افغان حکومت طالبان کے ذریعے پاک فوج سے انتقام لینا چاہتی ہے نیویارک ٹائمز
افغان انٹیلی جنس اہلکار پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسود کو کابل لے جا رہے تھے کہ امریکی فورسزنے چھاپہ مارکر چھین لیا
افغان حکومت پاکستانی طالبان کواپناحواری بنا کرپاکستانی فوج سے انتقام لینا چاہتی ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسودکی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تحریر کیاہے کہ افغانستان کی حکومت لطیف محسودکے ذریعے پاکستانی طالبان کوپاکستان کی فوج کیخلاف کارروائیوں کیلیے استعمال کرناچاہتی تھی،امریکاکی طرف سے لطیف محسودکوافغانستان کی سیکیورٹی فورسزکے قبضے سے چھڑوانے کی کارروائی نے امریکااورافغانستان کے تعلقات کومزیدکشیدہ کردیا۔ اخبارنے لکھاہے کہ جب امریکی اسپیشل سیکیورٹی فورسزنے لطیف محسودکوافغان حکام کی تحویل سے چھیناتو اس وقت افغان حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس طالبان کمانڈرکے ذریعے امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے تھے لیکن اب افغان حکام نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ رابطے بڑھاکرپاکستانی فوج سے انتقام لیناچاہتے تھے۔ افغان حکومت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پرسیخ پا ہے۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی اپنے انٹیلجنس اثاثے کی چوری پرسیخ پاہیں۔افغان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لطیف محسود کی حراست سنہ 2014 کے بعدامریکاکی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کاکہناہے کہ لطیف محسود ایک لمبے عرصے سے افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، این ڈی ایس سے رابطے میں تھے۔ایمل فیضی کے مطابق لطیف محسوداین ڈی ایس کا ایک ایسا ہی منصوبہ تھے جیسا ہر انٹیلی جنس ایجنسی کے منصوبے ہوتے ہیں۔ایمل فیضی نے کہاکہ وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ (لطیف محسود)تعاون کر رہا تھا۔ ایمل فیضی نے 'تعاون' کی وضاحت نہیں کی۔ ایک اور افغان اہلکار نے بتایا کہ افغانستان پاکستان کو یہ باورکرانا چاہتا ہے کہ وہ بھی وہی کچھ کر سکتاہے جو پاکستان کر رہا ہے۔افغان اہلکار نے کہا کہ انھیں اگر پھر موقع ملا تو پھر وہی کچھ کریں گے جو پہلے کیا ہے۔
افغان اہلکار نے دعویٰ کیا کہ امریکی اہلکاروں نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کوتباہ کرنے میں ناکامی کے بعد افغانستان کو کہہ رکھا ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکتا ہے تو کرے۔ایک افغان اہلکارنے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ افغانستان کی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ وہ پاکستان میں اپنے حواری پیداکرے گا تاکہ انہیں پاکستان کی فوج کے خلاف استعمال کیا جا سکے، جب افغانستان اپنی کوششوں میں کامیاب ہو رہا تھا تو امریکا نے چھاپہ مار کر لطیف محسودکواپنی حراست میں لے لیا ہے۔ا ہلکار نے کہا کہ افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکارجب لطیف محسود سے رابطے میں تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ انہیں امریکاکی طرف سے گرین سگنل مل چکاہے۔2افغان اہلکاروں کے مطابق افغان انٹیلی جنس ایجنسی اور لطیف محسود کے مابین ایک معاہدہ طے پا چکا تھا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان اپنے سرحدی علاقے میں پناہ لیے ہوئے پاکستانی طالبان کوحراساں نہیں کرے گا اور پاکستانی طالبان پرلازم ہوگاکہ وہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ نہیں کریں گے البتہ افغان اہلکاروں نے لطیف محسود کے ساتھ اپنے رابطوں کو امریکاسے پوشیدہ رکھا۔
