قومی معاملات پر سیاسی ہم آہنگی کی ضرورت

اے پی سی کے انعقاد کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے واقعات تھمے ہیں نہ ان میں کمی واقع ہوئی ہے.


Shahbaz Anwer Khan October 30, 2013
اے پی سی کے انعقاد کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے واقعات تھمے ہیں نہ ان میں کمی واقع ہوئی ہے. فوٹو : فائل

ملک میں دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے عفریت نے جس طرح امن وامان کی صورت حال کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اس سے جہاں ملکی سالمیت ، بقاء اور استحکام کے لیے خطرات پیدا ہوچکے ہیں وہاں حکومتی رِٹ اور حکومتی عمل داری بھی ایک سوال بن کر رہ گئی ہے ۔

اس صورت حال سے اندرون وبیرون ِ ملک پاکستان کی شناخت ایک ناکام ریاست کے طورپرابھر رہی ہے جو شرمناک بھی ہے، افسوسناک بھی اور تشویشناک بھی ہے ۔ وزیر اعظم نوازشریف کی حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد حکومت کو درپیش چیلنجز میں دہشت گردی کو سرفہرست مسئلہ قراردیا ۔ اس مقصد کے لیے کل جماعتی کانفرنس بھی منعقد کی گئی جس میں کم وبیش تمام بڑی سیاسی اورمذہبی جماعتوں کے قائدین نے اس اہم مسئلے پر غوروخوض کے بعد متفقہ لائحہ عمل طے کرتے ہوئے فریق ثانی کے ساتھ مذاکرات کو اولین آپشن کے طور پر لیا ۔

لیکن اے پی سی کے انعقاد کے بعد سے اب تک دہشت گردی کے واقعات تھمے ہیں نہ ان میں کمی واقع ہوئی ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ دہشت گردی کی وارداتوں میں کون لوگ یا تنظیمیں ملوث ہیں ؟طالبان ہیں ( کہ جن کے ساتھ مذاکرات مقصود ہیں )یاوہ عناصر جو اس سارے امن عمل کوسبوتاژ کرنے کے خواہاں اور ملک وقوم میں انارکی پیدا کرنے کے خواہشمند ہیں ، ان وارداتوں نے حکومت اور حکومت سے باہر امن پسند حلقوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ حکومت نے شاید اسی صورت حال کے تناظر میں '' تحفظ پاکستان آرڈی نینس 2013ء'' کے نام سے نیا آرڈی نینس متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے ۔

جس کا مقصد دہشت گردی پر قابو پانے اوردہشت گردوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قانون سازی کرنا ہے تاکہ اس قانون کی مدد سے اس چیلنج سے نبٹنے کی کوئی سبیل نکالی جا سکے جس نے ملک کے امن وسکون کو تہہ بالا کر رکھا ہے۔ وزیر اعظم نے ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کو مذکورہ آرڈی نینس کی پارلیمنٹ سے منظوری کے لیے تعاون اور مدد کی درخواست کی ہے ۔ وزیر اعظم نے سیاسی جماعتوں کی قیادت سے اس اہم قومی ایشو پر تعاون اور اعانت کی استدعا قومی اتفاق رائے کے حصول کے لیے کی ہے ۔کیونکہ یہ ایشو اپنی سنگینی کے اعتبار سے اس نوعیت کا حامل ہے کہ اس پر متفقہ لائحہ عمل اختیار کیاجانا چاہیے ۔

لیکن یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے وہ سیاستدان جوامریکا اور برطانیہ جیسے ممالک کو اپنا قبلہ تصور کرتے اور ان ممالک کے نظام ہائے سیاست کو اپنے لیے آئیڈیل قراردیتے ہیں اور عمل وہ اس کے برعکس کرتے ہیں ۔ قول وفعل کے اسی تضاد نے ان کے عوام میں اعتباریت اور ساکھ کو نقصان پہنچایا اور ملک کو پیچیدہ مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ کون نہیں جانتا کہ امریکا اور برطانیہ میں جہاں ایک طرف حکمران جماعت قومی ایشوز پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیتی اور الجھے مسائل کو مل جل کر حل کرنے کی سعی کرتی ہے وہاں اپوزیشن بھی بڑے ایشوز کو حکومت ِ وقت ہی کی سردردی پر محمول نہیں کرتی اورتمام معاملات اسی پر چھوڑ کر تنقید برائے تنقید کا مکروہ عمل اختیار نہیں کرتی بلکہ شیڈو کابینہ تشکیل دیتی اور متبادل حل بھی تجویز کرتی ہے۔

