اے این پی کا المیہ اور اعظم ہوتی

پشتون تاریخ اور روایات کےپسِ منظرمیں خان عبدالغفار خان کےفلسفہ عدم تشدداوربرداشت کی شایدآج ماضی سےکہیں زیادہ ضرورت ہے


Nusrat Javeed October 30, 2013
[email protected]

اعظم خان ہوتی بھی کمال کے آدمی ہیں۔ خالصتا ذاتی وجوہات کی بنا پر ان کے اپنے خاندان والوں سے اختلافات شدید سے شدید تر ہونا شروع ہو گئے۔ بجائے ان معاملات کو خاموشی اور بردباری سے نمٹانے کے ہوتی صاحب ''سیاسی'' ہو گئے اور اے این پی کو ''سدھارنے'' کا فیصلہ کر لیا۔ اسفندیار ولی کو جو اتفاق سے ان کے سالے بھی ہوتے ہیں، اعظم خان نے سنگین الزامات کا نشانہ بنایا ہے مگر کسی ٹھوس ثبوت کے بغیر۔ بس گند ہی گند ہے جو ان کی طرف سے مسلسل اُچھالا جا رہا ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی کو مئی 2013 کے عام انتخابات کے دوران یقینی طور پر ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ بات درست ہے کہ طالبان نے اس جماعت کے امیدواروں کے لیے اپنے گھروں سے نکلنا بھی تقریبا ناممکن بنا دیا تھا۔ خیبر پختونخوا کے ووٹروں کے دل میں لیکن اس جماعت کے لیے کوئی خاص ہمدردی پھر بھی پیدا نہ ہوئی۔ 2008 سے 2013تک جو صوبائی حکومت ان کے پاس رہی وہ لوگوں کی نظر میں ایک نااہل اور بدعنوان گروہ کی صورت ہی جانی جاتی رہی۔ اے این پی کے لوگوں نے بھی اپنے بارے میں پھیلتے تاثر کو پوری طرح سمجھ کر حالات بہتر بنانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ اسفندیار ولی اس ضمن میں خود کو ہرگز بری الذمہ قرار نہیں ٹھہرا سکتے۔ مگر جو الزامات اعظم خان لگا رہے ہیں قطعی طور پر بے بنیاد ہیں۔

عوامی نیشنل پارٹی کو شدید اور سچی خود تنقیدی کے عمل سے ہر صورت گزرنا چاہیے۔ یہ ایک سیاسی جماعت ہی نہیں ایک پورے سیاسی فلسفے کی نمایندہ بھی ہے۔ پشتون تاریخ اور روایات کے پسِ منظر میں خان عبدالغفار خان کے فلسفہ عدم تشدد اور برداشت کی شاید آج ماضی سے کہیں زیادہ ضرورت ہے۔ اس روایت سے وابستہ لوگ اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے تو باقی کچھ نہیں رہے گا۔ طالبان سے منسوب سوچ ہی اپنی کئی شکلوں میں آیندہ کئی برسوں تک خیبر پختونخوا پر حاوی رہے گی۔ سیاست کا ایک طالب علم ہوتے ہوئے میں اکثر سوچتا ہوں کہ عوامی نیشنل پارٹی اگر آج ایک صوبے تک محدود ہو کر کمزور ترین ہو گئی ہے تو اس کی اصل وجہ نیشنل عوامی پارٹی کی موت ہے۔ قیامِ پاکستان کے بعد یہ جماعت کئی سالوں تک وہ واحد جماعت رہی جس میں پاکستان کے تمام جمہوریت اور ترقی پسند افراد اپنی نسل اور زبان سے کہیں زیادہ بلند سطح پر سوچتے ہوئے عوام کے ٹھوس اور حقیقی مفادات کی جنگ لڑتے رہے۔ بدقسمتی اس جماعت کی یہ ہوئی کہ اس جماعت میں گھسے کمیونسٹ انتہاء پسندوں نے روشن خیال اور جمہوریت پسند افراد کے ایک وسیع تر اتحاد کی علامت اس نیشنل عوامی پارٹی کو تنگ نظر بنیادوں پر چلانا شروع کر دیا۔

