طلبا یونین اور اس کا قانون
بنیادی بات یہ ہے کہ نئے قانون کا اطلاق سرکاری یونیورسٹیوں کے علاوہ تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں پر ہونا چاہیے۔
سعید حسن خان کا شمار ملک کے سینئر صحافیوں اور محققین میں ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کی چند شخصیات میں شامل ہیں جن کا حلقہ احباب برطانیہ اور بھارت میں بھی ہے۔ سعید خان بریلی میں پیدا ہوئے۔ 1944 ء میں میٹرک کیا اور بریلی کالج میں داخلہ لیا۔ جب سعید حسن خان سیکنڈ ایئر میں تھے تو بریلی کالج میں ہندو اور مسلمان طلبہ ساتھ تعلیم حاصل کرتے تھے اورکالج کو ایجوکیشن تھا۔
سعید حسن خان جب سیکنڈ ایئر میں پہنچے تو طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے۔ سعید حسن خان جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ ان کے ساتھ ہندو طالب علم صدر، نائب صدر اور سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ سعید حسن خان جناح صاحب کے فلسفہ سے متاثر تھے۔ یونین کے صدر، نائب صدر اور سیکریٹری جنرل کانگریس کے نظریہ سے متاثر تھے۔
سعید حسن خان کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی انڈین نیشنل آرمی کے سپاہیوں کو برطانوی ہند حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔ ان فوجیوں کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔
سعید حسن خان نے یونین کے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ طلبہ یونین کا فنڈ ان قیدی فوجیوں کی بہبود کے فنڈ میں دے دیا جائے۔ یہ تجویز منظور ہوئی۔ سعید حسن خان ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ لاہور آگئے اورگورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم ہوئے۔ لاہور سے بھارت جانے والے ایک ہندو طالب علم نے گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم مسعود زمان کا ریفرنس دیا تھا۔
جب گورنمنٹ کالج لاہور کی طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے تو ان کے دوست مسعود زمان کے مقابلے میں ان کے قریبی ساتھی مسعود نبی نور انتخاب لڑرہے تھے اور بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے طالب علم مسعود نبی نور کے ساتھ تھے مگر مسعود نبی نور صدر اور ایس ایم ظفر سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مسعود زمان اور مسعود نبی نور ملک میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے۔ ایس ایم ظفر کا شمار ملک کے چند بڑے وکلاء میں ہوتا ہے۔
سعید حسن خان کا کہنا ہے کہ طلبہ یونین کا ادارہ طالب علم کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم میں بنیای فرق ہے مگر بڑے بڑے سماجی رہنما اس فرق کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے۔ جمعہ 29 نومبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری دن تھا۔ اس دن سہ پہر کو ہزاروں طالب علموں نے طلبہ یونین کی بحالی ، تعلیم کو سستا کرنے، نصاب کو سیکیولر بنیادوں پر ترتیب دینے اور تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے جیسے مطالبات کے لیے لاہور سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلوس نکالے گئے۔
ان جلوسوں میں ہزاروں طالب علموں نے شرکت کی۔ اس جلوس میں شرکت کرنے والوں میں ولی خان یونیورسٹی کے جنونی گروہ کے ہاتھوں شہید ہونے والے طالب علم مشال خان کے والد بھی شامل تھے۔ موجودہ حکومت ایک دہری پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور کئی وزراء نے طلبہ یونین کی بحالی کی اصولی حمایت کی۔ اس مجموعی صورتحال میں نئے قانون کی ضرورت ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مشال خان کے والد اور کئی سو طالب علموں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے جوکہ ایک جمہوریت دشمن اور آزادئ اظہار کو کچلنے کے مترادف اقدام ہے۔ طلبہ کے جلوسوں کی اطلاع اسلام آباد تک پہنچ گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ طلبہ یونین کے لیے جامع ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے۔ اس ٹویٹ میں انھوں نے مزید کہا کہ اس ضابطہ اخلاق کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کے بہترین تجربات کو مد نظر رکھا جائے گا۔ ان کا تجزیہ ہے کہ جامعات میں طلبہ کی تنظیمیں پر تشدد بن چکی ہیں جو تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کشمیر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے قانون سازی کا عہد کیا۔ طلبہ یونین پر 36 سال پہلے جنرل ضیاء الحق نے پابندی عائد کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کا مقصد طلبہ میں جمہوری قدروں کو ختم کرنا تھا، مگر جب طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف پورے ملک میں زبردست تحریک چلی تو اس تحریک کو منظم کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کا بڑ ا کردار تھا ، اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی نہیں لگی جس کا فائدہ تمام طلبہ تنظیموں کو ہوا۔
بہت سی طلبہ تنظیموں کا کردار منفی رہا ہے۔ یہ تنظیمیں یا تو سیاسی جماعتوں کا براہ راست حصہ بن گئی یا یونیورسٹیوں کی انتظامیہ شہروں کا نظام لانے والے کمشنر، ڈپٹی کمشنروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آلہ کار بن گئیں۔ اب ان طلبہ تنظیموں کا مقصد تعلیم اور طلبہ کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے کا نہیں رہا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے گلوبلائزیشن کے دور میں تعلیم کو کموڈٹی قرار دیا۔ تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ قومی آمدنی کا کم از کم 5فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔ وعدوں کے باوجود تعلیم کا بجٹ نہیں بڑھا۔
اب نجی شعبہ نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سیلف فنانس اسکیم کے نام پر میرٹ کو پامال کیا گیا۔ حکومتوں کی عدم توجہی کی بناء پر کراچی یونیورسٹی جیسا قدیم ادارہ اپنے انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے بہت پیچھے رہ گیا مگر طلبہ یونین نہ ہونے کی بناء پر ان بنیادی مسائل پر کوئی جدوجہد منظم نہ ہوسکی۔ طلبہ یونین کے خاتمے کے بعد طلبہ میں برداشت اور رواداری کا کلچر ختم ہوا جس کا شکار پروفیسر خالد محمود ، مشال خان اور جنید حفیظ جیسے اساتذہ بنے۔ طلبہ یونین کی بحالی کی جب بھی تجویز آئی سب سے زیادہ مخالفت وائس چانسلروں نے کی۔
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ منتخب طلبہ یونین ان وائس چانسلروں کے عزائم میں رکاوٹ بن سکتی تھی مگر پیپلز پارٹی کے تیسرے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا مگر کسی دباؤ پر یہ وعدہ نبھایا نہ جاسکا مگر باشعور طلبہ ، اساتذہ، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے طلبہ یونین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو کی کوششوں سے سینیٹ سے طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد منظور ہوئی۔ ہانگ کانگ میں مقیم سابق طالب علم رہنا بصیر نویدکی عرض داشت پر وزارت قانون نے رائے دی کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم ہوچکی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے اس بارے میں قانون سازی کا ہدف طے کرکے ایک بنیادی قدم اٹھایا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قانون کی تیاری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی قدم لیا گیا۔ طلبہ یونین کے 2020ء میں بحال ہونے کے امکانات ہیں۔ یہ پابندی 1984ء میں لگی تھی۔ ان 36 برسوں میں پاکستانی سماج میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ اب صرف امراء ہی نہیں بلکہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
