تاریخ گواہ

ہم 64 برس سے امریکی امداد پر پل رہے ہیں اور ان برسوں میں ہمارے مربی و سرپرست نے ہمیں 68 ارب ڈالر کی امداد سے نوازا ہے

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

واویلا ہے کہ وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کا دورہ امریکا ناکام رہا۔ معلوم نہیں کہ میاں صاحب کے حالیہ دورے سے کس بنیاد پر اتنی توقعات وابستہ کر لی گئی تھیں اور خود میاں صاحب آخر کس بنیاد پر اتنی امیدیں اور توقعات لے کر اوباما کے در پر حاضر ہوئے تھے؟ حالانکہ پاکستان کی 64 سالہ تاریخ میں کسی ایک حکمراں کا بھی دورہ امریکا ایسا نہ رہا جسے ہم مجموعی طور پر کامیاب کہہ سکیں، ہزیمت کا یہ سفر بہت پرانا ہے اور اپنا ایک معقول تاریخی پس منظر رکھتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان کی ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز'' بلکہ اس سے بھی پہلے لیاقت علی خان سے نواز شریف تک سب کے امریکی دوروں کی اصل کہانی ایک ہی ہے، بے تحاشہ طاقت و قوت اور بے پناہ کمزوری و لاچاری کی ملاقاتیں، مذاکرات اور پھر ناکامی کے چرچے اور بے نیازی و بے وفائی کے افسانے۔۔۔۔ کامیابی کے لیے ہمیں کشکول توڑ کر خود کفیل بن کر خود اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا، جب تک ہم اپنے ملکی و قومی مفادات کا سودا بھیک میں ملنے والی امریکی ڈالروں سے کرینگے، تب تک بھلا ہمارے دورے کیسے اور کیوں کر کامیاب ہو سکتے ہیں؟

ناکام دورے ہمارے جرم ضعیفی کی ہی نہیں بلکہ ہمارے مریض اور بھکاری ہونے کی بھی قدرتی و فطری سزا ہیں، سب اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے اور دینے والا ہاتھ لینے والے ہاتھ سے بہتر ہے، اس پر حاوی ہے اور یہ احساس برتری سے سرشار، سپر پاورانہ، مربیانہ، سرپرستانہ، بے نیازانہ، طاقت و قوت، غرور و تکبر کا پیکر اور نفسیاتی برتری کا مکمل نمونہ ہوتا ہے جب کہ اس کے برخلاف نیچے والا ہاتھ یعنی لینے والا کشکول بردار، فقیرانہ، بھکارانہ، طفلانہ، خوشامدانہ اور ہزیمت و مغلوبیت و مرعونیت سے بے آبرو اور مسکینیت، چاپلوسی و عاجزی کی تصویر ہوتا ہے، گویا ایک آقا ہے تو دوسرا غلام! کیا دونوں برابری کی سطح پر بات کر سکتے ہیں؟ کامیاب مذاکرات کر سکتے ہیں؟ جن کا کھاتے ہیں ان ہی کے سامنے غرا سکتے ہیں؟ جب ہم امریکا سے برابری کی سطح پر بات تو بہت دور کی بات ہے خواب بھی دیکھتے ہیں اور کسی بھی امریکی حکم کی تعمیل میں توقف کرتے ہوئے ''اگر، مگر، چونکہ، چنانچے'' جیسے الفاظ استعمال کرنے اور اپنا سر اٹھا کر بات کرنے کے سپنے ہی دیکھتے ہیں تو امریکی للکار بڑی معقول ہوتی ہے کہ ہماری بلی اور ہم ہی کو میاؤں!