ایوب خان نے چین سے دوستی بڑھائی تو مولانا بھاشانی اس فوجی آمر کے مداح بن گئے۔ اپنے مسیح الرحمن عرف جادو میاں کے ذریعے وہ ایوب خان سے کئی طرح کی مراعات حاصل کرتے رہے۔ مگر ان کے ارد گرد جمع کمیونسٹ انتہاء پسندوں نے ''چین نوازی'' کے نام پر نیشنل عوامی پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے جب اس جماعت پر پابندی لگائی تو میجر اسحاق اور افضل بنگش مرحوم نے اس جماعت کو ''خوانین اور بلوچ سرداروں کے مفادات'' کا محافظ بنا کر کسانوں کے ''حقوق'' کے لیے نکسل باڑی طرز کی ایک مسلح تحریک چلا دی۔ ولی خان کے پاس پشتون قوم پرستی کو شدت سے اپنانے کے سوا کوئی اور راستہ ہی باقی نہ رہا۔ ولی خان اور نیشنل عوامی پارٹی کے دیگر سرکردہ رہنما جب حیدر آباد جیل کی نذر ہو گئے تو ایمان داری کی بات ہے بیگم نسیم ولی خان نے بڑی جرأت، بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ اپنے شوہر اور سسر کی سوچ کو زندہ رکھا۔ ضیاء الحق نے مارشل لاء لگانے کے بعد ولی خان اور ان کے ساتھیوں کو رہا کیا تو بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کی راہیں جدا ہو گئیں اور عوامی نیشنل پارٹی صرف اس وقت کے صوبہ سرحد تک محدود ہو گئی۔

1990کی دہائی میں ایک نہیں بلکہ دوبار اس جماعت نے ''پنجابی'' نواز شریف کی پاکستان مسلم لیگ کے ساتھ مل کر حکومت چلائی۔ اعظم خان ہوتی عوامی نیشنل پارٹی کو نواز شریف کے ساتھ ملانے کے اصل ذمے دار تھے۔ آج نجانے کیوں انھیں یاد نہیں رہا کہ نواز شریف کے ساتھ محبت کے دنوں میں اے این پی کے سیاسی مخالفین اس جماعت کو ''اعظم، نسیم پارٹی'' کہنا شروع ہو گئے تھے۔ جنرل مشرف نے جب مارشل لاء لگایا تو سیاست دانوں میں سب سے پہلے انھوں نے عوامی نیشنل پارٹی کے ''آزاد منش'' اجمل خٹک ہی کو اپنا آلہ کار بنانا چاہا اور اجمل خٹک نے ''چھوٹی قومیتوں کے حقوق '' کے نام پر عوامی نیشنل پارٹی کو مزید کمزور کر دیا۔ اس جماعت کی ساکھ مزید کمزور ہوئی تو اس کی وجہ اعظم خان ہوتی کی احتساب کے نام پر گرفتاری اور ان سے منسوب کرپشن کہانیاں بھی تھیں جو 2002 کے انتخابات میں مذہبی سیاسی جماعتوں کے وسیع تر اتحاد ایم ایم اے کے بہت کام آئیں۔

حق تو یہ ہے کہ 2002 کے بعد اسفندیار ولی نے دن رات ایک کرتے ہوئے اس جماعت کو نئی زندگی بخشی تھی۔ مجھے خبر نہیں کہ اب ولی خان کے جانشین میں اتنا دم اور صبر باقی رہ گیا ہے کہ وہ ایک بار پھر اس جماعت کو متحرک اور توانا بنا سکیں۔ شاید میاں افتخار حسین جیسے لوگوں کو یہ بوجھ اپنے سر لینا ہو گا۔ اسفندیار ہوں یا میاں افتخار حسین عوامی نیشنل پارٹی اس وقت تک متحرک اور توانا جماعت نہیں بن سکتی جب تک اس جماعت کے سرکردہ رہ نما خود احتسابی کے ایک جاندار اور پُرخلوص مرحلے سے نہ گزریں۔ اس جماعت کے بنیادی فلسفے کو اُجاگر کرنے کی ان دنوں اشد ضرورت ہے اور یہ کام عوامی نیشنل پارٹی ہی کر سکتی ہے۔ کسی دوسرے گروہ کے بس کی بات نہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں