بلوچستان میں امن کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا فیصلہ
آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے تمام انتظامات اور ایجنڈے کو حتمی شکل دیگی ہے۔
بلوچستان کابینہ نے صوبے میں امن و امان کی بہتری کیلئے آل پارٹیز کانفرنس دسمبر میں بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے تمام انتظامات اور ایجنڈے کو حتمی شکل دیگی۔صوبائی کابینہ کے سات گھنٹے کے طویل اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے علاوہ گھریلو تشدد کی روک تھام اور حفاظت بلوچستان میں دہشت گردی سے متاثرین کی بحالی اور بلوچستان فوڈ سکیورٹی سمیت آٹھ بلوں کی منظوری بھی دی گئی۔
اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ بلوچستان کی موجودہ جمہوری حکومت میں آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے احترام میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات دسمبر میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ گڈ گورننس کے قیام کیلئے بھرپور اقدامات کرتے ہوئے کابینہ نے صحت، تعلیم، مائننگ ، فشریز، لائیو اسٹاک اور زراعت کو بہتر بنانے کیلئے ہر محکمے کے وزیر کی سربراہی میں الگ الگ کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جو فوری طور پر ان محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پالیسیاں بنائے گی اور ان پالیسیوں کو کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
جن کوکابینہ کے اجلاس میں جائزہ لینے کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ کے اجلاس میں کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کیلئے کوئٹہ کے ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جو کوئٹہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لے گی اور کوئٹہ کی سڑکوں ، سیوریج اور پارکوں کو بہتر بنانے کے حوالے سے اپنی تجاویز مرتب کرے گی۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم رضا محمد بڑیچ کی سربراہی میں چار رکنی ایجوکیشن کمیٹی تشکیل دی گئی ایجوکیشن کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران شامل ہوں گے جو بلوچستان میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے تجاویز مرتب کریں گے۔
وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ یونیورسٹیوں کی ٹاسک فورس کے ساتھ ملاقات کرکے بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کریں گے۔ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں پابند ہیں کہ بلوچستان میں معدنی ذخائر کی تلاش کے حوالے سے صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیل و گیس کا پچاس فیصد صوبائی حکومتوں کی ملکیت ہے اور ہر معاہدے میں صوبائی حکومت کی موجودگی لازمی ہے OGDC اور PPL سمیت تمام مقامی کمپنیاں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے معاہدے کی پاسداری کریں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ تیل و گیس کے بعض معاہدوں پر صوبائی کابینہ کے تحفظات ہیں جن کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے گو کہ کابینہ کی تشکیل میں کچھ زیادہ وقت لگا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی ہمیں انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگی بنیادوں پر صوبائی و وفاقی ترقیاتی بجٹ پر عملدرآمد کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے عظیم مقاصد ہیں ٹرانسفر و پوسٹنگ کے بجائے گڈ گورننس کو ترجیح دی جائے گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کابینہ کے یہ فیصلے جن میں امن و امان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے، بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ وقت پر کرانے، پوسٹنگ و ٹرانسفر کے بجائے گڈ گورننس کو ترجیح دینے،تعلیم وصحت سمیت دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے جیسے فیصلے خوش آئند ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت ان فیصلوں پر کس حد تک عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے گذشتہ دنوں کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انھوں نے گورنر محمد خان اچکزئی سے ملاقات کے علاوہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں خصوصی شرکت کی۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے آواران کے زلزلہ زدگان کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آٹھ کروڑ روپے کے عطیے کا چیک بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے حوالے کیا۔ دوسری جانب بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں اغواء برائے تاوان اور لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ بدستور گھمبیر صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر عبدالمناف ترین کے اغواء کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور کاسی قبیلے کے سربراہ نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کو بھی دن دیہاڑے مصروف شاہراہ سے اغواء کرلیا گیا جس کے بعد اے این پی کے کارکنوں نے بھرپور احتجاج کیا اور اس اغواء کے خلاف نہ صرف کوئٹہ شہر کو بند کرادیا گیا بلکہ اگلے دن اے این پی کی اپیل پر کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی گئیں ۔ نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کے اغواء کی تمام سیاسی جماعتوں نے شدید مذمت کی۔ اے این پی کے ذرائع کے مطابق نواب ارباب ظاہر کی بازیابی کیلئے آئندہ چند دنوں میں گرینڈ پشتون بلوچ جرگہ بلائے جانے کا بھی امکان ہے۔
