جمہوریت جمہوریت ہے…

جمہوریت کی مثال اس مرے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جس میں ہمارے حکمران عرصہ دراز سے روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

رواں سال ''جمہوریت کے لیے آواز بلند کرو'' کے عنوان سے عالمی یوم جمہوریت منایا گیا۔ یہ دن جمہوریت کے لیے عوامی شعور کی بیداری اور غیر جمہوری قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنے کے عہد سے 15 ستمبر 2008 سے مسلسل منایا جا رہا ہے۔ ہم تسلسل کے ساتھ ''بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے بہتر ہے'' جیسے فقرے بھی سنتے آ رہے ہیں۔ جمہوری نظام کو باریک بینی سے جانچنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ جمہوریت انسانی عقل کی اختراع ہے، جو دین کی زندگی سے جدائی کے اور پھر اس کے نتیجے میں ریاست سے علیحدگی کے عقیدے یعنی سیکولرازم سے نکلی ہے۔اور یہ صرف انتخابات نہیں بلکہ قانون سازی کا کھیل ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی اپنے حالیہ بیان میں اعتراف کیا کہ جمہوریت سیکولرازم کے بغیر بے معنی ہے اور ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہونا چاہیے۔

سیکولرازم اور جمہوریت کی بنیاد عقل ہے سوال یہ ہے محض محدود اور ناقص عقل کی بنیاد پر ریاستی امور سے متعلق اہم فیصلے یا قانون سازی سود مند ثابت ہو سکتی ہے؟ کیا اکثریتی فیصلے بہترین فیصلوں کی ضمانت ہے؟ عوام دانشِ اجتماعی کے ذریعے چور، ڈاکو اور قاتلوں کو اپنا نمایندہ منتخب کر لیں تو وہ دھوکے باز پھر دھوکے باز نہیں رہتا۔ منتخب نمایندے حرام کو حلال یا حلال کو حرام قرار دے دیں تو کیا یہ درست ہو گا۔ کیا مسلسل تبدیل ہونے والی عقل مستحکم اور دیرپا ریاستی پالیسیز کا موجب ہو سکتی ہے؟

کیا جمہوریت کے ذریعے عوام کی حقیقی نمایندگی واقعی ممکن ہے؟ یہ قانون ساز محض اپنے مفاد میں کبھی قانون بناتے تو کبھی کالعدم قرار دیدیتے ہیں۔ عراق کی جنگ امریکی حکومت نے عوام سے جھوٹ بول کر لڑی اور اس کا فائدہ بش نواز امریکی کمپنیوں نے اٹھایا؟ پیپلز پارٹی دور کے آخری ایام ہی دیکھ لیجیے، کس طرح آخری منٹ میں یہ قانون ساز جاتے جاتے اپنے لیے زندگی بھرکی مراعات کو قانونی شکل دے گئے۔

جمہوری نظام میں عدل کی فراہمی اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ ممکن نہیں۔ آج امریکا میں پیٹریاٹ ایکٹ جیسا کالا قانون نافذ العمل ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کے خلاف صرف دہشتگردی کا الزام لگا کر اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے، مطلب نہ ثبوت، نہ پیشی۔ گوانتانامو بے میں مسلمانوں کو قومی سلامتی کا جواز بنا کر بغیر مقدمہ چلائے سالہا سال قید رکھنا یہ سب امریکا کے ''مہذب'' اور ''انصاف پسند'' معاشرے کی عکاسی کرتا ہے۔ فلسطین، افغانستان، جنوب مشرقی ایشیا، لاطینی امریکا، سیاہ فام افریقا، مالی، عراق، بوسنیا اور چیچنیا مثالیں ہیں جو ان کے دجل و فریب کا پول کھولتی ہیں۔ جمہوریت سے ان کی محبت کا یہ عالم کہ جنرل السیسی جیسے آمر بھی لگنے لگیں جمہوری۔


