12 دسمبر 2013 کا انتظار
جنوبی ایشیا کا مقدر پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام سے وابستہ ہو چکا ہے
جنوبی ایشیا کا مقدر پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام سے وابستہ ہو چکا ہے جس کا تمام تر انحصار جناب نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی کی کامیابی سے جڑا ہوا ہے جو حلف اٹھانے اور حکومت بنانے کے بعد گزشتہ چار ماہ سے بڑے صبر و تحمل سے 12 دسمبر 2013 کا انتظار کر رہے ہیں جس کے بعد ان کے اصل دور حکمرانی کا آغاز ہو گا ۔
11 دسمبر2013 کو پاکستان کی تاریخ میں نئی روایات کے امین چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہو جائیں گے جس کے ساتھ ہی غیر معمولی عدالتی فعالیت کا تابناک باب ختم ہو جائے گا۔ اس سے پہلے موجودہ جمہوری نظام کے تسلسل کے ضامن جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اپنا غیر معمولی طویل دورِ سپہ سالاری گزار کر 28 نومبر 2013 کو ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔
100 سے زائد سرکاری و نیم سرکاری وفاقی ادارے اور پرکشش کارپوریشنیں سربراہوں کے بغیر کام کر رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے احتساب کی تلوار کی موجودگی میں روباہ صفت بیوروکریٹس اپنے نادر و نایاب مشوروں سے نئے حکمرانوں کو مستفید نہیں کر سکتے کہ جواب دہی کا نادیدہ احساس انھیں غیر قانونی اقدامات سے روک رہا ہے۔
امریکا کے 'کامیاب' دورے کے بعد جناب وزیر اعظم نواز شریف اب دوبارہ برطانیہ کے سرکاری چار روزہ دورے پر ہیں جہاں وہ عالمی اقتصادی فورم اور پاکستان 'برطانیہ اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
تیسرا دور اقتدار پھولوں کا ہار نہیں، کانٹوں کی مالا ہے۔ کثیرالجہتی اندرونی و بیرونی مسائل اور مصائب نے پاکستان کو چہار اطراف سے گھیر رکھا ہے جو کہ اُلجھے ہوئے دھاگوں کی طرح باہم اس طرح گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ ان کو الگ کر کے سلجھانا ممکن نہیں ہے ۔
دہشت گردی کے موجودہ طوفان میں معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے خواب دیکھنا، امن و امان اور دہشت گردی کا معاملہ افغانستان میں جاری تہذیبوں کی جنگ سے جڑا ہوا ہے جہاں پر امن و امان اور مستحکم ریاستی اداروں کے قیام تک پاکستان میں دہشت گردی کے رستے ہوئے ناسور کاعلاج ممکن نہیں،اسی طرح پاکستان کے لیے بھارت سے خوش گوار تعلقات کئی دہائیوں سے لاینحل مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کو بگاڑنے کے لیے بھارتی ریاستی ادارے لائن آف کنٹرول پر چھیڑچھاڑ کر کے نفرتوں کی سلگتی آگ کو چشم زدن میں شعلہ جوالا بنا دیتے ہیں، یہ کھیل بار بار دہرا یا جا رہا ہے۔ اب پاکستان میں امن کی خواہاں حکومت کے قیام کے بعد لائن آف کنٹرول اور عالمی سرحد پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ اور دھماکوں میں شدت اور تیزی آئی ہے۔ جس کا واحد مقصد امن کے لیے جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف بڑے جو ش و خروش سے بھارت اور افغانستان سے گرم جوش دوستانہ تعلقات کے لیے پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے دونوں ہمسائے اس وقت انتخابی بخار میں مبتلا ہو چکے ہیں، افغانستان کے صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع ہو چکی ہے جب کہ بھارت میں پارلیمان یا لوک سبھا کا چنائو ہونے جا رہا ہے جس میں مسلم دشمنی کے لیے بدنام نریندرمودی وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نامزد بن کر انتخابی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ اس لیے بھارت اور افغانستان سے نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے پاکستان کو اگلے سال 2014میں موسم گرما کا انتظار کرنا ہو گا۔ وسط 2014 تک بھارت اور افغانستان میں نئی انتظامیہ اور سربراہان کامرحلہ مکمل ہو گا۔ بھارتی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں کمزور مخلوط مرکزی سرکار پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات اور لا ینحل مسائل کے حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح امریکی انخلا اور حامد کرزئی کے بعد غیر مستحکم افغانستان کے پاکستان کے مراسم میں بھی کسی مثبت اور دیرپا تبدیلی خارج از امکان ہے۔
پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا آغاز تا حال مکمل نہیں ہو سکا ہے کیونکہ بھانت بھانت کے متضاد نقطہ ہائے نظر رکھنے والے یہ گروپ عملاً خود سر اور خود مختار ہیں، یہ کالم نگار بار بار عرض کرچکا ہے کہ اندریں حالات پاکستانی طالبان کی زود رنج قیادت سے گفتگو ممکن نہیں ہو گی، بہتر ہو گا کہ مذاکرات افغان طالبان کے امیر ملا عمر سے براہ راست کیے جائیں جس کے لیے درمیانی واسطے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے خارجہ اور دفاعی امور کے مشیر جناب سر تاج عزیز ملا عمر سے براہ راست بات چیت اور گفتگو کا طویل تجربہ رکھتے ہیں' ویسے بھی ملا عمر کی ٹھیٹھ قندہاری پشتو کو سمجھنا ہمارے نونہال ماہرین امور افغانستان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مشترکہ دوست کے ہاں جناب سرتاج عزیز سے طویل ملاقات ہوئی، انھیں ہمیشہ کی طرح سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں دل سوز اور دل گرفتہ پایا۔ وہ تمام گفتگو امانت ہے کہ غیر رسمی ذاتی ملاقاتیں صورتحال کے تزکیہ اور تفہیم کے لیے ہی کام آ سکتی ہیں۔ اس خاموش اور صابر سامع نے گفتگو سے معلومات کا خزانہ پایا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ اسے ضبط تحریر نہیں لایا جا سکتا کہ سماجی اقدار اور پیشہ وارانہ اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔
حرف آخر یہ کہ دو دیرینہ کرم فرما شیخ الجامعہ، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید اپنے اپنے شعبوں میں اپنی حریت پسندی اور بے باکی کی وجہ سے سنگ دشنام الزام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، برصغیر میں حریت فکر کے مجاہد قافلہ احرار کے سالار اورعلامہ مشرقی کے خاکسار جناب شبیر حسین شاہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوتے ہوئے شاطر امریکیوں کی فریب کاری کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں، ان کی کئی کتب اسی حوالے سے نمایاں ہیں اس لیے مختلف مافیائوں نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے لیکن وہ اپنے عظیم والد کے روشن نقوش قدم پر چلتے ہوئے سینہ سپر ہیں۔
قائد حزب اختلاف برادر میاں محمود الرشید جیسا محتاط ایک بھی شخص، اس شورید. سر کالم نگار کے حلقہ دوستاں میں شامل نہیں رہا، انھیں تحریک انصاف کے اندر نو دولتیوں کا گروہ اپنی راہ میں روڑا سمجھتے ہوئے ہٹانا چاہتا ہے جس کے لیے ان کے بھائی حامد رشید کی سی ڈی اے میں تعیناتی کا اسکینڈل تخلیق کیا گیا ۔ لاہور کاگروپ ناکام ہو گیا ہے۔
