بے یقینی کی فضاء میں بلدیاتی انتخابات کا شور
ایسا لگ رہا ہے کہ پی پی پی اپنے مخالفین کے بلدیاتی انتخابات سے فرار کے الزامات کا جواب دینے جا رہی ہے.
KARACHI:
حکومت سندھ بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ پی پی پی اپنے مخالفین کے بلدیاتی انتخابات سے فرار کے الزامات کا جواب دینے جا رہی ہے، لیکن کراچی میں امن و امان کی خراب صورتِ حال، ٹارگیٹڈ آپریشن، اندرونِ سندھ حلقہ بندیوں میں سیاسی مفادات پورے کرنے کا شور اور پی پی پی کی مخالف جماعتوں کے خدشات اور تحفظات کا اظہار اس راستے میں مشکلات کھڑی کرے گا۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ اس تمام عمل کو سیاسی قوتوں کے لیے قابلِ قبول بھی بنانا ہو گا، ورنہ انتخابی عمل کے دوران ہی الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران امن وامان قائم رکھنا بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار اور رکن سندھ اسمبلی سید سردار علی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت مقامی حکومتوں کے انتخابات ساتھ ساتھ آئین کی روح کے مطابق انہیں اختیارات بھی دینے کی ہدایت جاری کرے۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 140 (اے) سے متصادم ہے، اس لیے عدالت اسے مکمل طور پر یا اس کی آئین سے متصادم شقوں کو کالعدم قرار دے کر صوبائی حکومت کو اس میں ترمیم کی ہدایت جاری کرے۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 140(اے) میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت یا بلدیاتی اداروں کے مؤثر نظام میں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات بھی دینے ہوں گے، جب کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013، درحقیقت 1979 کے بلدیاتی نظام کا چربہ ہے۔
اس میں ذمہ داریاں تو مقامی حکومتوں کو سونپی جارہی ہیں، لیکن اختیارات نہیں دیے جا رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم انتخابات کے التواء کی کسی بھی قیمت پر حمایت نہیں کرے گی۔ عدالت میں دائر درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میونسپل اداروں یا مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، میرپور خاص ، لاڑکانہ اور خیرپور سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں کی منتخب مقامی حکومتیں صرف نکاسی و فراہمی آب اور سڑکوں کی تعمیر کی ذمہ دار ہی نہ ہوں بلکہ انہیں پولیس، اراضی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی کردار ادا کرنے دیا جائے، جس سے عوام کے بنیادی مسائل کا حل اور انہیں فوری ریلیف ملے گا۔
پیپلزپارٹی کے راہ نما اور وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنی تیاری مکمل کر چکی ہے، اور انتخابات مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔ اس سلسلے میں حکومتی احکامات کے بعد کراچی میں بھی ڈپٹی کمشنرز نے 268 بلدیاتی حلقے تشکیل دے دیے ہیں اور مجوزہ حلقوں کی رپورٹ کمشنر آفس میں جمع کرا دی ہے، جن پر اعتراضات جمع کرانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اگلے مرحلے میں یکم نومبر تک حلقوں کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ شہری علاقوں میں 247 یونین کمیٹیاں اور دیہی علاقوں میں 21 یونین کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں، جن کی فہرست اور تفصیلات ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں آویزاں کر دی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتیں کو اس پر اپنے اعتراضات سات دن کے اندر کمشنر آفس میں جمع کرانا ہیں۔