یوں برسر اقتدار جماعت اور اپوزیشن جو انتخابات سے قبل ایک دوسرے کے بخیے ادھیڑ نے میں تمام وسائل اور توانائیاں صرف کر دیتے ہیں جب انتخابی عمل ختم ہوجاتا اور منتخب حکومتوں کی تشکیل ہو جاتی ہے تواپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لے آتی ہیں ۔ پھر حکومت اور اپوزیشن دونوں اپنے اپنے دائرہ عمل میں رہتے ہوئے قومی خدمت کا خوشگوار فریضہ انجام دینے میں لگ جاتے ہیں ۔ جب کہ ہماری حالت یہ ہے کہ ہم انتخابات کے دوران مخالفین کو غدار، ملک دشمن ، سکیورٹی رسک ، چور، لٹیرے اور نہ جانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں اور جب الیکشن انعقاد پذیر ہوجاتے اور حکومتیں تشکیل پا جاتی ہیں تو سیاسی دشمنی ختم ہونے کے بجائے ذاتی دشمنی میں تبدیل ہو جاتی ہے اور اگلے الیکشن تک مخالفت برائے مخالفت کا بھونپو ایک دوسرے کے خلاف زیر اگلتا رہتا ہے ۔

دہشت گردی ، انتہا پسندی اور فرقہ واریت کا مسئلہ نیا نہیں ہے، برسوں سے موجود ہے ۔کیاآج کی اپوزیشن اور کل کی حکمران جماعت سمیت ملک کے دوسری بڑی جماعتیں اس مسئلے کی سنگینی سے واقف نہیں ہیں دہشت گرد یا انتہاپسند کون لوگ ہیں ان کا حدود اربعہ کیا ہے ۔

دہشت گرد تنظیموں کو کن طاقتوں یا قوتوں کی در پردہ سرپرستی حاصل ہے یقینا ہمارے سیاستدانوں کو اس کا علم ہے لیکن افسوسنا ک بات یہ ہے کہ انہوٓں نے قومی مسائل کو اپنا مسئلہ سمجھا ہی نہیں اور نہ قومی ایشوز کے حوالے سے کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے یہی وجہ ہے کہ سب کچھ جاننے کے باوجود مسئلہ ہے کہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا جا رہا ہے،حل ہونے ہی میں نہیں آرہا۔ اس سلسلے میں اگرچہ زیادہ تر ذمہ داری برسر اقتدار جماعت پر ہی عائد ہوتی ہے لیکن اقتدار سے باہر کی جماعتوں کو بھی بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔

بلا شبہ موجودہ قوانین اور نظام عدل دہشت گردی کے خاتمے میں ممدو معاون نہیں ہو پا رہا تفتیشی و تحقیقی معاملات میں بہت سے سقم موجود ہیں جن میں ترمیم واصلاح انتہائی ضروری قرار پا چکی ہے۔ چنانچہ وزیر اعظم نوازشریف نے بھی شاید اسی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے تحفظ پاکستان آرڈی نینس لانے کا فیصلہ کیا ہے اور تمام سیاسی جماعتوںکو اس کی منظوری کے لیے دست ِتعاون بڑھانے کی دعوت دی ہے ۔

اب بھی اگر ملک کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوں کی قیادت قومی ایشو ز اور مسائل کو حل کرنے میں سنجیدگی کامظاہرہ کریں اور ملک وقوم کو ان مشکلات سے نجات دلانے کے لیے ذمہ داری کا ثبوت دیں تو حالات کوبہتری کی طرف لانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی ۔ لیکن اگر ہمارے سیاسی رہنماوں نے ماضی کا شرمناک رویہ اور کھیل جاری رکھا اور اپنے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کوشاں رہے تو پاکستان کا تحفظ ایک خواب بن کر رہ جائے گا جس کا خمیازہ کسی ایک جماعت یا سیاستدان کونہیں پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