پاکستان ایک مسلم ریاست ہے
پاکستانی آئین کے مطابق کوئی قانون خلاف ِ اسلام نہیں ہوسکتا ہے۔
پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ وہ بھی اس لیے کہ پاکستان کے آئین کی بنیاد اسلامی نظام پر ہے۔ پاکستانی آئین کے مطابق کوئی قانون خلاف ِ اسلام نہیں ہوسکتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ کاغذوں اورکتابوں تک محدود ہے، جب کہ نہ معاشرہ ، نہ ادارہ اسلامی نظام کی عکاسی کرتا ہے نہ کوئی سزا نہ کوئی جزا اسلامی ہے۔
اس لیے بہتر ہے، اسے اسلامی ریاست کے بجائے مسلم ریاست کہا جائے تو بے جانہ ہوگا۔ ہمیں پہلے اپنے معاشرہ کو مسلم معاشرہ بنانا ہوگا۔ اپنے اداروں میں مسلم رواداری کو رائج کرنا ہو گا۔ ورنہ اس لفظ اسلامی جو انتہائی مقدس اور متبرک ہے اس کی غلط عکاسی دنیا کے سامنے جائے گی جس میں ہمارا وہ دین جو دراصل اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا دین ہے، اس پر حرف آتا ہے، اسی وجہ سے دنیا کہتی ہے کہ یہ دہشتگرد مسلمان ہیں۔
کیونکہ دنیا مسلمانوں کے عمل کو اسلام سمجھتی ہے، جب کہ مسلمان گناہ کرتا ہے، شراب کا نشہ کرتا ہے ، رشوت لیتا ہے، عدل وانصاف سے کام نہیں لیتا۔ چھوٹے چھوٹے بچوں پر تشدد کرتا ہے، انھیں بے عزت کرتا ہے۔ عورتیں بے پردہ لانا ، مرد ناجائز ذرایع سے آمدنی میں اضافہ کرتا ہے، اگرکوئی خوش قسمتی سے کونسلر ، مئیر ، ایم پی اے ، ایم این اے یا سینیٹر بن جائے یا بیوروکریٹ بن جائے وہ اختیارات کے استعمال میں عدل نہیں کرتا بلکہ تجاوز کرتا ہے۔
بد عنوانی کرتا ہے، سرکاری بجٹ کھاتا ہے۔ اسے عوام الناس کی کوئی فکر نہیں ہوتی۔ اسے وطن کی ترقی کا احساس نہیں ہوتا۔ ایسے عمل کو پوری دنیا اسلامی کہتی ہے کیونکہ یہ سب مسلمان کرتا ہے۔ ہم اس وجہ سے دنیا میں قابل نفرت ہو گئے۔ اب اس کا حل کیا ہے؟ سب سے پہلے پاکستان اور تمام دوسرے اسلامی ممالک اپنا نام اسلامی کے بجائے مسلم ریاست رکھیں کیونکہ کم و بیش یہی صورتحال ہمارے ملکوں کی ہے۔ یہ حقیقت تسلیم کر لیں اسلامی نظام حکومت چلانے کے وہ ہمیں درکار ہے جو خوف خدا رکھتے ہیں۔
ان عوامل میں عدل و انصاف ہو جو انسانیت کا احترام کرتے ہوں جو صاحبان علم وعمل ہوں۔ جناب طالوت کی قوم نے جب اللہ سے دعا کی کہ ہمیں اپنی طرف سے حاکم عطا کر تو ان کو ان کا حاکم بنایا، جو غریب بھی تھے اور صاحب علم بھی ان میں شجاعت بھی تھی۔
ہمیں بھی اسلامی حکومت کے لیے ایسے متقی ، خوف خدا اور انسان دوست۔ مسلمان کو بھائی سمجھنے والے چاہیے ایسا حاکم ہو جو اللہ کے محکم رسول اللہ کے حکم پر ہر وقت اطاعت کرے جس میں عدل کو سمجھنے اور اس پر عمل کر نے کی صلاحیت ہو جو بھی مسلمانوں کا اچھا حاکم بننا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے وہ خطوط پڑھے جو انھوں نے اپنے زمانے میں ایک حاکم جس کو مصر کا والی مقرر کیا جن کا نام مالک اشتر تھا اسے بتایا حکمرانی کیسے کرنی ہے عوام الناس سے رشتہ کیسے رکھنا ہے۔ قاضی القضاء چیف جسٹس کیسا مقرر کرنا ہے، فوج کا سالار کیسا ہو، نظام صحت و تعمیر میں کن باتوں کا خیال رکھنا ہے۔
بیت المال کوکیسے استعمال کرنا ہے۔ جب کوئی حاکم مقررکرو تو دیکھو وہ تاجر نہ ہو۔ اس لیے جب وہ اقتدار میں آئے گا تو تجارتی ذہن سے کاروبار حکومت چلائے گا تو معاشرہ میں بد عنوانی اورکرپشن کا سبب ہو گا۔ حاکم ایسا ہو جو سب میں محبت ، یگانگت اور بھائی چارہ پیش کر ے کیونکہ ہمارے معاشرہ میں مسلم بھی ہوںگے، غیر مسلم بھی۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب چوتھی خلافت سنبھالی وہ بھی لوگوں کے اسرار پر لوگوں نے خود آ کر منت کی تو ان کے خلیفہ بنتے ہیں۔
