جماعتوں کے سربراہوں سے خود ہی ملاقات کر لیں البتہ پی ٹی آئی کے دوسری سطح کے رہنماؤں کی (ق) لیگ قیادت سے ملاقات رہتی ہے مگر (ق) لیگ جو شکایات وزیر اعظم تک پہنچانا چاہتی ہے وہ وہاں تک نہیں پہنچتیں اور (ق) لیگ اپنا ساتھ نبھا رہی ہے کیونکہ وہ تعلقات آخر تک برقرار رکھنا چاہتی ہے۔
ایم کیو ایم کے کنوینر و وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی میئر کراچی وسیم اختر اور ڈپٹی کنوینر متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وفاقی حکومت اپنے وعدے پورے نہیں کر رہی ہے اور وزیر اعظم نے کراچی کے لیے 162 ارب کے جس پیکیج کا اعلان کیا تھا اس پر بھی عمل نہیں ہو رہا۔
حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی صلاحیت صرف آصف علی زرداری میں ہے اور وہ حلیفوں کو ساتھ لے کر چلتے ہیں مگر یہ صلاحیت وزیر اعظم عمران خان اور سابق وزیر اعظم نواز شریف میں نہیں تھی جس کی سزا نواز شریف بھگت چکے اور لگتا یہی ہے کہ عمران خان بھی بھگتیں گے۔