چھوٹے صوبوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔ اب سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں غیر سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے جس میں جنرل یونیورسٹیوں کے علاوہ میڈیکل اور انجنیئرنگ کی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ یہ صورتحال نجی شعبہ میں کالجوں کی بھی ہے۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فیس ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ 19 برسوں میں ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ اب ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری یونیورسٹی لمس (Lahore University of Management Science) اور دیگر یونیورسٹیو ں میں اساتذہ اور طلبہ میں ایکٹوازم بہت زیادہ ہے۔ ان نجی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ ملک کے ہر مسئلہ پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے جو یونیورسٹی کا قانون نافذ کیا تھا اس قانون کے تحت یونیورسٹیوں اور کالجوں کے منتخب نمایندوں کو یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی دی گئی مگر جنرل ضیاء الحق نے یونیورسٹی کے قانون سے یہ شقیں خارج کردی تھیں۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے اس کے قانون کی تیاری کا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ نئے قانون کا اطلاق سرکاری یونیورسٹیوں کے علاوہ تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں پر ہونا چاہیے اورکالجوں میں طلبہ یونین کے قیام کے لیے علیحدہ قانون بننا چاہیے۔ اس قانون میں علمی آزادی کے ادارہ کے ارتقاء پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ایسا ضابطہ اخلاق تیار ہونا چاہیے جس سے طلبہ میں جمہوری رویہ پروان چڑھے اور طلبہ کو مثبت سرگرمیوں میں حوصلہ افزائی ہو۔ اب وفاق اور صوبائی حکومتوں کے تدبر کا امتحان ہے کہ وہ جمہوری طرز عمل کو طلبہ میں پروان چڑھانے کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں۔
سعید حسن خان جب سیکنڈ ایئر میں پہنچے تو طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے۔ سعید حسن خان جوائنٹ سیکریٹری منتخب ہوئے۔ ان کے ساتھ ہندو طالب علم صدر، نائب صدر اور سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ سعید حسن خان جناح صاحب کے فلسفہ سے متاثر تھے۔ یونین کے صدر، نائب صدر اور سیکریٹری جنرل کانگریس کے نظریہ سے متاثر تھے۔
سعید حسن خان کہتے ہیں کہ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرنے والی انڈین نیشنل آرمی کے سپاہیوں کو برطانوی ہند حکومت نے گرفتار کر لیا تھا۔ ان فوجیوں کے خلاف خصوصی عدالت میں مقدمہ چل رہا تھا۔
سعید حسن خان نے یونین کے اجلاس میں تجویز پیش کی کہ طلبہ یونین کا فنڈ ان قیدی فوجیوں کی بہبود کے فنڈ میں دے دیا جائے۔ یہ تجویز منظور ہوئی۔ سعید حسن خان ہندوستان کے بٹوارے کے ساتھ لاہور آگئے اورگورنمنٹ کالج لاہور میں بی اے کے طالب علم ہوئے۔ لاہور سے بھارت جانے والے ایک ہندو طالب علم نے گورنمنٹ کالج لاہور کے طالب علم مسعود زمان کا ریفرنس دیا تھا۔
جب گورنمنٹ کالج لاہور کی طلبہ یونین کے انتخابات ہوئے تو ان کے دوست مسعود زمان کے مقابلے میں ان کے قریبی ساتھی مسعود نبی نور انتخاب لڑرہے تھے اور بھارت سے ہجرت کرکے آنے والے طالب علم مسعود نبی نور کے ساتھ تھے مگر مسعود نبی نور صدر اور ایس ایم ظفر سیکریٹری جنرل منتخب ہوئے۔ مسعود زمان اور مسعود نبی نور ملک میں اعلیٰ عہدوں پر تعینات رہے۔ ایس ایم ظفر کا شمار ملک کے چند بڑے وکلاء میں ہوتا ہے۔