لطیف محسود کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے مکمل معلومات رکھنے والے ایک امریکی اہلکار نے افغان اہلکاروں کے اس دعوے کی نفی کی کہ امریکاافغانستان کو پاکستانی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ امریکی اہلکار نے سوال کیا کہ اگر افغان اہلکار کہہ رہے ہیں کہ ان کے اقدام کو امریکاکی حمایت حاصل تھی توانھوں نے لطیف محسود کے ساتھ رابطوں کو امریکاسے پوشیدہ کیوں رکھا۔ امریکی اہلکاروں کوشبہ ہے کہ لطیف محسودنے 2010 میں ٹائمزاسکوائرمیں بم دھماکے کی ناکام سازش کی تھی۔واضح رہے امریکی اسپیشل فورسز نے لطیف محسود کو افغان حکومت کی حراست سے اس وقت چھین لیاتھا جب افغانستان کے انٹیلی جنس حکام لطیف محسود کو کابل میں خفیہ ملاقات کے لیے جا رہا تھا، اب لطیف محسودامریکاکی حراست میں ہے۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستانی طالبان رہنما لطیف محسودکی گرفتاری کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں تحریر کیاہے کہ افغانستان کی حکومت لطیف محسودکے ذریعے پاکستانی طالبان کوپاکستان کی فوج کیخلاف کارروائیوں کیلیے استعمال کرناچاہتی تھی،امریکاکی طرف سے لطیف محسودکوافغانستان کی سیکیورٹی فورسزکے قبضے سے چھڑوانے کی کارروائی نے امریکااورافغانستان کے تعلقات کومزیدکشیدہ کردیا۔ اخبارنے لکھاہے کہ جب امریکی اسپیشل سیکیورٹی فورسزنے لطیف محسودکوافغان حکام کی تحویل سے چھیناتو اس وقت افغان حکومت نے موقف اختیار کیا تھا کہ وہ اس طالبان کمانڈرکے ذریعے امن مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے کی کوشش کررہے تھے لیکن اب افغان حکام نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پربتایاہے کہ وہ پاکستانی طالبان کے ساتھ رابطے بڑھاکرپاکستانی فوج سے انتقام لیناچاہتے تھے۔ افغان حکومت رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پرسیخ پا ہے۔
افغانستان کے صدر حامد کرزئی اپنے انٹیلجنس اثاثے کی چوری پرسیخ پاہیں۔افغان اہلکاروں کا کہنا ہے کہ لطیف محسود کی حراست سنہ 2014 کے بعدامریکاکی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے معاہدے کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی کاکہناہے کہ لطیف محسود ایک لمبے عرصے سے افغانستان کی انٹیلی جنس ایجنسی، این ڈی ایس سے رابطے میں تھے۔ایمل فیضی کے مطابق لطیف محسوداین ڈی ایس کا ایک ایسا ہی منصوبہ تھے جیسا ہر انٹیلی جنس ایجنسی کے منصوبے ہوتے ہیں۔ایمل فیضی نے کہاکہ وہ صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ وہ (لطیف محسود)تعاون کر رہا تھا۔ ایمل فیضی نے 'تعاون' کی وضاحت نہیں کی۔ ایک اور افغان اہلکار نے بتایا کہ افغانستان پاکستان کو یہ باورکرانا چاہتا ہے کہ وہ بھی وہی کچھ کر سکتاہے جو پاکستان کر رہا ہے۔افغان اہلکار نے کہا کہ انھیں اگر پھر موقع ملا تو پھر وہی کچھ کریں گے جو پہلے کیا ہے۔
افغان اہلکار نے دعویٰ کیا کہ امریکی اہلکاروں نے پاکستان میں طالبان کی پناہ گاہوں کوتباہ کرنے میں ناکامی کے بعد افغانستان کو کہہ رکھا ہے کہ اگر وہ ایسا کر سکتا ہے تو کرے۔ایک افغان اہلکارنے نیویارک ٹائمز کو بتایا کہ افغانستان کی حکومت نے فیصلہ کیاہے کہ وہ پاکستان میں اپنے حواری پیداکرے گا تاکہ انہیں پاکستان کی فوج کے خلاف استعمال کیا جا سکے، جب افغانستان اپنی کوششوں میں کامیاب ہو رہا تھا تو امریکا نے چھاپہ مار کر لطیف محسودکواپنی حراست میں لے لیا ہے۔ا ہلکار نے کہا کہ افغان انٹیلیجنس ایجنسی کے اہلکارجب لطیف محسود سے رابطے میں تھے تو وہ سمجھتے تھے کہ انہیں امریکاکی طرف سے گرین سگنل مل چکاہے۔2افغان اہلکاروں کے مطابق افغان انٹیلی جنس ایجنسی اور لطیف محسود کے مابین ایک معاہدہ طے پا چکا تھا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان اپنے سرحدی علاقے میں پناہ لیے ہوئے پاکستانی طالبان کوحراساں نہیں کرے گا اور پاکستانی طالبان پرلازم ہوگاکہ وہ افغان سیکیورٹی اہلکاروں پر حملہ نہیں کریں گے البتہ افغان اہلکاروں نے لطیف محسود کے ساتھ اپنے رابطوں کو امریکاسے پوشیدہ رکھا۔
لطیف محسود کو حراست میں لیے جانے کے حوالے سے مکمل معلومات رکھنے والے ایک امریکی اہلکار نے افغان اہلکاروں کے اس دعوے کی نفی کی کہ امریکاافغانستان کو پاکستانی طالبان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی حوصلہ افزائی کر رہا ہے۔ امریکی اہلکار نے سوال کیا کہ اگر افغان اہلکار کہہ رہے ہیں کہ ان کے اقدام کو امریکاکی حمایت حاصل تھی توانھوں نے لطیف محسود کے ساتھ رابطوں کو امریکاسے پوشیدہ کیوں رکھا۔ امریکی اہلکاروں کوشبہ ہے کہ لطیف محسودنے 2010 میں ٹائمزاسکوائرمیں بم دھماکے کی ناکام سازش کی تھی۔واضح رہے امریکی اسپیشل فورسز نے لطیف محسود کو افغان حکومت کی حراست سے اس وقت چھین لیاتھا جب افغانستان کے انٹیلی جنس حکام لطیف محسود کو کابل میں خفیہ ملاقات کے لیے جا رہا تھا، اب لطیف محسودامریکاکی حراست میں ہے۔