مصباح الحق کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوگیا
پاکستان ٹیم کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے، سری لنکا کے بعد پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا میں بھی بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے
یہ 2013 کی بات ہے، پاکستان کرکٹ ٹیم مصباح الحق کی قیادت میں جنوبی افریقہ کے دورے پر تھی۔ گرین شرٹس نے دورے کے دوران 3 ٹیسٹ میچوں، 5 ایک روزہ اور 2 ٹوئنٹی 20 میچوں کی سیریز میں حصہ لینا تھا۔ دورے کے دوران پاکستان ٹیم نے ناکامیوں کی ایسی تاریخ رقم کی کہ خدا کی پناہ۔
پہلا ٹیسٹ یکم فروری سے 4 فروری تک جوہانسبرگ میں کھیلا گیا۔ جنوبی افریقہ کے 253 رنز کے جواب میں گرین کیپس پہلی اننگز میں صرف 49 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔ پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ قومی ٹیم کا اب تک کا سب سے کم اسکور ہے۔ اسد شفیق، سرفراز احمد، سعید اجمل اور جنید خان جہاں ڈبل فیگرز میں بھی داخل نہ ہوسکے، وہاں یونس خان، عمر گل اور راحت علی صفر پر آﺅٹ ہوئے۔ پاکستان یہ ٹیسٹ میچ نہ صرف بری طرح ہار گیا بلکہ گرین کیپس کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 3-0 سے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب 6 سال کے بعد پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں بھی شرمناک کارکردگی دکھا کر شائقین کرکٹ کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔
سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ مصباح الحق جب کپتان تھے تو پاکستانی ٹیم ایک اننگز میں تاریخ کا سب سے کم اسکور بناسکی تھی، اب وہ ہیڈ کوچ ہیں تو پاکستان کو آسٹریلیا میں عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان ناکامیوں کے بعد قومی ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں ایک درجہ تنزلی کے بعد ساتویں سے آٹھویں نمبر پر آگئی ہے۔
کینگروز کے دیس میں پاکستانی ٹیم کی ان ناکامیوں کے بعد وفاقی وزیر فواد چوہدری جس طرح برسے ہیں، اس کے بعد ایک حلقے کا تو یہی کہنا ہے کہ ہواﺅں کا رخ بدل رہا ہے۔ پی سی بی کے ارباب اختیار اور بااثر ٹیم مینجمنٹ کو گھروں کی راہ دیکھنا پڑے گی۔ ایک اور تھیوری یہ بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بارودی سرنگوں پر بیٹھا ہے، جہاں غلط پاﺅں رکھا ٹھاہ ہوجائے گا۔
احسان مانی جس عزم کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ میں آئے تھے، ڈر لگتا ہے کہ ان کی واپسی بھی ماضی کے کرکٹ بورڈ کے سربراہان کی طرح شرمناک انداز میں نہ ہو۔ اپنے سالہا سال کے اسپورٹس رپورٹنگ کے تجربے کے بعد میں اس بات سے تو متفق ہوں کہ ہوا تو بس ہوا ہے جہاں "ویکیوم" دیکھتی ہے جگہ گھیر لیتی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد بڑے بڑے ہیروز ضرور زیرو ہوتے نظر آئیں گے، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پی سی بی حکام یا ٹیم مینجمنٹ کے بجائے قربانی صرف پلیئرز کی ہی ہوگی۔ ویسے بھی دورۂ آسٹریلیا کے دوران جس انداز میں ٹیسٹ کیپس بانٹی گئیں، نوجوان کھلاڑیوں کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے باہر بھی بٹھادیا گیا تو انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
