حیرت اور خوشی کی خبر
پاکستان کے عوام میں جو بے چینی ہے اس کی اہم وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ کاروبار، زراعت اور صنعت کی سست روی ہے۔
ترقی اور خوش حالی کے بڑے بڑے فلسفے ، فارمولے کے بجائے چند بنیادی اقدامات اہم ہیں۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ عوام کی خوش حالی کے لیے مناسب روزگار ، کاروبار اور صنعت و زراعت کا فروغ بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، اگر عام لوگوں کے لیے خوراک ، رہائش ، ٹرانسپورٹ ، بجلی ، گیس ہر سطح تک ضرورت کے مطابق مہیا ہوں، تعلیم عام ہو، صحت صفائی اور امن و امان کا بہتر نظام موجود ہو تو ملک مجموعی طور پر تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔ کاروبار، صنعت اور زراعت کے بغیر یہ سہولیات عوام کو مہیا نہیں کی جا سکتی ہیں۔
پاکستان کے عوام میں جو بے چینی ہے اس کی اہم وجہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے علاوہ کاروبار، زراعت اور صنعت کی سست روی ہے۔ کم از کم اشیاء خور و نوش ، پٹرول اور بجلی کی قیمتوں کو اس سطح پر لانا ضروری ہے، جس سے عوام پر بوجھ کم ہو۔ اس کے بغیر بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ ملک میں انتشار کی کیفیت پیدا ہو گی۔ سیاسی افراتفری اور عدم استحکام بھی ہو گا۔ ہم سب کے لیے حیرت اور خوشی کی خبر یہ ہے کہ عالمی معاشی درجہ بندی کے ادارے موڈیز انویسٹر سروس نے پاکستان کی معیشت کے منظر نامے کو منفی سے مستحکم کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سرمایہ کاری کے لیے پاکستان بھارت سے بہتر ہے۔ یہ رپورٹ اپنی جگہ مثبت بہتری کی نشاندہی ضرور کرتی ہے لیکن حالات کی بہتری کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تیز رفتار اقدامات کی ضرورت ہے۔ ملک میں اندرونی سیاسی استحکام جس میں صنعت و تجارت اور زراعت کے فروغ کے لیے ساز گار ماحول ہو انتہائی ضروری ہے۔ زراعت پاکستان کی معیشت کے لیے خصوصی اہمیت رکھتی ہے۔ نئی ٹیکنالوجی کے ذریعے فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
پانی کا استعمال کم ازکم کر کے آبی وسائل کو ضایع ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ زرعی فصلوںکو محفوظ بنانے کے اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ غیر آباد زمینوں کو قابل کاشت بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں جہاں جنگلات کا خاتمہ ہوا ہے وہاں دوبارہ جنگلات بحال کیے جا سکتے ہیں۔ صنعت کاری کے فروغ میں حائل رکاوٹیں ختم کر کے اور صنعت کے فروغ کے لیے مزید سہولتیں فراہم کر کے صنعتی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
نوکر شاہی کی جانب سے رکاوٹوں کے بجائے سہولت کاری ضروری ہے۔ برآمدات کے فروغ کے لیے مختص صنعتی زون کی سرگرمیوں کو تیزکرنا، مارکیٹنگ کا انتظام کرنا ، نئی مارکیٹیں تلاش کرنا ، حکومت کی ترجیح ہو گی تو بہت اچھے نتائج آ سکتے ہیں۔ بار بار یہ سوال سامنے آتا ہے کہ بنگلہ دیش کی معیشت تیزی سے کیسے ترقی کر رہی ہے۔ وہ کون کون سے اقدامات تھے جس کی وجہ سے بنگلہ دیش تیز رفتاری سے خوش حالی کی جانب گامزن ہے۔
بنگلہ دیش نے جو اہم اقدامات کیے ہیں اس میں بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام کے لیے بہبود آبادی کی گھر گھر مہم ہے جس کی وجہ بنگلہ دیش کی آبادی قریباً ساڑھے سولہ کروڑ ہے۔ پاکستان کی آبادی 22 کروڑ کے قریب ہے۔ جس وقت بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا اس وقت بنگلہ دیش کی آبادی زیادہ تھی جس نسبت سے پاکستان کی آبادی میں اضافہ ہوا ہے اسی تناسب سے بنگلہ دیش کی آبادی میں اضافہ ہوتا تو بنگلہ دیش کی آبادی 25 کروڑ سے زائد ہوتی اور بنگلہ دیش معاشی ترقی کے بجائے معاشی بحران کا شکار ہوتا۔