پاکستان میں جمہوریت کی حقیقت وحیدہ شاہ کا وہ تھپڑ ہے جو انھوں نے ضمنی انتخابات کے دوران پولنگ عملے کی خاتون کو رسید کیا۔ ہمارے عوامی نمایندوں کے عوامی ہونے کا اندازہ ان کے سیاست میں قدم رکھنے سے قبل اور بعد کی ذاتی جائیداد اور خاندانی اثاثوں کا موازنہ کر کے لگایا جا سکتا ہے۔ گزشتہ سینیٹ انتخابات اس نظام کی وقعت اور شفافیت کو مزید بیان کرتے ہیں، جب حکومت نے ساٹھ سینیٹرز کی حمایت حاصل کرنے کے لیے 36 کروڑ روپے سے زائد کے فنڈز رشوت کے طور پر جاری کیے۔ مزید برآں انتخابات کے نتیجے میں جس طرح کی قیادت بھی مسلط ہو جائے اسے برداشت کرنا اور پھر پانچ سال کا انتظار ہی جمہوریت کا حسن قرار پاتا ہے۔ جمہوریت کے آبا جمہوری تجربے کے فی الاصل غلط ثابت ہو جانے پر بھی ایک ہی حل تجویز فرماتے ہیں ''مزید جمہوریت''، عجب لطیفہ ہے۔

خیر، صرف پاکستان کو مدنظر رکھتے ہوئے جمہوریت میں نقائص یا خامیاں بیان کرنا ناانصافی ہے کیوں کہ یہاں تو آمروں نے جمہوریت کی اصل روح یا خالص جمہوری روایات کو پنپنے ہی نہ دیا تو اس کے ثمرات بھلا کیسے سامنے آتے اور پھر بھارت، امریکا اور برطانیہ میں بھی تو جمہوریت فٹ فاٹ چل رہی ہے اور ترقی کی بڑی وجہ بھی جمہوریت ہے۔ معلوم نہیں اسے دلیل سمجھیں یا معصومیت۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت والے بھارت کو ہی دیکھ لیجیے۔ دنیا کا واحد ملک ہے جس کے اپنے ہی 80 کروڑ سے زائد شہری غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دنیا کے کرپٹ ترین ملکوں میں شمار نہ ہو یہ بھی ممکن نہیں۔ یہاں بھی دیگر جمہوری ملکوں کی طرح اقلیتی مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔

تیس سے زائد تحریکیں آزادی کی جدوجہد میں یہیں مصروف ہیں جب کہ وہاں تو نہ ہی کوئی آئینی بحران، نہ ہی غیر جمہوری قوتوں کی سازشیں اور نہ ہی کبھی سیاسی حلقوں میں کسی نے فوجی بوٹوں کی دھمک سنی ہے، بلکہ یہاں تو گزشتہ 65 برسوں سے آزاد عدلیہ بھی موجود ہے پھر بھی 2009 کے اعداد و شمار کے مطابق نجانے کیوں عدالتوں میں 30 ملین سے زائد کیسز التوا کا شکار ہیں۔ معاشرتی گراوٹ اور عورتوں کے ساتھ ظلم کا عالم یہ کہ سالانہ 25 ہزار عورتیں صرف ناکافی جہیز لانے کی بنا پر موت کے گھاٹ اتار دی جاتی ہیں۔ پاکستان ہی کی طرح غیرت کے نام پر قتل کے واقعات بھارت میں بھی عام ہیں۔ کون جمہوری بھارت میں انتخابی سیاست سے لاعلم ہے جہاں انتخابات سے قبل جگہ جگہ انتشار پھیلانے کی کوشش کی جاتی ہے تا کہ رائے دہندگان کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا جا سکے۔

کسی نے سوچا ہے جمہوری دنیا کا حال اس قدر خوفناک ہے تو مستقبل کیسا ہو گا؟ اور اگر سب کچھ جمہوریت اور سرمایہ داریت کی طرز پر ہی چلتا رہا تو ہم کس چیز کو دعوت دے رہے ہیں۔ جمہوریت کی مثال اس مرے ہوئے گھوڑے کی سی ہے جس میں ہمارے حکمران عرصہ دراز سے روح پھونکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ انتخابات کے ذریعے حکومت تو تبدیل کی جا سکتی مگر نظام نہیں۔ جمہوریت کی حقیقت دنیا کے کسی بھی کونے میں ایک ہی سی ہے۔ تاریخ شاہد ہے دنیا میں کہیں جمہوریت کے ذریعے انقلاب آیا اور نہ ہی عوام کے حالات زندگی میں بہتری آئی۔ جمہوریت چاہے امریکا کی ہو یا بھارت کی، برطانوی ہو یا پاکستانی... جمہوریت، جمہوریت ہے۔
Load Next Story