کراچی کالاپتہ نوجوان اڈیالہ جیل سے واپس گھر پہنچ گیا
سعیداللہ کوناکردہ جرم قبول کرنے کیلیے دباؤاوربدترین تشددکانشانہ بنایاگیا
کراچی سے 7 ماہ قبل لاپتہ ہونے والا نوجوان سعید اللہ اڈیالہ جیل سے رہا ہوکر کراچی پہنچ گیا ۔
اس کی واپسی پراہل خانہ میں خوشی کی لہردوڑ گئی ، رہائش گاہ پر ملاقات کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا،نوجوان نے بتایا کہ دوران حراست قتل اوربم دھماکوں کی کئی وارداتیں قبول کرنے کے لیے دبائوڈالا گیا ، انکار پر بہیمانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔تفصیلات کے مطابق 4اور 5 اپریل کی درمیانی شب سہراب گوٹھ کے علاقے میں رینجرز نے آپریشن کیااور متعدد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، حراست میں لیے گئے افراد میں 30سالہ سعید اللہ بھی شامل تھا،سعید اللہ کو اہل خانہ نے کئی مقامات پرتلاش کیا۔
قانون نافذ کرنے والے متعدد اداروں سے رابطہ کیالیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی بالآخرکئی ماہ کی سخت جدوجہد کے بعد پتہ چلا کہ سعید اللہ اڈیالہ جیل میں قیدہے جس پر اہل خانہ اسلام آبادپہنچے اور قانونی چارہ جوئی کی،عدالت نے جمعے کوسعید کی رہائی کاحکم سنایا،پیر کی شب سعید اللہ واپس کراچی پہنچ گیا،اس کی واپسی پر اہل خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اپنی رہائش گاہ پر ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سعیداللہ نے بتایاکہ دوران حراست آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر رکھا جاتا تھا۔
نماز کے اوقات میں صرف وضو کرنے کے لیے منہ پرڈالاگیا کپڑا اور پٹیاں کھول دی جاتیں اوروضو کے فوراً بعد دوبارہ پٹیاں باندھ دی جاتی تھیں،نماز بھی بیٹھ کر پڑھنے کو کہاجاتا ، انھیں کچھ اندازہ نہیں ہوسکاکہ وہ کہاں ہیں،قریب موجود افراد کی گفتگو سے انھیں اندازہ ہواکہ انھیں مختلف تھانوں میں لے جایا گیالیکن پولیس نے انھیں لینے سے انکار کردیاجس پر رینجرز نے ہی انھیں اپنی حراست میں رکھا ، حراست کے دوران ان پر ناکردہ جرائم قبول کرنے کادبائو ڈالا گیا۔
متعدد قتل،بم دھماکوں اوردیگر وارداتیں قبول کرنے کا کہا،انکار پر انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا،ان کے جسم پر آج بھی تشدد کے نشانات ہیں ،صرف دو وقت کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔سعید اللہ کا کہنا تھا کہ کچھ اورافراد کو بھی ان کے ساتھ رکھاگیا تھا لیکن انھیں آپس میں بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔رمضان المبارک کے دوران انھیں اسلام آبادمیں ایک وفاقی ایجنسی کے حوالے کردیا گیا جس نے شناختی دستاویزات نہ ہونے کامقدمہ درج کرکے انھیں اڈیالہ جیل بھیج دیاتھااور بعدازاں قانونی چارہ جوئی کے بعد انھیں رہائی نصیب ہوئی ۔
اس کی واپسی پراہل خانہ میں خوشی کی لہردوڑ گئی ، رہائش گاہ پر ملاقات کے لیے آنے والوں کا تانتا بندھ گیا،نوجوان نے بتایا کہ دوران حراست قتل اوربم دھماکوں کی کئی وارداتیں قبول کرنے کے لیے دبائوڈالا گیا ، انکار پر بہیمانہ تشدد کا بھی نشانہ بنایا۔تفصیلات کے مطابق 4اور 5 اپریل کی درمیانی شب سہراب گوٹھ کے علاقے میں رینجرز نے آپریشن کیااور متعدد افراد کو حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ، حراست میں لیے گئے افراد میں 30سالہ سعید اللہ بھی شامل تھا،سعید اللہ کو اہل خانہ نے کئی مقامات پرتلاش کیا۔
قانون نافذ کرنے والے متعدد اداروں سے رابطہ کیالیکن کوئی شنوائی نہیں ہوئی بالآخرکئی ماہ کی سخت جدوجہد کے بعد پتہ چلا کہ سعید اللہ اڈیالہ جیل میں قیدہے جس پر اہل خانہ اسلام آبادپہنچے اور قانونی چارہ جوئی کی،عدالت نے جمعے کوسعید کی رہائی کاحکم سنایا،پیر کی شب سعید اللہ واپس کراچی پہنچ گیا،اس کی واپسی پر اہل خانہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔اپنی رہائش گاہ پر ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے سعیداللہ نے بتایاکہ دوران حراست آنکھوں پر پٹیاں باندھ کر رکھا جاتا تھا۔
نماز کے اوقات میں صرف وضو کرنے کے لیے منہ پرڈالاگیا کپڑا اور پٹیاں کھول دی جاتیں اوروضو کے فوراً بعد دوبارہ پٹیاں باندھ دی جاتی تھیں،نماز بھی بیٹھ کر پڑھنے کو کہاجاتا ، انھیں کچھ اندازہ نہیں ہوسکاکہ وہ کہاں ہیں،قریب موجود افراد کی گفتگو سے انھیں اندازہ ہواکہ انھیں مختلف تھانوں میں لے جایا گیالیکن پولیس نے انھیں لینے سے انکار کردیاجس پر رینجرز نے ہی انھیں اپنی حراست میں رکھا ، حراست کے دوران ان پر ناکردہ جرائم قبول کرنے کادبائو ڈالا گیا۔
متعدد قتل،بم دھماکوں اوردیگر وارداتیں قبول کرنے کا کہا،انکار پر انھیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا،ان کے جسم پر آج بھی تشدد کے نشانات ہیں ،صرف دو وقت کھانا فراہم کیا جاتا تھا۔سعید اللہ کا کہنا تھا کہ کچھ اورافراد کو بھی ان کے ساتھ رکھاگیا تھا لیکن انھیں آپس میں بات چیت کرنے کی اجازت نہیں تھی۔رمضان المبارک کے دوران انھیں اسلام آبادمیں ایک وفاقی ایجنسی کے حوالے کردیا گیا جس نے شناختی دستاویزات نہ ہونے کامقدمہ درج کرکے انھیں اڈیالہ جیل بھیج دیاتھااور بعدازاں قانونی چارہ جوئی کے بعد انھیں رہائی نصیب ہوئی ۔