کسی نے کمہار سے پوچھا نمک بیچ آئے؟ وہ بولا نمک تو نہیں بکا لیکن شہر ضرور دیکھ لیا۔ کیا ہوا اگر مصباح الحق کی بنائی ہوئی ٹیم بری طرح شکست سے دوچار ہوگئی، لیکن اس چکر میں نجانے کتنوں کی موجیں لگ گئیں۔ بہت سے نئے پلیئرز نے آسٹریلیا دیکھ لیا۔ خیر سے ٹیم کی کارکردگی آسٹریلیا کے دورے جیسی ہی رہی تو پلیئرز کو آگے جاکر اور دنیا بھی دیکھنے کے بڑے مواقع ملیں گے۔
اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو چیف کوچ و سلیکٹر مصباح الحق کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا۔ اب بات 'اجی سنیے' سے 'بہرے ہوگئے ہو کیا' تک آ پہنچی ہے۔ ہرنام سنگھ چوری کے الزام میں پکڑے گئے۔ ان کو بے عزت کرکے پورے گاﺅں کا چکر لگایا گیا۔ اچانک ان کی بیگم کی نظر پڑگئی وہ رونے لگی۔ سنگھ بولا ''نہ رو جھلیے دو گلیاں رہ گئیاں، تو گھر جاکے چا بنا میں آندا واں''۔ اسے کہتے ہیں کانفیڈینس۔ کرکٹ کے ارباب اختیار کے لہجے سے جو اعتماد جھلک رہا ہے، سچی بات ہے کوئی ڈرے یا نہ ڈرے، ہمیں تو خوف آرہا ہے۔
کچھ ہی عرصے میں ٹیم کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ سری لنکا کے بعد پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا میں بھی بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن افسوس کرکٹ کے خدمت گزاروں کو چین نہیں۔ وہ جب تک اس ٹیم کا بیڑہ غرق کرکے غرق ہونے کی تسلی نہیں کریں گے، انہیں سکون نہیں ملے گا۔
بیوٹی پارلر میں بیگم تیار ہورہی تھیں، حاجی صاحب میگزین پڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک خوبصورت خاتون نے ان کا نرمی سے کندھا دبایا اور بولی چلو چلیں۔ حاجی صاحب گھبرا گئے، پسینہ پسینہ ہوگئے اور لڑکھڑاتے ہوئے بولے ''میں شادی شدہ ہوں، اندر میری بیگم ہے''۔ وہ بولی ''حاجی صاحب غور نال ویکھو میں اوہی آں''۔ واہ رے ہمارے کھلاڑی اور عہدیدار، ہر بار میڈیا کے پارلر سے تیار ہوکر سوہنے موہنے بن کر آتے ہیں۔ ایک دو میچوں میں رسمی سی کارکردگی دکھاتے ہیں اور بھولے بھالے شائقین ان کے ماضی کے سیاہ کارناموں کو بھلا کر واہ واہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
پہلا ٹیسٹ یکم فروری سے 4 فروری تک جوہانسبرگ میں کھیلا گیا۔ جنوبی افریقہ کے 253 رنز کے جواب میں گرین کیپس پہلی اننگز میں صرف 49 رنز پر پویلین لوٹ گئی۔ پاکستان کی ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں یہ قومی ٹیم کا اب تک کا سب سے کم اسکور ہے۔ اسد شفیق، سرفراز احمد، سعید اجمل اور جنید خان جہاں ڈبل فیگرز میں بھی داخل نہ ہوسکے، وہاں یونس خان، عمر گل اور راحت علی صفر پر آﺅٹ ہوئے۔ پاکستان یہ ٹیسٹ میچ نہ صرف بری طرح ہار گیا بلکہ گرین کیپس کو تین ٹیسٹ میچوں کی سیریز میں 3-0 سے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ اب 6 سال کے بعد پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا میں بھی شرمناک کارکردگی دکھا کر شائقین کرکٹ کے سر شرم سے جھکا دیئے ہیں۔
سوچنے اور محسوس کرنے کی بات یہ ہے کہ مصباح الحق جب کپتان تھے تو پاکستانی ٹیم ایک اننگز میں تاریخ کا سب سے کم اسکور بناسکی تھی، اب وہ ہیڈ کوچ ہیں تو پاکستان کو آسٹریلیا میں عبرتناک شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ ان ناکامیوں کے بعد قومی ٹیم ٹیسٹ رینکنگ میں ایک درجہ تنزلی کے بعد ساتویں سے آٹھویں نمبر پر آگئی ہے۔
