طالبان کے مسئلے پر لندن میں تینوں رہنماؤں کی اہم ملاقات

وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپسی پر لندن میں ہونے والی سہ فریقی ملاقات میں اپنی مذاکرات کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔

وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپسی پر لندن میں ہونے والی سہ فریقی ملاقات میں اپنی مذاکرات کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔ فوٹو : اے ایف پی

وزیراعظم محمد نواز شریف امریکا کا دورہ مکمل کرنے کے بعد براستہ لندن ابھی وطن واپس پہنچے ہی تھے کہ وقت کی کمی کے باعث وفاقی کابینہ کا اجلاس کیے بغیر محض وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان، وزیر اطلاعات سینیٹر پرویز رشید اور اپنے اتحادی رہنما مولانا فضل الرحمان سے تفصیلی ملاقات کے بعد لندن روانہ ہو گئے۔

چوہدری نثار علی خان نے انھیں ان تفصیلات سے آگاہ کیا جو پاکستانی طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت میں سامنے آئی تھیں۔ وزیر اطلاعات پرویز رشید نے انھیں ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال بالخصوص طالبان سے براہ راست مذاکرات کے باقاعدہ عمل کے آغاز میں تاخیر اور اب تک ہونے والے پس پردہ رابطوں سے بھی قوم کو آگاہ نہ رکھنے کے باعث پیدا شدہ تشویش اور اپوزیشن رہنماؤں کے تنقیدی لب و لہجے کی گہرائی اور ممکنہ نتائج سے بھی آگاہ کیا۔

وزیراعظم نواز شریف کی لندن روانگی سے قبل تیسرے ملاقا ت کرنے والے اہم ترین فرد جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان تھے۔ ذرائع کے مطابق انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کو پاکستانی طالبان سے مذاکرات شروع کرنے کے حوالے سے ان کے ذاتی حیثیت میں اب تک ہونے والے رابطوں کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور تجویز کیا کہ باقاعدہ مذاکرات کے آغاز میں تاخیر نہ کی جائے اور قبائلی عمائدین سے فوری رابطہ کرکے انھیں مذاکرات کا باقاعدہ حصہ بنایا جائے۔

چونکہ وزیراعظم پاکستان اس ملاقات کے چند گھنٹوں بعد لندن روانہ ہونے والے تھے جہاں ان کی ملاقات برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور افغانستان کے صدر حامد کرزئی سے ہونا تھی۔ مولانا فضل الرحمان نے افغان طالبان کو جنگ بندی پر آمادہ کرکے مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے ان کی طرف سے کی جانے والی کوششوں کے تناظر میں تجویز کیا کہ حکومت پاکستان افغان طالبان کی امریکا اور افغان انتظامیہ سے مذاکرات کے معاملے میں محض سہولت کار کا کردار ادا کرے جبکہ افغان طالبان سے مذاکرات کے لیے لندن کے تعاون سے سعودی عرب میں ہی مذاکرات کرائے جانے کی تجویز دی جائے۔

لندن میں ہونے والی سہ فریقی سربراہی ملاقات میں افغان صدر حامد کرزئی یہ معاملہ بھی اٹھائیں گے کہ افغان رہنما ملا عبدالغنی برادر کو رہائی تو دے دی گئی مگر ان کے بارے میں افغانستان میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ وہ اس وقت کہاں ہیں، افغان حکومت یہ بھی الزام لگا رہی ہے کہ ملا برادر ابھی تک پشاور کے کسی سرکاری سیف ہاؤس میں نظر بند ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کو حامد کرزئی کی جانب سے ان تمام الزامات کا لندن میں سامنا اور برطانوی وزیراعظم کی موجودگی میں مدلل جواب دینا ہو گا۔ مولانا فضل الرحمان کے افغان رابطوں سے برطانوی حکومت بھرپور فائدہ اٹھانا چاہتی ہے اسی لیے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے برطانیہ کے دفاعی کمیٹی کے وفد نے منگل کی سہ پہر اسلام آباد میں ان سے ملاقات کرکے تعاون کی مزید راہیں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔


وزیراعظم نواز شریف کے دورۂ امریکا کی کامیابی اور ناکامی کی بحث کی گرد ابھی بیٹھی نہ تھی کہ اب وطن واپسی پر انھیں لندن میں ہونے والی سہ فریقی ملاقات میں اپنی مذاکرات کارکردگی کا جواب دینا ہوگا۔ دورۂ امریکا کے حوالے سے سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا جا رہا تھا کہ امریکا ڈرون حملے بند کرے۔ جب اس معاملے کو پاکستان اور امریکا کے درمیان زیر بحث موضوعات میں اوّلین حیثیت دیتے ہوئے آسمان سر پر اٹھایا جا رہا تھا تو امریکا خاموشی سے ساری صورتحال دیکھتا رہا اور وزیراعظم نواز شریف کی امریکی صدر باراک اوباما سے ملاقات سے ایک روز قبل یہ بھانڈہ پھوڑ دیا کہ ہمارے سابق حکمران از خود ڈرون حملوں کی اجازت دیتے رہے۔