دیرینہ کرم فرما اور صوبائی محتسب کے رابطہ کار برادرم عابد نور بھٹی کا شکریہ کہ اس نے مشکل وقت میں دوستوں کے بارے میں مولا علی کا قول بھجوایا توسازشوں کا شکار دونوں کرما فرما یاد آئے، ورنہ زمانے کا دستور تو یوں ہے کہ
وقت پڑے تو یار سلیمی کون کسی کا ہوتا ہے
11 دسمبر2013 کو پاکستان کی تاریخ میں نئی روایات کے امین چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری ریٹائر ہو جائیں گے جس کے ساتھ ہی غیر معمولی عدالتی فعالیت کا تابناک باب ختم ہو جائے گا۔ اس سے پہلے موجودہ جمہوری نظام کے تسلسل کے ضامن جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی اپنا غیر معمولی طویل دورِ سپہ سالاری گزار کر 28 نومبر 2013 کو ریٹائر ہو چکے ہوں گے۔
100 سے زائد سرکاری و نیم سرکاری وفاقی ادارے اور پرکشش کارپوریشنیں سربراہوں کے بغیر کام کر رہی ہیں کہ سپریم کورٹ کے احتساب کی تلوار کی موجودگی میں روباہ صفت بیوروکریٹس اپنے نادر و نایاب مشوروں سے نئے حکمرانوں کو مستفید نہیں کر سکتے کہ جواب دہی کا نادیدہ احساس انھیں غیر قانونی اقدامات سے روک رہا ہے۔
امریکا کے 'کامیاب' دورے کے بعد جناب وزیر اعظم نواز شریف اب دوبارہ برطانیہ کے سرکاری چار روزہ دورے پر ہیں جہاں وہ عالمی اقتصادی فورم اور پاکستان 'برطانیہ اور افغانستان پر مشتمل سہ فریقی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔
تیسرا دور اقتدار پھولوں کا ہار نہیں، کانٹوں کی مالا ہے۔ کثیرالجہتی اندرونی و بیرونی مسائل اور مصائب نے پاکستان کو چہار اطراف سے گھیر رکھا ہے جو کہ اُلجھے ہوئے دھاگوں کی طرح باہم اس طرح گڈمڈ ہو چکے ہیں کہ ان کو الگ کر کے سلجھانا ممکن نہیں ہے ۔
دہشت گردی کے موجودہ طوفان میں معاشی ترقی اور اقتصادی خوشحالی کے خواب دیکھنا، امن و امان اور دہشت گردی کا معاملہ افغانستان میں جاری تہذیبوں کی جنگ سے جڑا ہوا ہے جہاں پر امن و امان اور مستحکم ریاستی اداروں کے قیام تک پاکستان میں دہشت گردی کے رستے ہوئے ناسور کاعلاج ممکن نہیں،اسی طرح پاکستان کے لیے بھارت سے خوش گوار تعلقات کئی دہائیوں سے لاینحل مسئلہ بنے ہوئے ہیں۔ جن کو بگاڑنے کے لیے بھارتی ریاستی ادارے لائن آف کنٹرول پر چھیڑچھاڑ کر کے نفرتوں کی سلگتی آگ کو چشم زدن میں شعلہ جوالا بنا دیتے ہیں، یہ کھیل بار بار دہرا یا جا رہا ہے۔ اب پاکستان میں امن کی خواہاں حکومت کے قیام کے بعد لائن آف کنٹرول اور عالمی سرحد پر بھارت کی بلا اشتعال فائرنگ اور دھماکوں میں شدت اور تیزی آئی ہے۔ جس کا واحد مقصد امن کے لیے جاری کوششوں کو سبوتاژ کرنا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف بڑے جو ش و خروش سے بھارت اور افغانستان سے گرم جوش دوستانہ تعلقات کے لیے پیش قدمی کر رہے ہیں لیکن یہ تاریخ کا جبر ہے کہ ہمارے دونوں ہمسائے اس وقت انتخابی بخار میں مبتلا ہو چکے ہیں، افغانستان کے صدارتی انتخابات کے لیے مہم شروع ہو چکی ہے جب کہ بھارت میں پارلیمان یا لوک سبھا کا چنائو ہونے جا رہا ہے جس میں مسلم دشمنی کے لیے بدنام نریندرمودی وزارت عظمیٰ کے مضبوط امیدوار کے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے نامزد بن کر انتخابی اکھاڑے میں اتر چکے ہیں۔ اس لیے بھارت اور افغانستان سے نتیجہ خیز مذاکرات کے لیے پاکستان کو اگلے سال 2014میں موسم گرما کا انتظار کرنا ہو گا۔ وسط 2014 تک بھارت اور افغانستان میں نئی انتظامیہ اور سربراہان کامرحلہ مکمل ہو گا۔ بھارتی امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ وہاں کمزور مخلوط مرکزی سرکار پاکستان کے ساتھ دیرپا تعلقات اور لا ینحل مسائل کے حل کے لیے فیصلہ کن کردار ادا نہیں کر سکے گی۔ اسی طرح امریکی انخلا اور حامد کرزئی کے بعد غیر مستحکم افغانستان کے پاکستان کے مراسم میں بھی کسی مثبت اور دیرپا تبدیلی خارج از امکان ہے۔