اس سلسلے میں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی سربراہی میں پارلیمانی لیڈروں پر مشتمل چار رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے تمام انتظامات اور ایجنڈے کو حتمی شکل دیگی۔صوبائی کابینہ کے سات گھنٹے کے طویل اجلاس میں آل پارٹیز کانفرنس بلانے کے علاوہ گھریلو تشدد کی روک تھام اور حفاظت بلوچستان میں دہشت گردی سے متاثرین کی بحالی اور بلوچستان فوڈ سکیورٹی سمیت آٹھ بلوں کی منظوری بھی دی گئی۔
اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے بھی فیصلہ کیا گیا اور کہا گیا کہ بلوچستان کی موجودہ جمہوری حکومت میں آئین و قانون کی پاسداری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے فیصلوں کے احترام میں صوبے میں بلدیاتی انتخابات دسمبر میں کرانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ، اس کے علاوہ گڈ گورننس کے قیام کیلئے بھرپور اقدامات کرتے ہوئے کابینہ نے صحت، تعلیم، مائننگ ، فشریز، لائیو اسٹاک اور زراعت کو بہتر بنانے کیلئے ہر محکمے کے وزیر کی سربراہی میں الگ الگ کمیٹیاں بھی تشکیل دیں جو فوری طور پر ان محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کیلئے پالیسیاں بنائے گی اور ان پالیسیوں کو کابینہ میں پیش کیا جائے گا۔
جن کوکابینہ کے اجلاس میں جائزہ لینے کے بعد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ کابینہ کے اجلاس میں کوئٹہ کو خوبصورت بنانے کیلئے کوئٹہ کے ممبران اسمبلی پر مشتمل ایک کمیٹی بھی بنائی گئی جو کوئٹہ میں ہونے والے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لے گی اور کوئٹہ کی سڑکوں ، سیوریج اور پارکوں کو بہتر بنانے کے حوالے سے اپنی تجاویز مرتب کرے گی۔ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم رضا محمد بڑیچ کی سربراہی میں چار رکنی ایجوکیشن کمیٹی تشکیل دی گئی ایجوکیشن کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران شامل ہوں گے جو بلوچستان میں محکمہ تعلیم کی کارکردگی بہتر بنانے کے حوالے سے تجاویز مرتب کریں گے۔
وزیراعلیٰ کے مشیر برائے تعلیم کو یہ ذمہ داری بھی دی گئی کہ یونیورسٹیوں کی ٹاسک فورس کے ساتھ ملاقات کرکے بلوچستان کی یونیورسٹیوں کو درپیش مسائل سے آگاہ کریں گے۔ کابینہ کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیل و گیس تلاش کرنے والی کمپنیاں پابند ہیں کہ بلوچستان میں معدنی ذخائر کی تلاش کے حوالے سے صوبائی حکومت کو اعتماد میں لیں کیونکہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد تیل و گیس کا پچاس فیصد صوبائی حکومتوں کی ملکیت ہے اور ہر معاہدے میں صوبائی حکومت کی موجودگی لازمی ہے OGDC اور PPL سمیت تمام مقامی کمپنیاں آئین کی پاسداری کرتے ہوئے معاہدے کی پاسداری کریں۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ تیل و گیس کے بعض معاہدوں پر صوبائی کابینہ کے تحفظات ہیں جن کا از سر نو جائزہ لیا جائے گا۔
اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے گو کہ کابینہ کی تشکیل میں کچھ زیادہ وقت لگا لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی ہمیں انتہائی نظم و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنگی بنیادوں پر صوبائی و وفاقی ترقیاتی بجٹ پر عملدرآمد کرنا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمارے عظیم مقاصد ہیں ٹرانسفر و پوسٹنگ کے بجائے گڈ گورننس کو ترجیح دی جائے گی۔سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کابینہ کے یہ فیصلے جن میں امن و امان کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے، بلدیاتی انتخابات سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں مقررہ وقت پر کرانے، پوسٹنگ و ٹرانسفر کے بجائے گڈ گورننس کو ترجیح دینے،تعلیم وصحت سمیت دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے جیسے فیصلے خوش آئند ہیں۔ ان حلقوں کے مطابق دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ مخلوط صوبائی حکومت ان فیصلوں پر کس حد تک عملدرآمد کو یقینی بناتی ہے۔
وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک نے گذشتہ دنوں کوئٹہ کا دورہ کیا جہاں انھوں نے گورنر محمد خان اچکزئی سے ملاقات کے علاوہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں خصوصی شرکت کی۔ بعد ازاں وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک کے ہمراہ پریس کانفرنس کے دوران انھوں نے آواران کے زلزلہ زدگان کیلئے خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آٹھ کروڑ روپے کے عطیے کا چیک بھی وزیراعلیٰ بلوچستان کے حوالے کیا۔ دوسری جانب بلوچستان خصوصاً کوئٹہ میں اغواء برائے تاوان اور لاء اینڈ آرڈر کا معاملہ بدستور گھمبیر صورت اختیار کئے ہوئے ہے۔
ڈاکٹر عبدالمناف ترین کے اغواء کے بعد عوامی نیشنل پارٹی کے سابق صوبائی صدر اور کاسی قبیلے کے سربراہ نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کو بھی دن دیہاڑے مصروف شاہراہ سے اغواء کرلیا گیا جس کے بعد اے این پی کے کارکنوں نے بھرپور احتجاج کیا اور اس اغواء کے خلاف نہ صرف کوئٹہ شہر کو بند کرادیا گیا بلکہ اگلے دن اے این پی کی اپیل پر کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی اور احتجاجی مظاہرے اور ریلیاں منعقد کی گئیں ۔ نواب ارباب عبدالظاہر کاسی کے اغواء کی تمام سیاسی جماعتوں نے شدید مذمت کی۔ اے این پی کے ذرائع کے مطابق نواب ارباب ظاہر کی بازیابی کیلئے آئندہ چند دنوں میں گرینڈ پشتون بلوچ جرگہ بلائے جانے کا بھی امکان ہے۔