دوحہ میں افغان مفاہمتی عمل دوبارہ شروع

مذاکرات کی منسوخی کا زیادہ نقصان خود امریکا کو ہو گا۔

مذاکرات کی منسوخی کا زیادہ نقصان خود امریکا کو ہو گا۔ فوٹو:فائل

امریکی نمایندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد قطر کے دارالحکومت دوحہ پہنچ گئے ہیں جہاں وہ افغان طالبان سے دوبارہ مذاکرات کریں گے۔ برطانوی خبررساں ادارے رائٹر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ زلمے خلیل زاد طالبان مذاکرات کاروں سے افغانستان میں جنگ بندی اور وہاں جاری تنازعے کے حل کے لیے اقدامات پر دوبارہ گفتگو کریں گے۔

اس سے قبل خلیل زاد نے افغان دارالحکومت کابل میں طالبان اور افغان حکام سے سیاسی سمجھوتے پر مذاکرات کے حوالے سے گفتگو کی جس کے بعد وہ دوحہ روانہ ہو گئے۔ یہ پیش رفت امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے28 نومبر کے اعلان کے چند دن بعد ہی سامنے آئی ہے۔

یاد رہے کہ ستمبر میں امریکی صدر ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ ایک سال طویل مذاکرات کو معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں لیکن پھر چند دن پہلے اعلان کیا کہ مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔


افغان میڈیا کے مطابق خلیل زاد طالبان کے ساتھ مذاکرات کی بحالی کی بات چیت کرنے آئے ہیں۔ دریں اثناء افغان صدر کے دفتر سے بھی اعلان کیا گیا ہے کہ جنگ کے پرامن حل کی تلاش کی کوشش کی جارہی ہے۔ افغان صدارتی ترجمان صدیق صدیقی نے کہا ہے دونوں ممالک نے امن کے لیے مشترکہ روڈ میپ پر بات چیت کی۔ بیان میں جنگ کے خاتمے کی مشترکہ کوششوں کی کامیابی کی امید ظاہر کی گئی ہے۔

ادھر امریکی محکمہ خارجہ کی ڈپٹی اسسٹنٹ سیکریٹری نینسی جیکسن نے بھی کابل کا دورہ کیا اور افغان چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے ملاقات کی۔ علاوہ ازیں حقانی نیٹ ورک کے رہنما انس حقانی نے اپنے علیحدہ بیان میں کہا کہ وہ امن عمل میں سہولت کاری کے لیے محنت کریں گے اور افغان قوم میں امن لانے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

تقریباً ایک سال تک جاری رہنے والے مذاکرات میں افغان عمل اس وقت کھٹائی میں پڑ گیا جب رواں سال ستمبر میں کابل پر طالبان حملے میں ایک امریکی فوجی سمیت 12 افراد ہلاک ہو گئے تھے جس پر صدر ٹرمپ نے اپنی ٹویٹ کے ذریعے مذاکرات کی منسوخی کا اعلان کر دیا تھا، طالبان امریکی صدر سے کیپ ڈیوڈ میں ملاقات کرنے والے تھے مگر یہ ملاقات بھی منسوخ ہو گئی۔

صدر ٹرمپ کے جواب میں طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا وہ امریکی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ باضابطہ مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف تھے کہ مذاکرات منسوخ ہو گئے مگر مذاکرات کی منسوخی کا زیادہ نقصان خود امریکا کو ہو گا۔ بہرحال اب پھر لگتا ہے کہ معاملات بہتر ہورہے ہیں۔
Load Next Story