ہم 64 برس سے امریکی امداد پر پل رہے ہیں اور ان برسوں میں ہمارے مربی و سرپرست نے ہمیں 68 ارب ڈالر کی امداد سے نوازا ہے یہ ایک بڑی بھاری اور خطیر رقم ہے جس کے عوض ہم بڑی بھاری اور خطیر غلامی بھی برداشت کر رہے ہیں امداد کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے حکمرانوں سے آبرو مندانہ دوروں اور کامیاب مذاکرات یا برابری کی سطح پر بات چیت کا تصور، توقعات، امیدیں محال ہی نہیں بلکہ ناممکن ہیں۔

جب سے امریکا مشرق وسطیٰ میں ایک نئی استعماری طاقت کے روپ میں داخل ہوا ہے وہ اقوام بالخصوص پاکستان کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے، اپنے کنٹرول میں رکھنے اور اپنا اثر و رسوخ مسلسل بڑھانے کے لیے امداد کو ایک شاطرانہ چال کے طور پر استعمال کر رہا ہے، 2 اکتوبر 1950 کو استنبول میں عرب ممالک میں موجود امریکی سفارت کاروں کے ایک اجلاس میں جس کی سربراہی امریکی دفتر خارجہ کے نمایندے جارج میگی نے کی تھی اس اجلاس میں یہ اہم فیصلہ کیا گیا تھا کہ ''ملک کے عوام کی مدد کو خطے میں داخل ہونے کے لیے ایک اسلوب کے طور پر اختیار کیا جائے۔'' یہ امریکا کا پرانا طریقہ کار ہے کہ وہ اپنے زہر کو ایسے خوبصورت نام دیتے ہیں کہ خطے کے عوام و حکمران اس کو آب حیات سمجھ کر پیتے رہتے ہیں۔ یہ زہریلی امداد جسے وہ ''باہمی تعاون'' کہتے ہیں، امریکی پالیسی کا اہم ستون ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ امریکا مختلف علاقوں میں اندر تک داخل ہو سکے اور اپنے ایجنٹ پیدا کر سکے اور اس کے ساتھ ساتھ اس خطے کے وسائل کو لوٹ سکے اور وہاں بسنے والے لوگوں کا خون چوس سکے۔ امریکا نے امداد کے اس طریقہ کار کو انڈونیشیا کو اپنے استعماری چنگل میں دبوچنے کے لیے بھی استعمال کیا۔


جب سوئیکارنو نے 1950 کی دہائی میں امریکی امداد لینے سے انکار کیا تو امریکا مختلف حیلے بہانوں سے اسے اس وقت تک ڈراتا دھمکاتا رہا جب تک اس نے امریکی امداد کو قبول نہ کر لیا اور اس کے بعد امریکی اثر و رسوخ انڈونیشیا میں سرائیت کر گیا اور آج تک انڈونیشیا امریکی شکنجے سے نکل نہیں سکا، لہٰذا جسے امریکا انسانیت کے لیے امداد کہتا ہے وہ اس کی معاشی لغت کے مطابق ایک استعماری منصوبہ ہے جسے وہ اپنے حریص دوستوں کے خلاف بھی استعمال کرتا ہے۔ جنگ عظیم دوئم کے بعد یورپ کی بحالی کے لیے شروع کیے جانے والے ''مارشل منصوبے'' کے ذریعے امریکی کمپنیاں کئی یورپی معیشتوں میں گھس گئیں اور دس سال بعد صورت حال یہ ہو گئی کہ یورپی معیشت کسی حد تک امریکی کمپنیوں کی ہی ملکیت بن کر رہ گئی، اگرچہ گزشتہ برسوں کے دوران اس حقیقت میں کسی قدر کمی آئی ہے لیکن یورپی معیشت پر امریکی کمپنیوں کا اثر و رسوخ آج بھی باقی ہے۔

