مجھ سے پہلی ’’عبادت‘‘ میرے ’’معبود‘‘ نہ مانگ
آج کا انسان اور پھر پاکستان کا ہم جیسا انسان ٹھیک اس پیڑ کی طرح ہے جس کو چاروں اطراف سے آندھی اور طوفان نے گھیر رکھاہو
وہ خوب صورت زمانے لد چکے جب لوگ ''محبت'' کا شغل بھی کرتے تھے اور اس قسم کی باتیں ہوا کرتی تھیں کہ
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ
ویسے اس نظم اور خاص طور پر اس مصرعے پر قہر خداواندی چشم گل چشم عرف ڈینگی مچھر کا تبصرہ بھی بڑا زبردست ہے۔ مصرعہ سن کر اس نے کہا تھا، فیض صاحب نے کون سی نئی بات کی ہے، ایسا تو ہم ''شادی شدہ'' ہمیشہ سے کہتے آئے ہیں کیونکہ جب محبوبہ شادی کے بعد اچانک ''بیوی'' بن جاتی ہے اور انناس عورت نکلتی ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے پری نے چڑیل کا اصل روپ دھار لیا، ایسے میں بے چارا سابق عاشق اور موجودہ شوہر سوائے اس کے اور کیا کہہ سکتا ہے کہ بی بی مجھ سے اب پہلی سی محبت نہ مانگ کیونکہ تم نے بحیثیت بیوی جو فہرست فرمائشات تھمائی ہے، اس سے اگر فرصت پائی تو پھر جنت میں یا اس کے پڑوس والے مقام میں ملاقات ہوگی ۔۔۔ بائی بائی ٹا ٹا محبوبہ ۔۔۔ اینڈ ویلکم بیوی۔
مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ کیونکہ میں تمہارے دوسرے روپ کی ''مانگوں'' میں مصروف ہوں۔ ویسے بھی ''محبت'' جب سے کمرشلائز بلکہ انڈسٹرئیلاز ہو چکی ہے تب سے یہ ''مانگے'' کی چیزیں نہیں رہی ہے۔ مانگتے جاؤ تو اگلا آنکھیں پتھر کر کے کہے گا کہ بھیاء محبت اب مانگے تانگے کی چیز نہیں رہی ہے پہلے بل بھرو بعد میں دل بھرو ۔۔۔ اور اس میں دوش کسی کا بھی نہیں، ہوا کچھ ایسی چلی ہے کہ سب کچھ کمرشلائز اور انڈسٹرئیلائز ہو چکا ہے، ایسی کوئی چیز بچی ہی نہیں جسے یہ کم بخت ہوا نہ لگی۔
ناوک نے تیرے صید نے چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
سیاست ہے تو باقاعدہ سرمایہ کاری ہے۔ پہلے ہی سے حساب لگا لیا جاتا ہے کہ کتنے ''لگانے'' پر کتنے کمائے جا سکتے ہیں۔ پیری مریدی تو ایک زمانہ ہوا کہ انڈسٹری میں بدل چکی ہے، تعلیم، صحت، خدمت سب کچھ اب تجارتی بنیادوں پر ہوتا ہے اور تو اور ''دین'' جو خالص غیر تجارتی چیز تھی آج کل سب سے بڑی صنعت تجارت بن چکی ہے، ایسے میں ''محبت'' کیا بیچتی ہے جو اس ہوا سے بچ جائے، سو محبت کی طرف سے تو ہم نے ایک عرصہ ہاتھ دھو لیے ہیں۔
ہاتھ دھو دل سے یہی گرمی گر اندیشے میں
آبگینہ تندی صہبا سے پگھلا جائے ہے
ایک ''عبادت'' بچی تھی جو ہم جیسوں کا واحد سہارا تھی، دنیا جہاں سے مار پڑتی بلکہ تمام تجارتوں کے ہاتھوں پٹتے، تو جا کر خالق کے آگے رو لیے، اور دل کو تسلی دے لی کہ چلو کوئی تو ہے جو ہماری سن لے گا اور سنتا ہے اور اس طرح کسی نہ کسی بہانے کسی نہ کسی امید اور کسی نہ کسی طرح جینے کا سامان کر لیتے تھے لیکن اب
سنبھلنے دے مجھے اے ناامیدی کیا قیامت ہے
کہ دامن خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے
عبادت میں دل لگایا بھی جائے تو کیسے کہ دل میں رہ رہ کر درد کی ٹیس اٹھتی ہے۔ ہم اس درجے کے بندے تو ہیں نہیں جن کے جسم سے نماز کے دوران تیر نکالے جاتے تھے اور ان کو خبر تک نہیں ہوتی تھی، عام سے عام بندے ہیں، کسی امید پر عبادت کرتے ہیں لیکن جب امید ہی چکنا چور پڑی ہو تو عبادت میں توجہ اور ارتکاز کہاں سے آئے، وہ لذت و کیف کیسے پیدا ہو جو عبادت کا تقاضا بھی ہے، طریقہ بھی ہے اور مقصد بھی چنانچہ عبادت کرتے ہوئے بھی یہی سوچے جاتے ہیں کہ
بس ہجوم ناامیدی خاک میں مل جائے گی
وہ جو ایک لذت ہماری سعی بے حاصل میں ہے
چنانچہ مسجدیں بھری رہتی ہیں، لوگ پہلے سے زیادہ عبادت بھی کرتے ہیں یہاں تک کہ مسجدوں میں جگہ نہیں رہتی تو باہر سڑک پر صفیں بچھا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ہر دکان دار، مسافر مزدور جلدی جلدی سے ہاتھ منہ دھو وضو کر کے مسجد میں سفید ٹوپی پہن کر پہنچ جاتا ہے اور وہ بات اب بالکل ہی نہیں رہی کہ مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے یا