پاکستان کی تمام تر کوششوں کے باوجود پاکستانی طالبان سے مذاکرات کا آغاز تا حال مکمل نہیں ہو سکا ہے کیونکہ بھانت بھانت کے متضاد نقطہ ہائے نظر رکھنے والے یہ گروپ عملاً خود سر اور خود مختار ہیں، یہ کالم نگار بار بار عرض کرچکا ہے کہ اندریں حالات پاکستانی طالبان کی زود رنج قیادت سے گفتگو ممکن نہیں ہو گی، بہتر ہو گا کہ مذاکرات افغان طالبان کے امیر ملا عمر سے براہ راست کیے جائیں جس کے لیے درمیانی واسطے تلاش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے خارجہ اور دفاعی امور کے مشیر جناب سر تاج عزیز ملا عمر سے براہ راست بات چیت اور گفتگو کا طویل تجربہ رکھتے ہیں' ویسے بھی ملا عمر کی ٹھیٹھ قندہاری پشتو کو سمجھنا ہمارے نونہال ماہرین امور افغانستان کے بس کا روگ نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں ایک مشترکہ دوست کے ہاں جناب سرتاج عزیز سے طویل ملاقات ہوئی، انھیں ہمیشہ کی طرح سیاسی اور معاشی حالات کے بارے میں دل سوز اور دل گرفتہ پایا۔ وہ تمام گفتگو امانت ہے کہ غیر رسمی ذاتی ملاقاتیں صورتحال کے تزکیہ اور تفہیم کے لیے ہی کام آ سکتی ہیں۔ اس خاموش اور صابر سامع نے گفتگو سے معلومات کا خزانہ پایا تھا لیکن افسوس صد افسوس کہ اسے ضبط تحریر نہیں لایا جا سکتا کہ سماجی اقدار اور پیشہ وارانہ اخلاقیات اس کی اجازت نہیں دیتیں۔
حرف آخر یہ کہ دو دیرینہ کرم فرما شیخ الجامعہ، وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی ڈاکٹر مجاہد کامران اور پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں محمود الرشید اپنے اپنے شعبوں میں اپنی حریت پسندی اور بے باکی کی وجہ سے سنگ دشنام الزام کا نشانہ بنے ہوئے ہیں، برصغیر میں حریت فکر کے مجاہد قافلہ احرار کے سالار اورعلامہ مشرقی کے خاکسار جناب شبیر حسین شاہ کے فرزند ارجمند ڈاکٹر مجاہد کامران پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہوتے ہوئے شاطر امریکیوں کی فریب کاری کا پردہ چاک کرتے رہتے ہیں، ان کی کئی کتب اسی حوالے سے نمایاں ہیں اس لیے مختلف مافیائوں نے ان کے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے لیکن وہ اپنے عظیم والد کے روشن نقوش قدم پر چلتے ہوئے سینہ سپر ہیں۔
قائد حزب اختلاف برادر میاں محمود الرشید جیسا محتاط ایک بھی شخص، اس شورید. سر کالم نگار کے حلقہ دوستاں میں شامل نہیں رہا، انھیں تحریک انصاف کے اندر نو دولتیوں کا گروہ اپنی راہ میں روڑا سمجھتے ہوئے ہٹانا چاہتا ہے جس کے لیے ان کے بھائی حامد رشید کی سی ڈی اے میں تعیناتی کا اسکینڈل تخلیق کیا گیا ۔ لاہور کاگروپ ناکام ہو گیا ہے۔
دیرینہ کرم فرما اور صوبائی محتسب کے رابطہ کار برادرم عابد نور بھٹی کا شکریہ کہ اس نے مشکل وقت میں دوستوں کے بارے میں مولا علی کا قول بھجوایا توسازشوں کا شکار دونوں کرما فرما یاد آئے، ورنہ زمانے کا دستور تو یوں ہے کہ
وقت پڑے تو یار سلیمی کون کسی کا ہوتا ہے