کینگروز کے دیس میں پاکستانی ٹیم کی ان ناکامیوں کے بعد وفاقی وزیر فواد چوہدری جس طرح برسے ہیں، اس کے بعد ایک حلقے کا تو یہی کہنا ہے کہ ہواﺅں کا رخ بدل رہا ہے۔ پی سی بی کے ارباب اختیار اور بااثر ٹیم مینجمنٹ کو گھروں کی راہ دیکھنا پڑے گی۔ ایک اور تھیوری یہ بھی ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ بارودی سرنگوں پر بیٹھا ہے، جہاں غلط پاﺅں رکھا ٹھاہ ہوجائے گا۔
احسان مانی جس عزم کے ساتھ پاکستان کرکٹ بورڈ میں آئے تھے، ڈر لگتا ہے کہ ان کی واپسی بھی ماضی کے کرکٹ بورڈ کے سربراہان کی طرح شرمناک انداز میں نہ ہو۔ اپنے سالہا سال کے اسپورٹس رپورٹنگ کے تجربے کے بعد میں اس بات سے تو متفق ہوں کہ ہوا تو بس ہوا ہے جہاں "ویکیوم" دیکھتی ہے جگہ گھیر لیتی ہے۔ آسٹریلیا کے خلاف سیریز کے بعد بڑے بڑے ہیروز ضرور زیرو ہوتے نظر آئیں گے، لیکن ہمیشہ کی طرح اس بار بھی پی سی بی حکام یا ٹیم مینجمنٹ کے بجائے قربانی صرف پلیئرز کی ہی ہوگی۔ ویسے بھی دورۂ آسٹریلیا کے دوران جس انداز میں ٹیسٹ کیپس بانٹی گئیں، نوجوان کھلاڑیوں کو سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ سیریز سے باہر بھی بٹھادیا گیا تو انہیں کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
کسی نے کمہار سے پوچھا نمک بیچ آئے؟ وہ بولا نمک تو نہیں بکا لیکن شہر ضرور دیکھ لیا۔ کیا ہوا اگر مصباح الحق کی بنائی ہوئی ٹیم بری طرح شکست سے دوچار ہوگئی، لیکن اس چکر میں نجانے کتنوں کی موجیں لگ گئیں۔ بہت سے نئے پلیئرز نے آسٹریلیا دیکھ لیا۔ خیر سے ٹیم کی کارکردگی آسٹریلیا کے دورے جیسی ہی رہی تو پلیئرز کو آگے جاکر اور دنیا بھی دیکھنے کے بڑے مواقع ملیں گے۔
اگر حقیقت کے آئینے میں دیکھا جائے تو چیف کوچ و سلیکٹر مصباح الحق کا ہنی مون پیریڈ ختم ہوچکا۔ اب بات 'اجی سنیے' سے 'بہرے ہوگئے ہو کیا' تک آ پہنچی ہے۔ ہرنام سنگھ چوری کے الزام میں پکڑے گئے۔ ان کو بے عزت کرکے پورے گاﺅں کا چکر لگایا گیا۔ اچانک ان کی بیگم کی نظر پڑگئی وہ رونے لگی۔ سنگھ بولا ''نہ رو جھلیے دو گلیاں رہ گئیاں، تو گھر جاکے چا بنا میں آندا واں''۔ اسے کہتے ہیں کانفیڈینس۔ کرکٹ کے ارباب اختیار کے لہجے سے جو اعتماد جھلک رہا ہے، سچی بات ہے کوئی ڈرے یا نہ ڈرے، ہمیں تو خوف آرہا ہے۔
کچھ ہی عرصے میں ٹیم کا بیڑہ غرق ہوچکا ہے۔ سری لنکا کے بعد پاکستانی ٹیم کو آسٹریلیا میں بھی بدترین شکستوں کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن افسوس کرکٹ کے خدمت گزاروں کو چین نہیں۔ وہ جب تک اس ٹیم کا بیڑہ غرق کرکے غرق ہونے کی تسلی نہیں کریں گے، انہیں سکون نہیں ملے گا۔
بیوٹی پارلر میں بیگم تیار ہورہی تھیں، حاجی صاحب میگزین پڑھ رہے تھے۔ اچانک ایک خوبصورت خاتون نے ان کا نرمی سے کندھا دبایا اور بولی چلو چلیں۔ حاجی صاحب گھبرا گئے، پسینہ پسینہ ہوگئے اور لڑکھڑاتے ہوئے بولے ''میں شادی شدہ ہوں، اندر میری بیگم ہے''۔ وہ بولی ''حاجی صاحب غور نال ویکھو میں اوہی آں''۔ واہ رے ہمارے کھلاڑی اور عہدیدار، ہر بار میڈیا کے پارلر سے تیار ہوکر سوہنے موہنے بن کر آتے ہیں۔ ایک دو میچوں میں رسمی سی کارکردگی دکھاتے ہیں اور بھولے بھالے شائقین ان کے ماضی کے سیاہ کارناموں کو بھلا کر واہ واہ کرنا شروع کردیتے ہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