عزیز میاں قوال کومداحوں سے بچھڑے19 برس بیت گئے
فن قوالی کی اصل روح کودنیا کے سامنے جن قوالوں نے پیش کیا ان میں عزیزمیاں قوال کا نام نمایاں ہے
اپنی قوالیوں کے ذریعے پاکستان کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے والے شہرہ آفاق قوال عزیز میاں کو ہم سے بچھڑے 19 برس بیت گئے۔
فن قوالی کی اصل روح کو دنیا کے سامنے جن قوالوں نے پیش کیا ان میں عزیز میاں قوال کا نام نمایاں ہے۔ عزیز میاں قوال 17 اپریل 1942 کو نئی دلی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعداہل خانہ کے ہمراہ لاہور میں سکونت اختیار کی۔ معروف قوال استاد عبدالوحید سے قوالی کے فن سیکھنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کیا۔ ان کا نام عبدالعزیز تھا جب کہ ''میاں'' ان کا تکیہ کلام تھا جس کی وجہ سے وہ عزیز میاں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی گائی ہوئی قوالیوں میں ''میں شرابی''، ''تیری صورت'' اور ''اللہ ہی جانے کون بشر ہے'' کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مقبول عام ہیں۔
عزیز میاں نے وطن عزیزسمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پیش کرنے پر دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ اپنی بیشتر قوالیاں خود لکھتے تھے جب کہ انہوں نے علامہ محمد اقبال اور قتیل شفائی کا کلام بھی انتہائی مہارت سے گایا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1989 میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
2000 میں عزیز میاں قوال کویرقان کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا، ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے قوالی کو ترک نہیں کیا۔ اسی برس وہ حکومت ایران کی دعوت پرتہران گئے جہا ں 6 دسمبر کو58 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔
فن قوالی کی اصل روح کو دنیا کے سامنے جن قوالوں نے پیش کیا ان میں عزیز میاں قوال کا نام نمایاں ہے۔ عزیز میاں قوال 17 اپریل 1942 کو نئی دلی میں پیدا ہوئے، قیام پاکستان کے بعداہل خانہ کے ہمراہ لاہور میں سکونت اختیار کی۔ معروف قوال استاد عبدالوحید سے قوالی کے فن سیکھنے کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے عربی، فارسی اور اردو میں ایم اے کیا۔ ان کا نام عبدالعزیز تھا جب کہ ''میاں'' ان کا تکیہ کلام تھا جس کی وجہ سے وہ عزیز میاں کے نام سے جانے جاتے تھے۔ ان کی گائی ہوئی قوالیوں میں ''میں شرابی''، ''تیری صورت'' اور ''اللہ ہی جانے کون بشر ہے'' کئی دہائیاں گزرنے کے باوجود آج بھی مقبول عام ہیں۔
عزیز میاں نے وطن عزیزسمیت دنیا کے بیشتر ملکوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے سامنے یادگار پرفارمنس پیش کرنے پر دنیا بھر میں مقبولیت حاصل کی۔ وہ اپنی بیشتر قوالیاں خود لکھتے تھے جب کہ انہوں نے علامہ محمد اقبال اور قتیل شفائی کا کلام بھی انتہائی مہارت سے گایا۔ حکومت پاکستان کی جانب سے 1989 میں انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا۔
2000 میں عزیز میاں قوال کویرقان کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا، ڈاکٹروں کے منع کرنے کے باوجود انھوں نے قوالی کو ترک نہیں کیا۔ اسی برس وہ حکومت ایران کی دعوت پرتہران گئے جہا ں 6 دسمبر کو58 سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوگیا۔