امریکی حکام نے اس بات کو زیادہ دیر کے لیے بھی معمہ نہیں رہنے دیا کہ وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے امریکا کے صدر باراک اوباما سے ملاقات کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس کے اول روم میں ہی بلا تاخیر یہ کیونکر کہہ دیا کہ پاکستان کو اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہوگا۔ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے بعد فوری اظہار خیال کے موقع پر امریکا کے صدر باراک اوباما نے اپنے حکومتی موقف سے قطعاً انحراف نہ کیا اور وہی بیان دہرایا جو ان کا سرکاری موقف ہے جبکہ پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف ملاقات کے اثرات کا اس حد تک اپنے ذہن پر اثر لے چکے تھے کہ انھوں نے امریکی صدر کی موجودگی میں پسپائی اختیار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سے غلطیاں ہوئی ہیں اور ہمیں اپنا ہاؤس ان آرڈر کرنا ہے۔

ہمارے وزیراعظم اگر ہاؤس اِن آرڈر کرنے پر تیار ہو ہی گئے ہیں تو انھیں داخلی، خارجی، سیاسی، انتظامی اور دیگر بہت سے محاذوں پر بھی اصلاح احوال کے لیے ہنگامی اقدامات کرنا ہوں گے اور یہ تب ہی ممکن ہے جب وہ اپنی خلوصِ نیت پر یقین رکھتے ہوئے فیصلے کریں گے۔ انھیں ڈی ٹریک کرنے والے صبح شام الٹی سیدھی تجاویز اور ذاتی مفاد کے حصول کے لیے غیر ضروری مشورے دیتے رہیں گے۔ بلاشبہ ان کی حکومت کو توقع سے کہیں زیادہ چیلنجز درپیش ہیں اور یہ پاکستان ہی ہے کہ جہاں اپوزیشن لیڈر کے چناؤ کے معاملے پر بھی الزام حکومت پر آتا ہے کہ یہ مک مکا ہے۔ اب قومی اسمبلی میں ایک نشست رکھنے والے شیخ رشید احمد بھی یہ اعتراض اٹھا رہے ہیں کہ سید خورشید احمد شاہ اپوزیشن لیڈر کا حقیقی کردار ادا نہیں کر رہے۔

بجلی، تیل و گیس کے نرخوں میں ہونے والے ہوشربا اضافے کے باعث آنے والی مہنگائی کی لہر پر اپوزیشن لیڈر بطور احتجاج ایک لفظ بھی ادا کرنے کے لیے تیار نہیں۔ آئندہ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے شیخ رشید احمد کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ اگر اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں نے عوامی مفاد میں بروقت آواز نہ اٹھائی تو پھر عوام کا انتخابی عمل سے اعتماد ہی اٹھ جائے گا۔

یہاں تک ان کی بات سے متحدہ قومی موومنٹ کے رہنما اور تحریک انصاف کے عمران خان اتفاق کرتے ہوئے مگر اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے معاملے پر ان دونوں جماعتوں کا ایک ہو جانا موجودہ سیاسی حالات میں ممکن نہیں اور شیخ رشید احمد کے لیے یہی ناخوشگوار سیاسی صورتحال خوش آئند قرار دی جا سکتی ہے کہ اگر ایم کیو ایم اور تحریک انصاف اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے پر تیار ہو گئیں اور ایک دوسرے کو قائد ماننے پر رضا مند نہ ہوئیں تو شاید قرعہ شیخ رشید احمد کے نام نکل آئے اور اس کے امکانات اس وقت تک نہ ہونے کے برابر ہیں جب تک کوئی غیبی قوت شیخ رشید احمد کی مدد کو نہ آن پہنچے۔

ادھر تحریک انصاف نے حسب توقع چیئرمین نیب کی تقرری کے معاملے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے ۔ جس تیزی سے سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف کیس کھولا گیا ہے عام تاثر یہی لیا جا رہا ہے کہ تیزی سے کھولے جانے والے کیس درحقیقت ہمیشہ کے لیے بند کرنے کے لیے ہی کھولے جاتے ہیں مگر چیئرمین نیب چوہدری قمر زمان کے ارادوں اور ا ن کے سابقہ سروس ریکارڈ کے باعث توقع کی جا سکتی ہے کہ ملکی خزانے سے اربوں روپے لوٹنے والوں کو وہ اس بار بھاگنے نہ دیں گے اور انھوں نے عوامی توقعات کے مطابق لیڈر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی تیز کر دی تو تحریک انصاف کے عمران خان کی جانب سے لگائے گئے الزام کا بھی عملی جواب سامنے آ جائے گا کہ چیئرمین نیب کی تقرری موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کے درمیان مک مکا کا نتیجہ نہیں۔
Load Next Story