ان کے خلاف شورش بڑھتی گئی کیونکہ وہ جانتے تھے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ صرف اسلام پر عمل کروائیں گے، اس لیے انھیں ہٹا دیا جائے۔ خارجین سے جنگ حمل صفین اور نہرواں ہوئی۔ پھر بھی آج کی یو این او نے جب دنیا کے لوگوں کی نظام حکومت کا جائزہ لیا تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا دور سب سے بہترین دور کہلایا۔ جب یو این او نے کتابوں پر ریسرچ کی تو قرآن کو افضل اور بہترین کتاب قرار دیا۔ اسلامی نظام چلانے کے لیے حضرت علی کرم اللہ وجہہ جیسے ولی کی ضرورت ہے۔
ہمارے جمہوری ملک میں انتخابات کے ذریعے حکومت وجود میں آتی ہے، اس لیے یہ ذمے داری الیکشن کمیشن پر عائد ہوتی ہے کہ وہ امیدوار کی جانچ پڑتال، چھان بین پورے طریقہ سے کرے۔ ان کے انٹرویوز کرے، ان کے خیالات سے ملک اور قوم کی خدمت کے جذبے کا اندازہ کر ے، اس کا ماضی صاف شفاف ہو۔ قول و فعل میں تضاد نہ ہو۔ اس کی علمی اور مالی حیثیت کا حساب ریکارڈ میں لائے اس پرکوئی الزام سچا یا جھوٹا نہ ہو۔ جب تک وہ ہر طرح سے کلیئر نہ ہو اسے امیدوار نہ بنائے۔ اس کام میں ایران کے اس نظام سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ جس میں وہ لوگوں کو امید وار ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ ہماری حکومت مدنی ریاست کو آئیدیل بنائے ہوئے ہے۔
یہ ایک مثبت سوچ ہے مگر اس پر عمل کرنے کے لیے بڑے حوصلہ اور تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ مدنی حکومت میں کسی ملزم کو طویل مدت کے لیے قید نہیں کیا جا سکتا اور ہر جرم کو ثابت کرنے کے لیے چشم دید گواہ ضروری ہوتے ہیں اور وہ بھی ایسے جن کو سچا مانا جاتا ہو۔ اسلام میں قتل کے الزام پر دو چشم دیدگواہ جو قتل کے عینی شاہد ہوں اور زنا کے چارچشم دیدگواہ۔ اگرگواہ نہ ملیں تو آج کے زمانے جدید طریقہ سے فرانزک رپورٹ ہوکوئی ایسا ٹھوس ثبوت ہو، جس سے الزام جرم ثابت ہو، ورنہ شک کا فائدہ اور عدم ثبوت کا فائدہ ملزم کو دیا جاتا ہے۔
عدالتوں کے نظام میں شفافیت اورغیرجانبداری ضروری ہے یہ بڑے اطمینان کی بات ہے کہ ہماری عدالت عظمیٰ میں ایسے ججزکی کمی نہیں ہے، جو خوف خدا رکھتے ہیں اور فیصلہ کرتے وقت عدل کا خیال رکھتے ہیں۔کاش ! ہمارے تمام سیاستدان با کردار ہو جائیں۔ اللہ سے توبہ کریں، جو غلطیاں کی ہیں، ان کا ازالہ کریں جو مال حرام کمایا ہے، وہ خزانے میں جمع کرا دیں۔ امید ہے عوام بھی معاف کریں گے اور اللہ بھی۔ ہمارے سامنے ایران کے سابق شہنشاہ رضا شاہ ، عراق کے سابق صدر صدام حسین ، لیبیا کے کرنل قذانی، مصر کے حسنی مبارک، بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن کی مثالیں موجود ہیں۔
پاکستان میں میاں نواز شریف ان کے بھائی شہباز شریف، بیٹی مریم نواز، ان کے رفقاء اور آصف زرداری۔ ان کی ہمشیرہ فریال تالپور، اور پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کے خلاف جو تفشیش ہو رہی ہے وہ بد عنوانی، مالی لوٹ مار ملک کو بدترین صورتحال پر لا نے کی ذمے داری ان ہی کی ہے ۔ اسی طرح موجودہ حکومت میں بھی بہت سے نام ہیں، ان سب پر الزام ہے۔ سب کے ساتھ صاف اور شفاف طریقہ سے ٹرائیل ہو۔ ان سے لوٹی ہوئی رقم واپس ہو اگر الزام ثابت ہو جائے تو کم سے کم وہ اور ان کے اہل خانہ کسی طور پر سیاست کا حصہ نہ بن سکیں۔