جنید جمشید کو ہم سے بچھڑے تین برس بیت گئے
جنید جمشید کوسن 2007ء میں دنیا کی 500 بااثرمسلم شخصیات میں شامل کیا گیا
معروف نعت خواں اور ماضی کے مقبول گلوکار جنید جمشید کو اس دنیا سے گزرے تین برس بیت گئے۔
7 دسمبر 2016ء کو جنید جمشید بھی پی آئی اے کے اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے جو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے تھے حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوا۔ اس سانحے کے نتیجے میں طیارے کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 52 سالہ جنید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد جا رہے تھے۔
جنید جمشید لاہور میں واقع یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے موسیقی کے کیریئر کا آغاز میوزک بینڈ وائٹل سائنز سے کیا اور پہلے البم کی ریلیز نے ہی اس بینڈ اور اس کے مرکزی گلوکار جنید جمشید کو شہرت کی ایسی بلندیوں تک پہنچایا جس کی مثال آج بھی ملنا مشکل ہے۔
1987ء میں ریلیز ہونے والے گیت ''دل دل پاکستان'' نے خاص طور پر جنید جمشید کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ان کے بینڈ کو پاکستانی 'پنک فلوائڈ' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا بعد ازاں وائٹل سائنز کے فرنٹ مین کے طور پر چار اسٹوڈیو البمز کی کامیابی کے بعد انہیں اپنے سولو کیریئر میں بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی ۔
سال 1999ء میں ریلیز کی گئی ان کی دوسری سولو البم کے کئی گیت اُس دور کے سپر ہٹس میں شامل ہیں تاہم 2002ء میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعیلمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔
یہی وہ وقت تھا جب جنید جمشید نے گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا اور مذہب کی تبلیغ اور حمد و نعت سے وابستہ ہوگئے اور ہمیں 'محمد کا روضہ قریب آرہا ہے' اور 'میرا دل بدل دے' جیسی خوبصورت نعتیں سننے کو ملیں، نعت خوانی اور اپنے ملبوسات کے برانڈ سمیت جنید جمشید گزشتہ برسوں میں ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان بھی نمایاں رہے۔
جنید جمشید کوسن 2007ء میں دنیا کی 500 بااثرمسلم شخصیات میں شامل کیا گیا جبکہ سن 2014ء میں انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔
7 دسمبر 2016ء کو جنید جمشید بھی پی آئی اے کے اس بدقسمت طیارے میں سوار تھے جو چترال سے اسلام آباد آتے ہوئے تھے حویلیاں کے قریب حادثے کا شکار ہوا۔ اس سانحے کے نتیجے میں طیارے کے عملے سمیت 48 افراد جاں بحق ہوئے تھے۔ 52 سالہ جنید اپنی اہلیہ کے ہمراہ چترال میں تبلیغی دورے کے بعد اسلام آباد جا رہے تھے۔
جنید جمشید لاہور میں واقع یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی سے فارغ التحصیل تھے۔ انہوں نے موسیقی کے کیریئر کا آغاز میوزک بینڈ وائٹل سائنز سے کیا اور پہلے البم کی ریلیز نے ہی اس بینڈ اور اس کے مرکزی گلوکار جنید جمشید کو شہرت کی ایسی بلندیوں تک پہنچایا جس کی مثال آج بھی ملنا مشکل ہے۔
1987ء میں ریلیز ہونے والے گیت ''دل دل پاکستان'' نے خاص طور پر جنید جمشید کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا ان کے بینڈ کو پاکستانی 'پنک فلوائڈ' کے نام سے بھی یاد کیا جاتا تھا بعد ازاں وائٹل سائنز کے فرنٹ مین کے طور پر چار اسٹوڈیو البمز کی کامیابی کے بعد انہیں اپنے سولو کیریئر میں بھی خاصی شہرت حاصل ہوئی ۔
سال 1999ء میں ریلیز کی گئی ان کی دوسری سولو البم کے کئی گیت اُس دور کے سپر ہٹس میں شامل ہیں تاہم 2002ء میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعیلمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرتے نظر آئے۔
یہی وہ وقت تھا جب جنید جمشید نے گلوکاری کو خیرباد کہہ دیا اور مذہب کی تبلیغ اور حمد و نعت سے وابستہ ہوگئے اور ہمیں 'محمد کا روضہ قریب آرہا ہے' اور 'میرا دل بدل دے' جیسی خوبصورت نعتیں سننے کو ملیں، نعت خوانی اور اپنے ملبوسات کے برانڈ سمیت جنید جمشید گزشتہ برسوں میں ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان بھی نمایاں رہے۔
جنید جمشید کوسن 2007ء میں دنیا کی 500 بااثرمسلم شخصیات میں شامل کیا گیا جبکہ سن 2014ء میں انھیں حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