حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایمرجنسی کرائسس لون لیا

قرضے کی شرح سود ایشیائی ترقیاتی بینک کی معمول کی2 فیصد شرح سود سے دگنی ہے، شہباز رانا


Monitoring Desk December 07, 2019
مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ پالیسی ریٹ کا بڑھانا ہے، ڈاکٹر عائشہ غوث، ’’دی ریویو‘‘ میں گفتگو (فوٹو: انٹرنیٹ)

QUETTA: یوں لگتا ہے کہ حکومت گھبرا گئی ہے اور اس گھبراہٹ میں وہ ایسا کام کر گئی ہے جس کی توفیق جنرل مشرف سمیت کسی ڈکٹیٹر اور نہ ہی کسی سول حکومت کوہوئی۔

ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو کے میزبان شہباز رانا نے انکشاف کیا ہے کہ حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب روپے کا ایمرجنسی کرائسس لون لیا ہے، یہ قرضہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں لیا، یہ قرضہ اس لیے لیا گیا ہے کیونکہ حکومت کی تمام تر کوشسوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح تک نہیں بڑھے جو حکومت اور انٹرنیشنل کریڈیٹرز کے لیے اطمینان بخش ہو، آج ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے جو پاکستان 7 سال میں واپس کرے گا اس کی شرح سود ایشیائی ترقیاتی بینک کی معمول کی دو فیصد شرح سود سے دگنی ہے۔

رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے مہنگائی کی وجوہات جاننے کے لیے بنائی جانے والی ذیلی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے ایکسپریس نیوز کے پروگرام دی ریویو میں شہباز رانا اور کامران یوسف سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ معاملہ قومی اہمیت کا تھا اس لیے کمیٹی نے بہت تیزی سے کام کر کے مہنگائی کی وجوہات کی رپورٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو پیش کیا۔

ہم نے بڑی محنت سے کام کیا، ان وجوہات اور ان کو ٹھیک کرنے کی تجاویز پر غور کرنا اور یہ جاننا ضروری تھا کہ حکومت ان میں سے کس تجویز پر عملدرآمد کرے گی، اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کے دو اجلاس ہو ئے ہیں مگر کمیٹی میں حکومت کے متعلقہ لوگوں کے موجود نہ ہونے سے ان وجوہات پر مزید غور نہیں ہو سکا، اس وقت اسٹیٹ بینک کا کردار سب سے اہم ہے، کمیٹی اجلاس میں گورنر سٹیٹ بینک کا موجود ہونا لازمی ہے کیونکہ وہی مالیاتی پالیسی کے کر تا دھرتا ہیں، مشیر خزانہ بھی اجلاس میں نہیں آئے۔

یہ پارلیمنٹ کی کمیٹی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں انھیں کمیٹی کے اجلاس میں ضرور آنا چاہیے، انھوں نے تحریری جواب ضرور دیا ہے مگر یہ اطمینان بخش بات نہیں کہ وہ ہم سے اس معاملے پر بات نہ کریں، ہم قائمہ کمیٹی خزانہ کے نئے چیئرمین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل کریں گے اور گورنر اسٹیٹ بینک اور مشیر خزانہ کو اجلاس میں آنے کا پابند کریں گے۔

انھوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ پالیسی ریٹ کا بڑھانا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے ملکی بینکوں سے حکومت جو قرضے لیتی ہے کی شرح سود بڑھ گئی، اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بھی بڑھ گیا، مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت شرح سود 13.7سے کم کر کے 8.5 فیصدکرے، مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ روپے کی قدر بہت زیادہ گھٹانا ہے۔

ہم نے اپنی کرنسی کو انڈر ویلیو کر دیا ہے، اس سے افراط زر بہت بڑھ گیا اور بیرونی قرضہ جات بھی بڑھ گئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 146روپے کر کے کوشش کر کے اس کو اس سطح پر مستحکم رکھا جائے، ہم نے بجلی اور گیس کی قمیتیں کم کرنے کی تجویز دی ہے، حکومت بجلی کی قیمت بڑھا کر گردشی قرضے کم کرنے کے بجائے دیگر طریقوں سے گردشی قرضے کم کرے، بجلی کے ترسیل کے نظام کو بہتر بنایا جائے تاکہ لائن لاسسز کم ہوں، ہر چیز عام آدمی پر ڈالنے کا شارٹ کٹ استعمال نہ کریں۔

انھوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت نے عام آدمی کے استعمال کی بے شمار بلواسطہ ٹیکس لگا دیے ہیں۔آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا تھا۔ انھیں بڑی مچھلیوں کو پکڑنا چاہیے ان سے براہ راست ٹیکس لیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں