الزامی جواب تیکنیک

معدودے چند کو چھوڑکر اس شعبے میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جو سیاست برائے خدمت کی جگہ سیاہ ست برائے دولت کے قائل ہیں۔


خرم علی راؤ December 06, 2019

HELSINKI: بحث ومباحثہ زندگی کا ایک ایسا جزو ہے جس سے کسی کو مفر نہیں۔ کم یا زیادہ سہی لیکن ہر کوئی بحث ومباحثہ ضرور کیا کرتا ہے۔ بعض شعبہ حیات ایسے ہیں ، جن میں بحث برائے بحث اور کبھی کبھی سر پھٹول کی حد تک پہنچتی ہوئی تکرار کے بغیر کام ہی نہیں بنتا اور ان شعبوں میں سب سے نمایاں شعبہ سیاست ہے جو فی زمانہ وطن عزیز میں سیاست سے زیادہ سیاہ ست بنتا جا رہا ہے بلکہ اگر بن ہی گیا ہے کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

معدودے چند کو چھوڑ کر اس شعبے میں اکثریت ایسے ہی لوگوں کی ہے جو سیاست برائے خدمت کی جگہ سیاہ ست برائے دولت کے قائل ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ کسی بھی مملکت یا ریاست کا سب سے اہم شعبہ ہونے کی وجہ سے اپنے اثرات دیگر شعبہ ہائے حیات پر بھی ڈالتا ہے اور ہر سطح پر مال ومنال کی جستجو کے انہماک کے ساتھ ساتھ بازارِ مباحثہ جات وتکرار بھی گرم کرتا رہتا ہے۔

آپ نے دیکھا اور محسوس کیا ہوگا کہ وطن عزیز میں الزامی جواب کی ترکیب یا تیکنیک گفت و شنید اور بحث و مباحثے میں استعمال ہونے والی ایک مقبول عام تیکنیک اور طریقہ ہے لیکن سنجیدہ اور ذی علم افراد اسے برا جانتے ہیں اور کسی بھی نوعیت اور سطح کے مباحثوں میں مخالف کو زچ کرنے کے لیے اسے بالکل اس آخری حالت میں استعمال کیا جاتا ہے ، جب کوئی اور چارہ کار باقی نہ رہے۔

الزامی جواب کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیے جیسے اگر میں چور ہوں توکیا ہوا ؟ تم بھی تو چور ہو۔ اگر ہم پر بد عنوانی کا الزام ہے تو تم کون سا دودھ سے دھلے ہو ، تم نے بھی تو بد عنوانی کے فلاں فلاں کار ہائے نمایاں کیے ہوئے ہیں ، میں نے اگر جھوٹ بولا ہے تو تم بھی کون سا ہمیشہ سچ بولتے ہو۔

چلیں عوامی سطح پرگلیوں ، محلوں ، تھڑوں ، ہوٹلوں پر یا حجام کی دکان پر ہونے والے عوامی ٹائپ مباحثوں اور تکراروں میں تو یہ چیز یعنی الزامی جواب کی تیکنیک وقتی طور پر مخالف کو خاموش کرانے کے لیے کام آجاتی ہے اور درحقیقت یہ ہے بھی اسی سطح پر استعمال کی جانے والی تیکنیک لیکن آدمی اس وقت دم بخود اور حیران رہ جاتا ہے جب علمی اور دانشوارانہ سطح پر یا ٹی وی چینلز پر ہونے والے سیاسی مباحثوں میں اچھے بھلے معزز اور پڑھے لکھے دکھنے والے ، سرد وگرم چشیدہ اور فن سیاست کے گرگ باراں دیدہ بھی بڑی بے تکلفی سے اسی الزامی جواب کی تیکنیک کو ضرورت سے زیادہ استعمال کرتے نظر آتے ہیں اور کسی چھبتے ہوئے تنقیدی سوال کا کئی منطقی جواب دینے کی بجائے آسان راستہ استعمال کرتے ہوئے فورا الزامی جواب لگا دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ جب آپ کسی کو الزامی جواب دے رہے ہوتے ہیں تو بلواسطہ طور پر خود کو بھی غلط کار تسلیم کر رہے ہوتے ہیں۔

اسی طرح ایک اور مقبول عام جملہ ہے جو بہر حال فورمز پر تو نہیں لیکن ذاتی اور آف دی ریکارڈ گفتگو میں اور عوامی سطح پر بھی بہت زیادہ استعمال کیا جاتا ہے اور وہ یہ کہ فلاں اگر کھاتا ہے تو کیا لگاتا بھی تو ہے ! اب بتائیے یہ کوئی کہنے والی بات ہے؟ جو کہ ہر شرعی ، اخلاقی ، قانونی پیمانے سے ایک غلط اور بیہودہ بات سے کم نہیں لیکن ہمارا معیار گفتگو اتنا زوال پذیر ہوگیا ہے کہ ہم اس بے ڈھنگی بات کو سینہ تان کر اپنے لیڈر ، قائد ، رہبر کی مدافعت میں استعمال کرنے سے ذرا نہیں چوکتے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی بے تکی بات اور دلیل ہے کہ جیسے کوئی مہمان ، کسی میزبان کے گھر آکر دعوت اڑائے،کھائے پیئے اور جاتے ہوئے زور دار تھپڑ مار کر چلا جائے اور میزبان کہے کہ کھاتا ہے تو لگاتا بھی تو ہے۔

