سندھ حکومت کا شمسی توانائی منصوبے کی نیلامی کا فیصلہ
50 میگاواٹ پروجیکٹ کیلیے بولی کی پیشکش آئندہ سال مارچ تک طلب کی جائے گی
ملک میں صارفین کو سستی بجلی کی فراہمی کے لیے توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کی غرض سے حکومت سندھ نے پہلی بار کسی پاور پروجیکٹ نجی شعبے کو فروخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کے لیے مارچ 2020 میں دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے پیشکش طلب کی جائیں گی۔
توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نجی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو کوسٹ پلس ٹیرف فارمولا کے تحت مراعات دی جاتی تھیں یعنی ان کی کل لاگت یا سرمایہ کاری پر تمام اخراجات اور سود کو شامل کرنے کے بعد اسے صارفین تک منتقل کردیا جاتا تھا جس سے سرمایہ کاروں کو ایک متعین شرح منافع حاصل ہوتا تھا۔
حالیہ دنوں میں توانائی کی پیداوار ضرورت سے زائد ہونے کے سبب انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس شعبے میں ٹیرف کی بنیاد پر بولی کے ذریعے نئے منبصوبے لگانے کے لیے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے۔سندھ سولر انرجی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر محفوظ اے قاضی نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں بتایا کہ اس سلسلے میں 50 میگاواٹ کے شمسی توانائی کے پہلے منصوبے کے آکشن کی تیاری مکمل ہے۔
یہ منصوبہ منجھند کے مقام پر (ضلع جامشورو) میں واقع ہے ، جسے مسابقتی بولی کی بنیاد پر دیا جائے گا، اور یہ پیشکش آئندہ سال فروری یا مارچ میں طلب کی جائیں گی۔50 میگاواٹ کا یہ منصوبہ دراصل طے شدہ 400 میگاواٹ کے سولر پارک کا حصہ ہے جس میں 25 کروڑ ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کی آمد متوقع ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت کا ارادہ ہے کہ 2021 تک تمام 440 میگاوٹ سولر پروجیکٹ کا آکشن کردیا جائے جس کے بعد 2023 اور 2024 تک وہاں سے بجلی کی پیداوار حاصل کرکے اسے نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل کردیا جائے۔
محفوظ قاضی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں عالمی بینک تعاون کرریا ہے اور چار مختلف سولر منصوبوں کے لیے عالمی بینک 10 کروڑ ڈالر دیئے گئے ہیں جس میں سولر پارک کے قیام کے لیے 3 کروڑ? ڈالر بھی شامل ہیں۔اس حوالے سے محکمہ توانائی سندھ نے 400 میگاواٹ توانائی کے منصوبے کے آکشن کیلیے ایک کنسورشیم کی خدمات حاصل کی ہیں جس میں عالمی اور مقامی ماہرین اور مشیر شامل ہیں۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر محفوظ اے قاضی کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس پروجیکٹ میں 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی کیونکہ اس سے قبل 50 میگاواٹ کے سولر پروجیکٹ میں پرانے ٹیرف کی بنیاد پر فارمولے کے تحت 3 کروڑ 80 لاکھ تک بیرونی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
محفوظ قاضی کا کہنا تھا کہ بولیاں موصول ہونے کی صورت میں سندھ حکومت کو سب سے کم ٹیرف کی بولی کو منظور کرنا ہوگا جس کے بعد وہ کسی اور سرمایہ کار سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اگر 400 میگاواٹ کے اس سولر منصوبے کا حصہ بننا چاہتی ہے تو وہ اسے بھی پھر اسی منظور کردہ ٹیرف کے قریب قریب بولی یا پیشکش دینا ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ بہاولپور میں جب قائد اعظم سولر پارک کا منصوبہ بنا تو اس وقت حکومت نے 15 اور 16 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے ٹیرف کی منظوری دی تھی تاہم اب دنیا بھر میں اس کی لاگت بہت نیچے آگئی ہے جس کی وجہ سے ٹیرف میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور اب نیپرا نے بھی 5.23 سینٹ فی یونٹ ٹیرف کی منظوری دی ہے۔
توانائی کے منصوبوں میں سرمایہ کاری کے لیے نجی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کو کوسٹ پلس ٹیرف فارمولا کے تحت مراعات دی جاتی تھیں یعنی ان کی کل لاگت یا سرمایہ کاری پر تمام اخراجات اور سود کو شامل کرنے کے بعد اسے صارفین تک منتقل کردیا جاتا تھا جس سے سرمایہ کاروں کو ایک متعین شرح منافع حاصل ہوتا تھا۔
حالیہ دنوں میں توانائی کی پیداوار ضرورت سے زائد ہونے کے سبب انتظامیہ نے فیصلہ کیا ہے کہ اب اس شعبے میں ٹیرف کی بنیاد پر بولی کے ذریعے نئے منبصوبے لگانے کے لیے سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے۔سندھ سولر انرجی پروجیکٹ کے ڈائریکٹر محفوظ اے قاضی نے ایکسپریس ٹریبیون سے بات چیت میں بتایا کہ اس سلسلے میں 50 میگاواٹ کے شمسی توانائی کے پہلے منصوبے کے آکشن کی تیاری مکمل ہے۔
یہ منصوبہ منجھند کے مقام پر (ضلع جامشورو) میں واقع ہے ، جسے مسابقتی بولی کی بنیاد پر دیا جائے گا، اور یہ پیشکش آئندہ سال فروری یا مارچ میں طلب کی جائیں گی۔50 میگاواٹ کا یہ منصوبہ دراصل طے شدہ 400 میگاواٹ کے سولر پارک کا حصہ ہے جس میں 25 کروڑ ڈالر کی نئی سرمایہ کاری کی آمد متوقع ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ سندھ حکومت کا ارادہ ہے کہ 2021 تک تمام 440 میگاوٹ سولر پروجیکٹ کا آکشن کردیا جائے جس کے بعد 2023 اور 2024 تک وہاں سے بجلی کی پیداوار حاصل کرکے اسے نیشنل گرڈ سسٹم میں شامل کردیا جائے۔
محفوظ قاضی کا کہنا تھا کہ اس سلسلے میں عالمی بینک تعاون کرریا ہے اور چار مختلف سولر منصوبوں کے لیے عالمی بینک 10 کروڑ ڈالر دیئے گئے ہیں جس میں سولر پارک کے قیام کے لیے 3 کروڑ? ڈالر بھی شامل ہیں۔اس حوالے سے محکمہ توانائی سندھ نے 400 میگاواٹ توانائی کے منصوبے کے آکشن کیلیے ایک کنسورشیم کی خدمات حاصل کی ہیں جس میں عالمی اور مقامی ماہرین اور مشیر شامل ہیں۔
پروجیکٹ ڈائریکٹر محفوظ اے قاضی کا کہنا تھا کہ امید ہے کہ اس پروجیکٹ میں 25 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی کیونکہ اس سے قبل 50 میگاواٹ کے سولر پروجیکٹ میں پرانے ٹیرف کی بنیاد پر فارمولے کے تحت 3 کروڑ 80 لاکھ تک بیرونی سرمایہ کاری کی گئی تھی۔
محفوظ قاضی کا کہنا تھا کہ بولیاں موصول ہونے کی صورت میں سندھ حکومت کو سب سے کم ٹیرف کی بولی کو منظور کرنا ہوگا جس کے بعد وہ کسی اور سرمایہ کار سے کہہ سکتی ہے کہ وہ اگر 400 میگاواٹ کے اس سولر منصوبے کا حصہ بننا چاہتی ہے تو وہ اسے بھی پھر اسی منظور کردہ ٹیرف کے قریب قریب بولی یا پیشکش دینا ہوگی۔
انہوں نے بتایا کہ بہاولپور میں جب قائد اعظم سولر پارک کا منصوبہ بنا تو اس وقت حکومت نے 15 اور 16 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے ٹیرف کی منظوری دی تھی تاہم اب دنیا بھر میں اس کی لاگت بہت نیچے آگئی ہے جس کی وجہ سے ٹیرف میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور اب نیپرا نے بھی 5.23 سینٹ فی یونٹ ٹیرف کی منظوری دی ہے۔