بنگلہ دیش کا دوسرا اہم قدم تعلیم عام کرنے ، معیار تعلیم کو بہتر بنانے خصوصاً خواتین کی تعلیم و تربیت اور ملازمتوں میں صنفی توازن کے علاوہ خواتین کی آزادی اور تحفظ کا تھا۔ تیسرا اہم قدم نوجوان مردوں اور خواتین کو چھوٹے کاروبار کے لیے قرضوں کی فراہمی ان کی مسلسل رہنمائی اور نگرانی کا تھا۔ رہنمائی اور نگرانی اور تربیت کی وجہ سے نوجوانوں کا کاروبار پھیلا اور وہ خوش حال ہو گئے۔ ملکی معیشت پر اس کے بہت اچھے اثرات ہوئے۔
چوتھا اہم قدم مذہبی انتہا پسندی کا خاتمہ تھا۔ بنگلہ دیش نے ملک میں مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور مذہبی منافرت کے خاتمہ کے لیے سخت اقدامات کیے اور سزائیں بھی دیں۔ قومی یکجہتی اور رواداری کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے۔ جمہوری نظام کے تسلسل کو برقرار رکھا۔ وقت مقررہ پر انتخاب ہوئے درمیان میں اگرچہ مسائل پیدا ہوئے لیکن ایک جمہوری نظام جاری ہے۔ پولیس اور نوکر شاہی کے نظام کو بہتر بنایا گیا۔ ایک اور اہم کام بلدیاتی نظام ہے جس سے اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی ہے۔ بیرونی محاذ پر بنگلہ دیش نے بھارت کے ساتھ دوستانہ تعلقات کو فروغ دیا۔
اسی طرح چین کے ساتھ بھی تعلقات بہتر بنائے۔ بنگلہ دیش کی خوش حالی اور ترقی میں بنگلہ دیش میں فروغ پانے والی ملبوسات کی صنعت کا بہت بڑا کردار ہے۔ دنیا کے تمام امیر ممالک میں بنگلہ دیش سے تیار ہونے والے ملبوسات دستیاب ہیں۔ جس سے بنگلہ دیش کو بڑے پیمانے پر زرمبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ یہ سب کچھ یکایک نہیں ہوا۔ بنگلہ دیش کی قیادت اور نوکر شاہی نے مل کر یہ سفر شروع کیا تھا تقریباً 30 سال سے جاری یہ سفر نتیجہ خیز ثابت ہوا۔
بدقسمتی سے پاکستان کی سیاسی صورت حال میں رسہ کشی، بدنظمی اور ذاتی مفادات کے حصول کے عناصرکا غلبہ رہا۔ دوسری طرف پاکستان اپنے مخصوص جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے افغانستان کی جنگ کے اثرات سے خود کو محفوظ نہ رکھ سکا۔ اگر اس وقت ایسے اقدامات کیے جاتے جس سے پاکستان پر اس کے اثرات کم سے کم ہوتے تو ہم اندرونی انتشار اور مذہبی انتہا پسندی سے پیدا ہونے والے تصادم ، جانی و مالی نقصانات سے محفوظ رہتے۔ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹوکی شہادت ایک ایسا سانحہ تھا جس سے ملک کو بہت بڑا نقصان ہوا۔ اس وقت تشدد کے واقعات میں بھی بہت بڑی تباہی ہوئی تھی۔
ملکی وسائل کا بہت بڑا نقصان ہوا تھا۔ آج ایک مرتبہ پھر ہم حالات کا مناسب جائزہ لینے کے بجائے سیاسی رشہ کشی اور عدم استحکام کے خطرات میں مبتلا ہیں۔ پاکستان کے سیاسی کارکنوں نے جو جدوجہد کی ہے وہ عوام کی خوش حالی ، خود مختاری، تحفظ، بہتر تعلیمی نظام، صحت عامہ کی سہولتوں، ٹرانسپورٹ کی سہولتوں، روزگار، قانون کی حکمرانی جس میں عدلیہ اور پولیس کا بہتر نظام ہو کی امید کی ہے لیکن حالات اس کے برعکس ہیں۔ اس کی ذمے داری قیادتوں پر ہیں۔ پاکستان کو موجودہ خرابی سے نکلنے کے لیے وقت درکار ہے۔
ساتھ ہی ملک کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قیادت پر بھی بھاری ذمے داری ہے کہ پوری قوت سے سیاسی استحکام کے اقدامات عوام کی خوش حالی کے بھرپور اقدامات کیے جائیں۔ بنگلہ دیش کے تجربات سے فائدہ اٹھایا جائے ۔ پہلے مرحلے میں مہنگائی کے خاتمے کے ساتھ صنعت و تجارت کے پہئے کو تیز رفتاری سے چلایا جائے یہی اصل خوشی کی خبر ہو گی۔