سعید حسن خان کا کہنا ہے کہ طلبہ یونین کا ادارہ طالب علم کی تربیت میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ طلبہ یونین اور طلبہ تنظیم میں بنیای فرق ہے مگر بڑے بڑے سماجی رہنما اس فرق کی اہمیت کو محسوس نہیں کرتے۔ جمعہ 29 نومبر پاکستان کی تاریخ کا ایک سنہری دن تھا۔ اس دن سہ پہر کو ہزاروں طالب علموں نے طلبہ یونین کی بحالی ، تعلیم کو سستا کرنے، نصاب کو سیکیولر بنیادوں پر ترتیب دینے اور تعلیم ریاست کی ذمے داری ہے جیسے مطالبات کے لیے لاہور سمیت ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں جلوس نکالے گئے۔
ان جلوسوں میں ہزاروں طالب علموں نے شرکت کی۔ اس جلوس میں شرکت کرنے والوں میں ولی خان یونیورسٹی کے جنونی گروہ کے ہاتھوں شہید ہونے والے طالب علم مشال خان کے والد بھی شامل تھے۔ موجودہ حکومت ایک دہری پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اور کئی وزراء نے طلبہ یونین کی بحالی کی اصولی حمایت کی۔ اس مجموعی صورتحال میں نئے قانون کی ضرورت ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی مشال خان کے والد اور کئی سو طالب علموں کے خلاف بغاوت کے مقدمات درج کیے گئے جوکہ ایک جمہوریت دشمن اور آزادئ اظہار کو کچلنے کے مترادف اقدام ہے۔ طلبہ کے جلوسوں کی اطلاع اسلام آباد تک پہنچ گئی۔
وزیر اعظم عمران خان نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ طلبہ یونین کے لیے جامع ضابطہ اخلاق مرتب کریں گے۔ اس ٹویٹ میں انھوں نے مزید کہا کہ اس ضابطہ اخلاق کے لیے بین الاقوامی شہرت یافتہ یونیورسٹیوں کے بہترین تجربات کو مد نظر رکھا جائے گا۔ ان کا تجزیہ ہے کہ جامعات میں طلبہ کی تنظیمیں پر تشدد بن چکی ہیں جو تعلیمی ماحول تباہ کرتی ہیں۔
اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر کے وزیر اعظم نے کشمیر کے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں طلبہ یونین کے انتخابات کا اعلان کیا۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ نے طلبہ یونین کے انتخابات کے لیے قانون سازی کا عہد کیا۔ طلبہ یونین پر 36 سال پہلے جنرل ضیاء الحق نے پابندی عائد کی تھی۔ جنرل ضیاء الحق حکومت کا مقصد طلبہ میں جمہوری قدروں کو ختم کرنا تھا، مگر جب طلبہ یونین پر پابندی کے خلاف پورے ملک میں زبردست تحریک چلی تو اس تحریک کو منظم کرنے والے اسلامی جمعیت طلبہ کا بڑ ا کردار تھا ، اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی نہیں لگی جس کا فائدہ تمام طلبہ تنظیموں کو ہوا۔
بہت سی طلبہ تنظیموں کا کردار منفی رہا ہے۔ یہ تنظیمیں یا تو سیاسی جماعتوں کا براہ راست حصہ بن گئی یا یونیورسٹیوں کی انتظامیہ شہروں کا نظام لانے والے کمشنر، ڈپٹی کمشنروں اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی آلہ کار بن گئیں۔ اب ان طلبہ تنظیموں کا مقصد تعلیم اور طلبہ کے بنیادی مسائل کے حل کے لیے جدوجہد کرنے کا نہیں رہا۔ برسر اقتدار حکومتوں نے گلوبلائزیشن کے دور میں تعلیم کو کموڈٹی قرار دیا۔ تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ نہیں ہوا۔ یونیسکو کا کہنا ہے کہ قومی آمدنی کا کم از کم 5فیصد تعلیم پر خرچ ہونا چاہیے۔ وعدوں کے باوجود تعلیم کا بجٹ نہیں بڑھا۔
اب نجی شعبہ نے تعلیم کو کاروبار بنا لیا ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں سیلف فنانس اسکیم کے نام پر میرٹ کو پامال کیا گیا۔ حکومتوں کی عدم توجہی کی بناء پر کراچی یونیورسٹی جیسا قدیم ادارہ اپنے انفرا اسٹرکچر کے اعتبار سے بہت پیچھے رہ گیا مگر طلبہ یونین نہ ہونے کی بناء پر ان بنیادی مسائل پر کوئی جدوجہد منظم نہ ہوسکی۔ طلبہ یونین کے خاتمے کے بعد طلبہ میں برداشت اور رواداری کا کلچر ختم ہوا جس کا شکار پروفیسر خالد محمود ، مشال خان اور جنید حفیظ جیسے اساتذہ بنے۔ طلبہ یونین کی بحالی کی جب بھی تجویز آئی سب سے زیادہ مخالفت وائس چانسلروں نے کی۔
اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ منتخب طلبہ یونین ان وائس چانسلروں کے عزائم میں رکاوٹ بن سکتی تھی مگر پیپلز پارٹی کے تیسرے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے اپنی پہلی تقریر میں طلبہ یونین کی بحالی کا اعلان کیا مگر کسی دباؤ پر یہ وعدہ نبھایا نہ جاسکا مگر باشعور طلبہ ، اساتذہ، دانشوروں اور سیاسی رہنماؤں نے طلبہ یونین کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی بھرپورکوشش کی۔ پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی اور نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل بزنجو کی کوششوں سے سینیٹ سے طلبہ یونین کی بحالی کی قرارداد منظور ہوئی۔ ہانگ کانگ میں مقیم سابق طالب علم رہنا بصیر نویدکی عرض داشت پر وزارت قانون نے رائے دی کہ مارشل لاء کے خاتمے کے بعد طلبہ یونین پر عائد پابندی ختم ہوچکی ہے۔
سندھ کے وزیر اعلی مراد علی شاہ نے اس بارے میں قانون سازی کا ہدف طے کرکے ایک بنیادی قدم اٹھایا۔ سندھ کے وزیر اطلاعات سعید غنی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ قانون کی تیاری کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرزکو اعتماد میں لیا جائے گا۔ اس پورے معاملے میں ایک بنیادی قدم لیا گیا۔ طلبہ یونین کے 2020ء میں بحال ہونے کے امکانات ہیں۔ یہ پابندی 1984ء میں لگی تھی۔ ان 36 برسوں میں پاکستانی سماج میں بنیادی تبدیلیاں رونما ہوچکی ہیں۔ اب صرف امراء ہی نہیں بلکہ نچلے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
چھوٹے صوبوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی تعداد غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہے۔ اب سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں غیر سرکاری یونیورسٹیوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے جس میں جنرل یونیورسٹیوں کے علاوہ میڈیکل اور انجنیئرنگ کی یونیورسٹیاں بھی شامل ہیں۔ یہ صورتحال نجی شعبہ میں کالجوں کی بھی ہے۔ ان نجی تعلیمی اداروں میں طلبہ سرکاری یونیورسٹیوں کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ فیس ادا کرتے ہیں۔
گزشتہ 19 برسوں میں ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ اب ملک کی سب سے بڑی غیر سرکاری یونیورسٹی لمس (Lahore University of Management Science) اور دیگر یونیورسٹیو ں میں اساتذہ اور طلبہ میں ایکٹوازم بہت زیادہ ہے۔ ان نجی یونیورسٹیوں کے اساتذہ اور طلبہ ملک کے ہر مسئلہ پر اپنے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے پہلے دور میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو حکومت نے جو یونیورسٹی کا قانون نافذ کیا تھا اس قانون کے تحت یونیورسٹیوں اور کالجوں کے منتخب نمایندوں کو یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں نمایندگی دی گئی مگر جنرل ضیاء الحق نے یونیورسٹی کے قانون سے یہ شقیں خارج کردی تھیں۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ طلبہ یونین کی بحالی کے لیے اس کے قانون کی تیاری کا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ نئے قانون کا اطلاق سرکاری یونیورسٹیوں کے علاوہ تمام غیر سرکاری یونیورسٹیوں پر ہونا چاہیے اورکالجوں میں طلبہ یونین کے قیام کے لیے علیحدہ قانون بننا چاہیے۔ اس قانون میں علمی آزادی کے ادارہ کے ارتقاء پر خصوصی توجہ دینی چاہیے اور ایسا ضابطہ اخلاق تیار ہونا چاہیے جس سے طلبہ میں جمہوری رویہ پروان چڑھے اور طلبہ کو مثبت سرگرمیوں میں حوصلہ افزائی ہو۔ اب وفاق اور صوبائی حکومتوں کے تدبر کا امتحان ہے کہ وہ جمہوری طرز عمل کو طلبہ میں پروان چڑھانے کے لیے کتنی سنجیدہ ہیں۔