پچھلے دنوں الیکشن کمیشن نے محکمۂ بلدیات سے ایک خط کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی رپورٹ طلب کی، جس میں خصوصاً حلقہ بندیوں سے متعلق تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے ن لیگ کے صوبائی راہ نماؤں نے رکن سندھ اسمبلی عرفان اللہ مروت کی رہائش گاہ پر منعقدہ پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ حکومت سندھ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ چند نئے اضلاع تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، ہم اس سارے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر حلقہ بندیاں کسی کی فرمائش پر کی گئیں تو بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ اس اجلاس کی صدارت پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری سلیم ضیاء نے کی۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی اور وزیر مملکت عبد الحکیم بلوچ، اراکین سندھ اسمبلی حاجی محمد شفیع جاموٹ، ہمایوں محمد خان، صوبائی سیکریٹری اطلاعات علی اکبر گجر کے علاوہ صوبائی جوائنٹ سیکریٹری دلاور خان جدون اور ضلع ساؤتھ کراچی کے صدر سلطان بہادر نے شرکت کی۔
پا کستان پیپلزپارٹی کی مرکزی راہ نما اور ایم این اے فریال تالپور سے مسلم لیگ کے راہ نما سید ابرار شاہ نے پچھلے دنوں زرداری ہاؤس کراچی میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر فریال تالپور نے کہا کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اور بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کر ے گی۔
شہر میں روزانہ ہی درجنوں افراد کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک طرف لیاری کے بے گناہ عوام متحارب گروہوں کی وجہ سے مشکل سے دوچار ہیں اور دوسری طرف رینجرز مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو حراست میں لے رہی ہے۔ کراچی میں آپریشن کے باوجود قتل وغارت نہیں تھم سکی ہے۔ رینجرز کی جانب سے یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ انہیں مکمل کارروائی کے لیے چھے ماہ کی مدت درکار ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اب کراچی میں صرف شریف آدمی رہے گا اور باقی لوگ یا تو مارے جائیں گے یا بھاگ جائیں گے۔ ان حالات میں کراچی کے عوام شدید خوف اور بے چینی کا شکار ہیں، جسے دور کرنا ضروری ہے۔
حکومت سندھ بلدیاتی انتخابات کرانے کی تیاریاں مکمل کرچکی ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ پی پی پی اپنے مخالفین کے بلدیاتی انتخابات سے فرار کے الزامات کا جواب دینے جا رہی ہے، لیکن کراچی میں امن و امان کی خراب صورتِ حال، ٹارگیٹڈ آپریشن، اندرونِ سندھ حلقہ بندیوں میں سیاسی مفادات پورے کرنے کا شور اور پی پی پی کی مخالف جماعتوں کے خدشات اور تحفظات کا اظہار اس راستے میں مشکلات کھڑی کرے گا۔ سیاسی مبصرین کاکہنا ہے کہ پی پی پی کی صوبائی حکومت کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے ساتھ اس تمام عمل کو سیاسی قوتوں کے لیے قابلِ قبول بھی بنانا ہو گا، ورنہ انتخابی عمل کے دوران ہی الزامات کا نہ تھمنے والا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔ کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے دوران امن وامان قائم رکھنا بھی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہو گا۔
دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ نے سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013 کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار اور رکن سندھ اسمبلی سید سردار علی نے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں استدعا کی ہے کہ عدالت مقامی حکومتوں کے انتخابات ساتھ ساتھ آئین کی روح کے مطابق انہیں اختیارات بھی دینے کی ہدایت جاری کرے۔
درخواست گزاروں کا موقف ہے کہ لوکل گورنمنٹ ایکٹ آئین کے آرٹیکل 140 (اے) سے متصادم ہے، اس لیے عدالت اسے مکمل طور پر یا اس کی آئین سے متصادم شقوں کو کالعدم قرار دے کر صوبائی حکومت کو اس میں ترمیم کی ہدایت جاری کرے۔ اس سلسلے میں گذشتہ روز بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا تھاکہ آئین کے آرٹیکل 140(اے) میں کہا گیا ہے کہ مقامی حکومت یا بلدیاتی اداروں کے مؤثر نظام میں سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات بھی دینے ہوں گے، جب کہ سندھ لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2013، درحقیقت 1979 کے بلدیاتی نظام کا چربہ ہے۔