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
یہ دل پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
بلکہ حقیقت میں نمازی تو آج کل بہت ہیں لیکن ''نماز'' کہیں بھی نہیں رہی ہے، صرف ایک ورزش ایک ایکسرسائز اور دکھاوے کا سامان ہے جو ہر کوئی کر رہا ہے کیوں کہ جب دلوں میں ہزاروں بت ہوں جنگ و جدل کا بازار گرم ہو اور ہنگامہ ہا و ہو مچا ہوا ہو تو لامحالہ کہنا ہی پڑتا ہے کہ
مجھ سے پہلی سی عبادت مرے ''معبود'' نہ مانگ
کسی اور کے بارے میں تو ہم کہہ نہیں سکتے لیکن اپنا تو یہ خیال کہ مشکل سے رکعتوں کا حساب بھی نہیں رکھ سکتے ،کیا پڑھا، کیا نہیں اس کا تو پتہ ہی نہیں چلتا اکثر کھڑے کھڑے سورۃ فاتحہ کے بجائے الحتیات پڑھ لیتے ہیں اور بیٹھ کر التحیات کی جگہ سورۃ فاتحہ شروع کر لیتے ہیں، وجہ اس کی یہ ہوتی ہے کہ اندر بجلی کا ''بل'' سرسرا رہا ہوتا ہے، ضرورتوں کے لیے حساب جوڑنا ہوتا ہے، قرض خواہوں کے لیے بہانے سوچنا جاری رہتا ہے، گھر جا کر کسی چیز کے نہ لانے کے لیے بیوی اور بچوں کو کیا بہانہ کرنا ہے جب دل پر اتنے جابر اور سنگ دل دشمن حملہ آور ہو رہے ہوں ،ارمانوں اور حسرتوں کے کشتوں کے پشتے لگ رہے ہوں، تمناؤں کا خون بہہ رہا ہو تو کسے یاد رہتا ہے کہ کہاں کھڑا ہوں اور کیا کہنا ہے
پھر بے خودی میں بھول گیا راہ کوئے یار
جاتا وگرنہ ایک دن ''اپنی خبر'' کو میں
غالب نے ایسی ہی کیفیت میں ہی کہا ہو گا کہ ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی کچھ ہماری خبر نہیں آتی، اکا دکا لوگ شاید کہیں ہوں جو عبادت کر سکتے ہوں ورنہ باقیوں کا حال تو وہی ہوتا ہے کہ ایک شخص اپنے گھر میں بیوی کے ہاتھوں بڑا زچ ہوا اور ہمیشہ کی طرح شکست کھاتا ہوا بھنا کر نکلا ، سامنے ایک ڈیرے میں ایک فاتحہ پڑھی جارہی تھی چنانچہ یہ جا کر فاتحہ خوانی میں بیٹھ گیا ۔۔۔ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے باقی سب کچھ تو دل میں تھا لیکن دعا ختم کرنے کے بعد آخر میں چند الفاظ میت والوں کو بھی سنانا ہوتے ہیں جسے اللہ بخشے بڑی خوبیوں والے تھے۔ یہ تھے وہ تھے، لیکن اس پر تو گھر کے معرکے کا اثر تھا اور سامنے بیوی کا چہرہ، اس لیے بے اختیار مُنہ سے نکل گیا، خدا غارت کرے اوراس کے بعد دو چار موٹی موٹی گالیاں جو یہ اپنے خیال میں اپنی بیوی کو دے رہا تھا لیکن جا رہی تھیں ڈائریکٹ اس مرحومہ کو جس کی فاتحہ پڑھی جارہی تھی،
مطلب ہے نازو غمزہ ولے گفتگو میں کام
چلتا نہیں ہے ''دشنبہ و خنجر'' کہے بغیر
ہوش آنے پر جس طرح اس شخص نے معذرت کی کہ معاف کرنا میرا دھیان کہیں اور تھا کہنا کچھ چاہ رہا تھا اور مُنہ سے نکل گیا کچھ ۔ ٹھیک اسی طرح ہم بھی ہر عبادت کے بعد اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ
مجھ سے پہلی سی عبادت مرے معبود نہ مانگ
چلیے فرض کر لیں کہ ہم ایک بہت ہی مضبوط پیڑ ہیں، آندھی ہمیں گرا نہیں سکتی لیکن ادھر ادھر چھکا تو سکتی ہے، تنے سے چوٹی تک لرزا تو سکتی ہے ہلا تو سکتی ہے، کچھ ٹہنیاں اور پتے تو توڑ سکتی ہے، زیادہ سے زیادہ ہم اپنے آپ کو گرانے سے بچا لیں گے لیکن آندھی تو آندھی ہوتی ہے، ادھر ادھر پٹخانے اور جڑ سے چوٹی تک ہلانے کا کام تو وہ ضرور کرے گی۔
انیس دم کا بھروسہ نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کہاں سامنے ہوا کے چلے
آج کا انسان اور پھر پاکستان کا ہم جیسا انسان ٹھیک اس پیڑ کی طرح ہے جس کو چاروں اطراف سے آندھی اور طوفان نے گھیر رکھا ہو ،گرنے سے تو وہ اپنے آپ کو بچا لے گا لیکن کہاں کا پھل کہاں کے پھول اور کہاں کے پتے ٹہنیاں، اس لیے مجھ سے پہلی سی عبادت ۔۔۔۔۔۔۔