نواز اوباما ملاقات کے آغاز میں ہی دو برسوں سے رکھے ہوئے کولیشن سپورٹ فنڈ کے اجرا کے اعلان اور صدر امریکا کی جانب سے کانگریس سے پاکستان کی 30 کروڑ ڈالر کی فوجی امداد بحال کرنے کی درخواست کے ڈرامے کو اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے لیکن یہ مشکل میں گھرے ہوئے پاکستان کے لیے مثبت نہیں بلکہ منفی پیش رفت ہے اور اس سے اسلام آباد کی مشکلات میں حسب سابق مزید اضافہ ہو گا۔ یہ بات طے ہے کہ امریکا کو افغانستان سے فوجی انخلا کے لیے محفوظ راستے اور حکومت پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے لہٰذا وہ اسی لیے پاکستان کو امداد کا زہریلا لالی پاپ دے رہا ہے لیکن ہمیں اس بات کا ادراک و شعور ہونا چاہیے کہ پاکستان کے لیے ہر قسم کی مزید امریکی امداد زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کا خاتمہ اس کو جاری رکھنے سے ہزار درجے آسان ہے، ہم ٹریڈ، معیشت، توانائی، تعلیم، صحت، مسئلہ کشمیر، ڈرون حملوں سے نجات، انسداد دہشت گردی، مستحکم جمہوری اور خوشحال پاکستان کی تعمیر نو کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کے لیے چین اور دیگر قابل اعتماد دوستوں سے رابطے کر سکتے ہیں۔

جہاں تک ان بے سروپا باتوں کا تعلق ہے جنھیں خوب پھیلایا گیا ہے کہ اگر پاکستان اس امداد سے محروم ہو گیا تو وہ معاشی بحران اور غربت کا شکار ہو جائے گا تو یہ ایک کمزور اور بودی بات ہے۔ مسلم ممالک بالخصوص بشمول پاکستان کا معاشی بحران اور دیگر مسائل و چیلنجز مصنوعی ہیں اور اس کی وجہ بھی اقتدار کی کرسیوں پر براجمان ہمارے ماضی و حال کے حکمراں ہیں جو ملک و قوم کی قسمت اور اہم امور کے متعلق غیر ذمے دارانہ فیصلے کرتے اور ملک و قوم کی دولت اور اثاثوں کو بدعنوانی کی نظر کر دیتے ہیں، جو ملک اور اس کے عوام کے لیے شدید نقصان کا سب سے بڑا سبب ہے۔ بجائے یہ کہ عوامی اثاثوں کو ملک و قوم پر خرچ کیا جائے جو کہ ان کا حق ہے، ان اثاثوں سے حاصل ہونے والی دولت بڑے بڑے مگر مچھوں کے بینک اکاؤنٹوں میں خاموشی یا کھلے عام منتقل ہو جاتی ہے، خواہ یہ اکاؤنٹ اندرون ملک ہوں یا بیرون ملک، پھر امریکی امداد کے ذریعے ملک و قوم کو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے شکنجوں میں جکڑ دیا جاتا ہے، یہ ہے مسلم ممالک بالخصوص پاکستان میں معاشی بحران اور امریکی غلامی نیز ناکام امریکی دوروں کی اصل وجہ۔

حالانکہ قدرت نے عالم اسلام بالخصوص پاکستان کو اتنے وسائل عطا کر رکھے ہیں کہ جو اس کی ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں، بس ضرورت اس امر کی ہے کہ ان وسائل کو ویسے ہی استعمال کیا جائے جیسے استعمال کا حق ہے۔ پاکستان کی خطے میں جغرافیائی اعتبار سے اہمیت بھی مسلم ہے اور یہ سیاسی و عسکری ہر اعتبار سے امریکا اور طالبان دونوں ہی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، نیٹو سپلائی لائن جو کہ امریکی جنگ کی شہ رگ ہے وہ بھی یہیں سے گزرتی ہے اور امریکی انخلا کا راستہ بھی یہیں نکلتا ہے قدرت کی اتنی نوازشوں کے باوجود ہماری ہزیمت و غلامی کی یہ طویل داستان ہمارے نااہل حکمرانوں کے ناقص رویوں، غلط ترجیحات، فرسودہ و بوسیدہ مائنڈ سیٹ، بیہودہ اعمال، مسخ شدہ شخصیات و نفسیات، ضمیر فروشی، کرپٹ و شاطرانہ و غلامانہ ذہنیت اور مہلک و خودکش فیصلوں کی بدولت تباہ کن نتائج پر مبنی ہے، ایک پوری تاریخ اس کی گواہ ہے، لہٰذا بے سبب نہیں یہ ہمارے ناکام دوروں اور غلامیوں کا تسلسل ہے۔
Load Next Story