گفت و شنید ، ٹیبل ٹاک اور بات چیت سے معاملے کا حل نکالنا ایک باقاعدہ فن ، علم اور سائنس ہے اور بہت سے ممالک میں باقاعدہ ٹیبل ٹاک کی تعلیم بھی دی جاتی ہے اور اسے ایک مضمون کی طرح سے پڑھایا جاتا ہے اور دنیا بھر میں اس کے ماہرین بڑی بڑی نیشنل اورملٹی نیشنل کمپنیز، سیاسی جماعتوں میں اور مختلف ریاستی شعبوں میں بھاری مشاہروں پر تعینات کیے جاتے ہیں۔

جن کا کام بنیادی طور پرگفت وشنید اور ٹیبل ٹاک کے ذریعے سے پیچیدہ معاملات اور تنازعات کو اپنے ملک ، ادارے اور اپنی جماعت کے حق میں اور فائدے میں لانے کی شکل دینا ہوتا ہے اور اس قسم کی طرزگفتگو کے ماہرین اور مشیر الزامی جواب کو دورانِ گفتگو استعمال کرنا ، ایک خامی اور ایک غلطی تصورکرتے اور اسے نا پسندیدہ سمجھتے ہیں لیکن ہمارے یہاں اسے ایک خوبی سمجھا جاتا ہے اور خاص طور پر اس سیاسی کارکن کو پارٹی کا ایک اثاثہ سمجھا جاتا ہے جو الزامی جواب لگانے کا ماہر ہوتا ہے۔

جو جتنا بڑا منہ پھاڑکر مخالف کوگندا کر سکے اور پھرتی سے وقت ضایع کیے بغیر الزامی جواب لگا سکے وہ اتنا ہی قیمتی کارکن ہے اور اسی ہی بالعموم مختلف فورمز پر اپنی جماعت یا تحریک یا پارٹی کی نمایندگی کے لیے الا ماشا اللہ کم و بیش تمام سیاسی پارٹیوں میں ترجیح دی جاتی ہے اور پھر اس کا بدیہی نتیجہ یہ ہے کہ عوام کا ذوق بھی بکھر کر رہ گیا ہے اور وہ بھی اسی طرح کی بے معنی تکراری بات سے سنجیدہ مباحثوں کی نسبت زیادہ محظوظ ہوتے ہیں اور خوشی سے ایسے مباحثے اور پروگرام قلقاریاں مار کر دیکھتے ہیں جن میں بحث و تکرار الزام در الزام سے ہوتی ہوئی گالم گلوچ اور ہاتھا پائی تک آجاتی ہے۔

اگر کوئی براہ راست دیکھنے سے رہ جائے تو اسے باقاعدہ اطلاع دی جاتی اور مل جاتی ہے کہ فلاں پروگرام میں فلاں فلاں پارٹیوں کے فلاں فلاں لوگوں میں زبردست بحث و تکرار اور لڑائی ہوئی ہے۔ تم نے دیکھا کیا ؟ چناچہ پھر وہ بھی یہ پروگرام بڑے شوق سے یو ٹیوب وغیرہ پر دیکھتا ہے اور سر دھنتا ہے۔ اصل میں یہ سب اجتماعی معاملات ہیں۔ معاشرے کے کچھ طبقات اپنی صفات اور صلاحیتوں کی وجہ سے اوپرکے درجے کے لوگ ہوتے ہیں جوکہ بہر حال قلیل تعداد میں ہوا کرتے ہیں لیکن وہ اکثریت کی تربیت کے بلواسطہ یا بلا واسطہ ذمے دار ہوا کرتے ہیں۔

ان بالا طبقات میں ، سیاست دان ، علماء ، دانشور ، اساتذہ ، مخلتف شعبوں کی مشہور شخصیات وغیرہ شامل ہیں کہ جنھیں لوگ اپنا رول ماڈل اور آئیڈیل مانتے ہیں اور یہ ان طبقات کی ایک اخلاقی ذمے داری بنتی ہے کہ قوم کی اجتماعی تہذیب و تمدن کو تشکیل دینے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں اور یہ قدرتی بات ہے اور انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ جیسے اپنے بڑوں کو کرتے دیکھتا ہے خود بھی ویسا ہی کرتا ہے۔ یہ شخصیات جنھیں علم ، صلاحیتوں ، بلند مقامات ، شہرت اور قیادت کی خوبیاں اور نعمتیں ملتی ہیں تو ان کا بھی فرض بنتا ہے کہ ان صلاحیتوں کے استعمال اور اثر سے ان اشخاص میں مثبت اقدار کو اجاگر کرنے کی کوشش کریں جو انھیں چاہتے ہیں ، ان سے محبت کرتے ہیں ، انھیں مانتے ہیں ان سے کسی بھی شعبے میں عقیدت اور لگاؤ کا تعلق رکھتے ہیں ، ناکہ اپنے عمل سے ان میں منفی خصوصیات کی ترویج کا باعث بنیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں