عدالت کا ایف آئی اے کو بی آر ٹی منصوبے کی تحقیقات کا حکم
پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو ویژن کے بغیر فیس سیونگ کے لیے شروع کیا، عدالت
ہائی کورٹ نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو 45 دن کے اندر بی آر ٹی منصوبے کی انکوئری کا حکم دے دیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ پر سوالات اٹھا دیئے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو 45 دن کے اندر بی آر ٹی کی انکوئری کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو ویژن کے بغیر فیس سیونگ کے لیے شروع کیا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا اور پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا، منصوبے نے 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی اعلانات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھ گئی اور فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو بہت زیادہ ہے، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔
فیصلے میں استفسار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹرانس پشاور کے سی ای او درانی کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا؟ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دیا گیا، منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3 پراجیکٹ ڈائریکٹرز کو ہٹایا گیا، منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ اسٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں، اے سی ایس اور وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری کو بھی ادائیگی کی گئی، کمزورمعیشت رکھنے والا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس کی تعداد 65 ہے جب کہ پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں، 155 بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جنہیں نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے، عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جارہی ہیں؟ ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا۔
عدالت نے مزید پوچھا کہ پرویز خٹک، ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا؟ اپنے حصے لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟
ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائی کورٹ نے بی آر ٹی پراجیکٹ پر سوالات اٹھا دیئے، چیف جسٹس پشاور ہائیکورٹ جسٹس وقار احمد سیٹھ نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے ایف آئی اے کو 45 دن کے اندر بی آر ٹی کی انکوئری کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے منصوبے کو ویژن کے بغیر فیس سیونگ کے لیے شروع کیا، ناقص منصوبہ بندی کے باعث منصوبے کی لاگت میں 35 فیصد کا اضافہ ہوا اور پشاور کے رہائشوں کے لیے تکلیف کا باعث بنا، منصوبے نے 6 ماہ کی مدت میں مکمل ہونا تھا لیکن سیاسی اعلانات کے باعث تاخیر کا شکار ہوا اور لاگت بھی بڑھ گئی اور فی کلومیٹر لاگت 2 ارب 42 کروڑ، 70 لاکھ روپے ہے جو بہت زیادہ ہے، کیا منصوبے کے لیے اتنا بڑھا قرضہ لینے کی ضرورت تھی؟ بی آر ٹی کے قرضہ سے صوبے کی معاشی خوشحالی بھی ممکن تھی۔
فیصلے میں استفسار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ٹرانس پشاور کے سی ای او درانی کو عہدہ سے کیوں ہٹایا گیا؟ مقبول کالسنز پنجاب میں بلیک لسٹ تھی، اس کے باوجود اسے بی آر ٹی کا ٹھیکہ دیا گیا، منصوبے میں بد انتظامی کے باعث 3 پراجیکٹ ڈائریکٹرز کو ہٹایا گیا، منصوبے کے پی سی ون میں غیر متعلقہ اسٹاف کے لیے بھی پرکشش تنخواہیں رکھی گئیں، اے سی ایس اور وزیراعلی کے پرنسپل سیکریٹری کو بھی ادائیگی کی گئی، کمزورمعیشت رکھنے والا صوبہ اس کا متحمل نہیں تھا۔
عدالت کا کہنا ہے کہ لاہور میں میٹرو بس کی تعداد 65 ہے جب کہ پشاور کے لیے 219 بسیں استعمال کی جانی ہیں، 155 بسیں فیڈر روٹس پر چلیں گی جنہیں نجی ٹرانسپورٹرز چلائیں گے، عوام کے پیسوں پر چلنے والی بسیں نجی ٹرانسپورٹرز کو کیوں دی جارہی ہیں؟ ایسا لگتا ہے منصوبے کے لیے نااہل کنسلٹنٹس کو رکھا گیا۔
عدالت نے مزید پوچھا کہ پرویز خٹک، ڈی جی پی ڈی اے وٹو، اعظم خان اور ڈی جی پی ڈی اے اسرار، شہاب علی شاہ اور وزیر ٹرانسپورٹ شاہ محمد کے درمیان کیا تعلق تھا؟ اپنے حصے لینے کے لیے ان کا کس طرح تعلق بنا؟