کالے دھن نے کراچی کو آتش فشاں بنا دیاسپریم کورٹ

کیا رینجرز کو کنٹینرز چیک کرنیکا اختیار بھی دے دیں؟جرائم پیشہ عناصر کراچی کی معیشت پر قبضہ چاہتے ہیں، چیف جسٹس


Staff Reporter October 30, 2013
پولیس اور رینجرز نے اپنا کام شروع کردیا ہے، ہم پولیس رینجرز کی کارکردگی کو سراہتے ہیں ،چیف جسٹس پاکستان۔ فوٹو: فائل

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ اسلحے اور منشیات کی اسمگلنگ سے ملنے والے کالے دھن نے کراچی کو بدامنی کا آتش فشاں بنادیا ہے۔

تمام ذمے داری صوبائی حکومت پر نہیں ڈالی جاسکتی ،اسمگلنگ روکنا وفاقی اداروں کی ذمے داری ہے۔ رینجرز اور پولیس نے کام شروع کردیا ،ان پر مزید دباؤ نہیں ڈال سکتے ۔ وفاقی حکومت کے اداروں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ وفاق نے رینجرز فورس فراہم کرنے کے علاوہ کوئی اہم اقدام نہیں کیا ، کوسٹ گارڈ اور میری ٹائم سیکیورٹی سے اسمگلنگ کے خلاف کارروائی کے اختیارات اس لیے واپس لیے گئے کہ دھندہ متاثر ہوتا ہے۔ ہم کسی کی نوکری کے پیچھے نہیں بلکہ کراچی میں امن چاہتے ہیں۔ کیاہم رینجرز کوحکم دے دیں کہ 15دن تک ہر کنٹینر کو چیک کرکے سامان دیکھیں تو سچ سامنے آجائے گا کہ کتنا ریونیو چوری اور کیا کیا اشیاء اسمگلنگ ہوتی ہیں۔ اب کسٹم کے معاملات بھی دیکھیں گے کیونکہ سمندری راستوں سے آنیوالا کالا دھن شہر کی بدامنی کو ایندھن فراہم کررہا ہے۔

مختلف آبادیاں مل جل کر رہنا چاہتی ہیں مگر جرائم پیشہ عناصر کراچی کی معیشت پر قبضہ کرکے شہر پر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، ملک کی معیشت کا کراچی پر انحصار ہے ، اگر اسلحہ اور منشیات کی اسمگلنگ پر قابو پالیا جائے تو دیکھتے دیکھتے ہی امن ہوجائیگا۔چیف جسٹس نے بطور تجویز یہ بھی کہا کہ کیوں نہ اسمگلنگ روکنے کے لیے بھی اختیارات رینجرز کو دے دیے جائیں۔ یہ ریمارکس انھوں منگل کو کراچی بدامنی عمل درآمد کیس کی سماعت کے دوران دیے، چیف جسٹس کی سربراہی میںجسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس گلزار احمد پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کی۔

فاضل بینچ نے چیئرمین ایف بی آر، ڈائریکٹر جنرل اینٹی نارکوٹکس فورس اور ڈائریکٹر انٹیلی جنس کسٹم کو بھی بدھ کو عدالت میں پیش ہونے کی ہدایت کی۔ سماعت کے موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید خان نے صوبائی حکومت کی جانب سے رپورٹ پیش کی جبکہ وفاقی وزارت دخلہ کی جانب ڈپٹی اٹارنی جنرل محمد اسلم بٹ نے رپورٹ پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ مذکورہ رپورٹ کو خفیہ رکھاجائے۔ رینجرز کی جانب سے شاہد انور باجوہ ایڈووکیٹ نے رپورٹ پیش کی جس کا جائزہ لینے کے بعد چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ جوملزمان رینجرز نے پکڑے اورپولیس کے حوالے کیے، ان کی موجودہ پوزیشن کیا ہے ؟ اور اس کی رپورٹ کیوں جمع نہیں کرائی؟۔گرفتاریوں کے بعد ملزمان کے مقدمات کا کیا ہوا؟۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے استفسارکیاکہ قانون نافذکرنے والے اداروں کے درمیان رابطہ کار موجود ہے یا نہیں ؟کیونکہ عدالت کویہ دیکھنا ہے کہ قوانین سخت کردیے گئے ہیں تو ان ملزمان کو سزائیں ہوتی ہیں یا نہیں؟۔ اس کے لیے حکمت عملی ترتیب دینا ضروری ہے کیونکہ ملزمان کو کیفرکردار تک نہیں پہنچایا جائے گا تو امن کا قیام ممکن نہیں۔ چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ شہرکی مجموعی صورت حال کیا ہے؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایاکہ لیاری کے علاوہ شہرکی صورت حال تسلی بخش ہے، لیاری میں ملزمان گینگ وار سے تعلق رکھتے ہیں جس کی وجہ سے لیاری کے بعض علاقوں میں مسائل درپیش ہیں تاہم ان کے خلاف کارروائی ہورہی ہے۔شاہد حیات نے جواب دیا کہ صورتحال تبدیل ہوئی ہے۔