اس میں ذمہ داریاں تو مقامی حکومتوں کو سونپی جارہی ہیں، لیکن اختیارات نہیں دیے جا رہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ بھی کہا کہ ایم کیو ایم انتخابات کے التواء کی کسی بھی قیمت پر حمایت نہیں کرے گی۔ عدالت میں دائر درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ میونسپل اداروں یا مقامی حکومتوں کے نظام کے تحت کراچی، حیدرآباد، نواب شاہ، سکھر، میرپور خاص ، لاڑکانہ اور خیرپور سمیت صوبے کے تمام بڑے شہروں کی منتخب مقامی حکومتیں صرف نکاسی و فراہمی آب اور سڑکوں کی تعمیر کی ذمہ دار ہی نہ ہوں بلکہ انہیں پولیس، اراضی، ٹرانسپورٹ، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بھی کردار ادا کرنے دیا جائے، جس سے عوام کے بنیادی مسائل کا حل اور انہیں فوری ریلیف ملے گا۔
پیپلزپارٹی کے راہ نما اور وزیر اعلی سندھ قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنی تیاری مکمل کر چکی ہے، اور انتخابات مقررہ تاریخ پر ہی ہوں گے۔ اس سلسلے میں حکومتی احکامات کے بعد کراچی میں بھی ڈپٹی کمشنرز نے 268 بلدیاتی حلقے تشکیل دے دیے ہیں اور مجوزہ حلقوں کی رپورٹ کمشنر آفس میں جمع کرا دی ہے، جن پر اعتراضات جمع کرانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا ہے۔ اگلے مرحلے میں یکم نومبر تک حلقوں کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔ شہری علاقوں میں 247 یونین کمیٹیاں اور دیہی علاقوں میں 21 یونین کونسلیں تشکیل دی گئی ہیں، جن کی فہرست اور تفصیلات ڈپٹی کمشنرز کے دفاتر میں آویزاں کر دی گئی ہیں۔ سیاسی جماعتیں کو اس پر اپنے اعتراضات سات دن کے اندر کمشنر آفس میں جمع کرانا ہیں۔
پچھلے دنوں الیکشن کمیشن نے محکمۂ بلدیات سے ایک خط کے ذریعے بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں کی رپورٹ طلب کی، جس میں خصوصاً حلقہ بندیوں سے متعلق تفصیلات مانگی گئی ہیں۔
گذشتہ ہفتے ن لیگ کے صوبائی راہ نماؤں نے رکن سندھ اسمبلی عرفان اللہ مروت کی رہائش گاہ پر منعقدہ پارٹی کے اجلاس میں کہا کہ حکومت سندھ کراچی میں نئی حلقہ بندیوں کے ساتھ ساتھ چند نئے اضلاع تشکیل دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، ہم اس سارے معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، اگر حلقہ بندیاں کسی کی فرمائش پر کی گئیں تو بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔ اس اجلاس کی صدارت پارٹی کے صوبائی جنرل سیکریٹری سلیم ضیاء نے کی۔ اجلاس میں رکن قومی اسمبلی اور وزیر مملکت عبد الحکیم بلوچ، اراکین سندھ اسمبلی حاجی محمد شفیع جاموٹ، ہمایوں محمد خان، صوبائی سیکریٹری اطلاعات علی اکبر گجر کے علاوہ صوبائی جوائنٹ سیکریٹری دلاور خان جدون اور ضلع ساؤتھ کراچی کے صدر سلطان بہادر نے شرکت کی۔
پا کستان پیپلزپارٹی کی مرکزی راہ نما اور ایم این اے فریال تالپور سے مسلم لیگ کے راہ نما سید ابرار شاہ نے پچھلے دنوں زرداری ہاؤس کراچی میں ملاقات کی۔ اس ملاقات میں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کیا۔ اس موقع پر فریال تالپور نے کہا کہ پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لے گی اور بھاری اکثریت سے کام یابی حاصل کر ے گی۔
شہر میں روزانہ ہی درجنوں افراد کی گرفتاری کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ ایک طرف لیاری کے بے گناہ عوام متحارب گروہوں کی وجہ سے مشکل سے دوچار ہیں اور دوسری طرف رینجرز مختلف علاقوں سے درجنوں افراد کو حراست میں لے رہی ہے۔ کراچی میں آپریشن کے باوجود قتل وغارت نہیں تھم سکی ہے۔ رینجرز کی جانب سے یہ موقف بھی سامنے آیا ہے کہ انہیں مکمل کارروائی کے لیے چھے ماہ کی مدت درکار ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ اب کراچی میں صرف شریف آدمی رہے گا اور باقی لوگ یا تو مارے جائیں گے یا بھاگ جائیں گے۔ ان حالات میں کراچی کے عوام شدید خوف اور بے چینی کا شکار ہیں، جسے دور کرنا ضروری ہے۔