ہم نے حکومت کی رٹ ہر جگہ قائم کردی ہے اورجرائم پر کافی حد تک قابو پالیا ہے۔ شاہد حیات نے کہاکہ جو اہلکار جرائم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف بھی کارروائیاں جاری ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ پولیس اور رینجرز نے اپنا کام شروع کردیا ہے، ہم پولیس رینجرز کی کارکردگی کو سراہتے ہیں مگر اسلحے کی اسمگلنگ روکنا بہت ضروری ہے۔عدالت نے چیف کلکٹر کسٹم محمد یحییٰ سے استفسارکیاکہ اسلحے کی اسمگلنگ روکنا آپ کی ذمے داری ہے، ہم سندھ حکومت پولیس اور رینجرز پر اس سے زیادہ دباؤ نہیں ڈال سکتے۔ محمد یحییٰ نے عدالت میں اعتراف کیااور کہاکہ میں پہلے بھی تسلیم کیا تھا اور اب بھی کرتا ہوں کہ اسمگلنگ ہورہی ہے اور ہم رینجرز پولیس کی مدد لے رہے ہیں۔چیف نے کہاکہ چلیں آپ یہ بتائیں کہ آپ نے کتنا اسلحہ پکڑا ؟۔

محمد یحییٰ نے بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ ایسا بھاری اسلحہ نہیں پکڑ سکے کہ عدالت میں بیان کیا جاسکے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہاکہ کسٹم میں باقاعدہ ایک مافیا ہے ،کراچی میں دوسر ی بڑی برائی اسمگل شدہ منشیات ہے جس کا پیسہ جرائم میں استعمال ہورہاہے۔اس موقع پر علی شیر جاکھرانی نے بتایاکہ گزشتہ 40دنوں میں پولیس نے منشیات کے990 مقدمات درج کیے۔چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو پولیس کی کاررکردگی ہے، نارکوٹکس کی رپورٹ کہاں ہے؟۔،چیف جسٹس نے محمد یحییٰ سے پوچھا کہ اسلحہ لانچوں کے ذریعے کہاں سے آتا ہے آپ کیوں چھپانے کی کوشش کررہے ہیں۔ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ کراچی میں آنے اور جانے والے راستوں پر اسمگلنگ کیلیے تمام ایجنسیوں کورشوت اور نجی افراد کو بھتے کے حصے دیے جاتے ہیں، اگر یہ کنٹینرز قانونی طریقے سے کلیئر ہوں تو یہ رقم کیوں دیں۔چیف جسٹس نے چیف کلکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اللہ نے آپ کو یہ موقع دیا ہے کہ آپ کچھ کریں ورنہ آپ کے خلاف سخت کارروائی کریں گے۔

سائنس اور ٹیکنالوجی کے اس دور میں مکمل چیکنگ کس طرح ممکن نہیں۔کراچی کا مسئلہ اسلحہ، منشیات اور کسٹم پر کرپشن کا ہے جو کراچی کے اصل مسئلے کی جڑ ہے۔عدالت نے ڈی جی نارکوٹکس کو حکم دیا کہ وہ مکمل طور پر رپورٹ پیش کریں کہ منشیات کی اسمگلنگ کون کون سے راستوں سے ہورہی ہے اور اسکے خلاف اقدامات کیوں نہیں کرپارہے۔اس موقع پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے عدالت کو بتایاکہ کسٹم کے ایک اعلی افسرنے جوکہ انتہائی ایماندار اور نمازی پرہیز گار تھے ، بتایاکہ انھیں 20 لاکھ روپے ماہانہ دیے جاتے ہیں۔ یہ تو ایک ایماندار آفیسر کی بات ہے ۔کرپٹ آفیسر کو کتنا حصہ دیا جاتاہوگا اس کی بات ہی نہیں کی جاسکتی۔چیف جسٹس نے چیف کلکٹر کو کہا کہ وہ بتائیں اس کالے دھندے میں کتنے بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے؟۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے چیف کلکٹرآفیسر کی رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے حکم دیا کہ ایک تفصیلی اور جامع رپورٹ دی جائے۔چیف جسٹس نے محمد یحییٰ سے پوچھا کہ آپ بتائیں کہ آج کے دور میں ڈیٹیکٹرز سب کچھ نہیں بتا دیتے ؟ یا آپ کے پاس ڈیٹیکٹر نہیں۔محمد یحیی نے بتایاکہ ہمارے پاس کوئی ڈیٹیکٹر نہیں جس پر چیف نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم کل یہ حکم دینے جارہے ہیں کہ ایک ایک کنٹینر کھولا جائے، اسکی مکمل جانچ پڑتال کی جائے اور ہم وہاں پر ایماندار افسر بھی تعینات کریں گے۔

چیف جسٹس نے بطور تجویز یہ بھی کہا کہ کیوں نہ اسمگلنگ روکنے کے لیے بھی اختیارات رینجرز کو دے دیے جائیں تاہم رینجرز کے وکیل شاہد انور باجوہ نے کہا کہ وہ رینجرز حکام سے مشاورت کے بعد ہی عدالت کو کوئی جواب دے سکیں گے۔چیف جسٹس نے ڈی جی رینجرز اور ایڈیشنل آئی جی شاہدحیات کی کارکردگی کا سراہتے ہوئے کہاکہ انھوں نے اچھا کام کیا ہے۔ اس سے قبل سابق آئی جی سندھ فیاض لغاری کو اسی لیے ہٹایا گیا کہ وہ امن کے قیام میں بری طرح سے ناکام ہوئے،عدالت نے رمضان بھٹی کمیشن کی رپورٹ کے بعض مندرجات کے جوابات کیلیے چیئرمین ایف بی آر کو بھی نوٹس جاری کرتے ہوئے آج (بدھ کو) عدالت میں طلب کرلیا ہے جبکہ وفاقی اٹارنی جنرل منیراے ملک کو بھی حکم دیا ہے کہ وہ بھی آج عدالت میں پیش ہوں۔

فاضل بینچ نے مہاجر قومی موومنٹ کی خاتون رہنما ردا فاطمہ سمیت 51کارکنوں کی درخواستوں پر چیف سیکریٹری ، آئی جی سندھ اور ڈائریکٹر جنرل رینجرز کو 31اکتوبر کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا ہے۔دریں اثناحکومت سندھ نے مقامی صحافی ولی بابر کے مقدمہ قتل کی سماعت کراچی سے باہر اندرون سندھ منتقل کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے ، اس ضمن میں جلد ہی سندھ ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جائے گی۔ یہ بات ایڈووکیٹ جنرل سندھ خالد جاوید خان نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ کو بتائی۔

انھوں نے بتایاکہ حکومت سندھ نے یہ فیصلہ 28اکتوبر کو کیا،منگل کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مقدمے کی سماعت بھی تھی اور عدالت نے مزید کارروائی 12نومبر کے لیے ملتوی کی ہے۔خالد جاوید خان نے بتایاکہ اس موقع پر وہ حتمی طور پر نہیں بتاسکتے لیکن ولی بابر کیس کے علاوہ نعمت علی رندھاوا ایڈووکیٹ سمیت متعدد مقدمات کی سماعت اندرون سندھ منتقل کرنے کا جائزہ لیا جارہاہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی صحافی ڈینیئل پرل کے اغوا اور قتل کے مقدمے کی سماعت بھی کراچی سے حیدرآباد منتقل کردی گئی تھی اوراب ولی بابر کیس کی سماعت شہر سے باہرمنتقل کی جارہی ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں