سیاست ومعیشت تدبر کی منتظر
ضرورت ہر حال سیاسی اعصاب شکن کشیدگی اور بلاجواز محاذ آرائی سے فی الفور بچنے کی ہے۔
ملکی سیاسی ومعاشی امور کی گھمبیرتا کے اثرات قومی اسمبلی کے ایوان تک آگئے، حکومت اور اپوزیشن کے مابین تلخی بڑھتی جا رہی ہے اور احتسابی عمل میں تیزی اور ہمہ گیر پھیلاؤ کے باعث قومی ایشوز پر ہونے والی مفاہمت میں دراڑ کے خدشات پرچہ مگوئیاں ہونے لگی ہیں اور ہر دم تبدیلی اور تناؤ میں شدت کی نئی تاویل کرنے والی قوتوں نے سیاسی ماحول خاصا گرما دیا جس کے مضمرات ایک جھلک پارلیمان میں جمعہ کو نظر آئی، جس میں نہ صرف قومی اسمبلی کا اجلاس اپوزیشن کے احتجاج کی نذر ہوگیا بلکہ اسیر ارکان کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہ ہونے پر اپوزیشن نے واک آؤٹ کر دیا جب کہ کورم پورا نہ ہونے پر اجلاس ملتوی کر دیا گیا۔
قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت اجلاس میں مولانا عبدالواسع نے شمالی وزیرستان میں فوجیوں کی شہادت پر فاتحہ خوانی کرائی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہ کرنے کے خلاف واک آؤٹ کیا، حکومتی اتحادی اختر مینگل سمیت اپوزیشن کے تمام ارکان باہر چلے گئے، قاسم سوری نے وزیرمملکت علی محمد خان کو منانے کا ٹاسک دیا ، تاہم اپوزیشن نے اسیر ارکان کو لانے تک اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آئندہ چار ہفتوں میں پارلیمنٹ کے ذریعے تاریخ ساز قانون سازی کا عندیہ دیا جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم یا سادہ اکثریت سے قانون سازی کرکے سیاست دان سیاسی بلوغت کی طرف ایک مثبت قدم بڑھائیں گے تاہم حکومت کے حوالہ سے اپوزیشن کے تحفٖظات اور خدشات کثیر جہتی ہیں، بعض جمہوری قوتیں اس خطرہ کا اظہار کرتی ہیں کہ پورا اپوزیشنل سیٹ اپ پس دیوار زنداں جاتا نظرآ رہا ہے، سیاسی نظام پر سخت دباؤ ہے، مکالمہ کی اہمیت گھٹتی جا رہی ہے، حکومتی اتحادی بھی تذبذب میں ہیں، مسلم لیگ ن کے ذرائع شہباز شریف کی طرف سے بلائے جانے پر اپنے رہنماؤں کی لندن روانگی اور ممکنہ لندن پلان کے حوالے سے پر جوش مگر بے سمت ہیں، مہنگائی کے خلاف مسلم لیگ ن ملک بھر میں احتجاج کرے گی۔
دریں اثنا قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ایک تحریری جواب میں بتایا گیا کہ حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسں کی مد میں 206 ارب28 کروڑ روپے عوام کی جیبوں سے نکلوائے، جس میں ڈیزل پر فی لٹر 45 روپے75 پیسے، پٹرول پر35 روپے ، مٹی کے تیل پر20 روپے اور لائٹ ڈیزل پر14 روپے،98 پیسے فی لٹر ٹیکس لیا جا رہا ہے، پٹرولیم قیمتوں کو17 بار تبدیل کیا گیا6 بار اضافہ اور11 بار کمی کی گئی۔
اگلے روز بجلی 11پیسے یونٹ مہنگی کی گئی، یوں عوام پر12 ارب کا بوجھ پڑا، میڈیا کی ایک مالیاتی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع کی مد میں رواں مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں 614 ارب روپے خرچ کیے، یہ رقم ریونیو میں دہرے ہندسوں میں ہونے والے اضافے کے باوجود حکومت کی آمدنی سے بھی زیادہ ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کا حاصل کردہ ریونیو 646.4 ارب روپے تھا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں حکومت کے حاصل کردہ ملکی، غیر ملکی قرضوں کی تفصیل بھی جاری کی جا چکی تھی۔
معاشی ماہرین اور عوام اس بات پر حیران ہیں کہ جب حکومتی معاشی مسیحا معیشت کے استحکام کا دن رات چرچا اور تشہیر کرتے رہتے ہیں تو پھر بھی اتنے خطیر قرضوں کے بوجھ تلے قوم کو کیوں دبایا جا رہا ہے؟ ہنگامی قرضے کیوں لیے جا رہے ہیں۔
ادھر معاشی مبصرین کے مطابق حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب روپے کا ایمرجنسی کرائسس لون لیا ہے، یہ قرضہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں لیا، یوں لگتا ہے کہ حکومت گبھرا گئی ہے اور اس گبھراہٹ میں وہ ایسا کام کر گئی ہے جس کی توفیق کسی ڈکٹیٹر اور نہ ہی کسی سول حکومت کو ہوئی، بتایا جاتا ہے کہ یہ قرضہ اس لیے لیا گیا ہے کیونکہ حکومت کی تمام تر کوشسوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح تک نہیں بڑھے جو حکومت اور انٹرنیشنل کریڈیٹرز کے لیے اطمینان بخش ہو۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے جو پاکستان 7 سال میں واپس کرے گا، اس کی شرح سود ایشیائی ترقیاتی بینک کی معمول کی دو فیصد شرح سود سے دگنی ہے، رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے مہنگائی کی وجوہات جاننے کے لیے بنائی جانے والی ذیلی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ معاملہ قومی اہمیت کا تھا اس لیے کمیٹی نے بہت تیزی سے کام کر کے مہنگائی کی وجوہات کی جامع رپورٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو پیش کی۔
اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے مگر کمیٹی میں حکومت کے متعلقہ لوگوں کے موجود نہ ہونے سے ان وجوہات پر مزید غور نہیں ہو سکا، ان کے مطابق اس وقت اسٹیٹ بینک کا کردار سب سے اہم ہے، کمیٹی اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک کا موجود ہونا لازمی ہے کیونکہ وہی مالیاتی پالیسی کے کر تا دھرتا ہیں، مشیر خزانہ بھی اجلاس میں نہیںآئے، یہ پارلیمنٹ کی کمیٹی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں۔
انھیں کمیٹی کے اجلاس میں ضرور آنا چاہیے، انھوں نے تحریری جواب ضرور دیا ہے مگر یہ اطمینان بخش بات نہیں کہ وہ ہم سے اس معاملے پر بات نہ کریں، ہم قائمہ کمیٹی خزانہ کے نئے چیئرمین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل کریں گے اور گورنر اسٹیٹ بینک اور مشیر خزانہ کو اجلاس میں آنے کا پابند کریں گے، انھوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ پالیسی ریٹ کا بڑھانا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے ملکی بینکوں سے حکومت جو قرضے لیتی ہے کی شرح سود بڑھ گئی، اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بھی بڑھ گیا۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت شرح سود 13.7 سے کم کر کے 8.5 فیصدکرے، مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ روپے کی قدر بہت زیادہ گھٹانا ہے، ہم نے اپنی کرنسی کو انڈر ویلیو کر دیا ہے، اس سے افراط زر بہت بڑھ گیا اور بیرونی قرضہ جات بھی بڑھ گئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 146روپے کر کے کوشش کر کے اس کو اس سطح پر مستحکم رکھا جائے، انھوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت نے عام آدمی کے استعمال کی بے شمار بلواسطہ ٹیکس لگا دیئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا تھا۔ انھیں بڑی مچھلیوں کو پکڑنا چاہیے ان سے براہ راست ٹیکس لیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت نے انتہائی متنازعہ بی آر ٹی منصوبہ کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نیب اس کی تحقیقات مکمل کر چکا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا ہے، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخو شمائل احمد بٹ نے کیس تیار کر لیا ، جو آئندہ ہفتہ سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ادارے سے تحقیقات کرانے کا جواز نہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ایف آئی اے کو بی آرٹی منصوبہ کی تحقیقات 45 دن میں کرنے کا حکم دیا ہے، تفصیلی عدالتی فیصلے میں منصوبہ پر سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا کہ صوبہ بھر کی سڑکوں کی آئندہ ضروریات کے پیش نظر منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
ضرورت ہر حال سیاسی اعصاب شکن کشیدگی اور بلاجواز محاذ آرائی سے فی الفور بچنے کی ہے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز پلیز ! دور اندیشی سے کام لیں۔ تند و تیز اور سربھری ہواؤں کو ملکی سیاست کے اندوہ ناک فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ ہواؤں کا کیا بھروسہ! سیاست دان قوم کے دکھ درد میں کمی کا سامان کریں۔
قبل ازیں ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی زیر صدارت اجلاس میں مولانا عبدالواسع نے شمالی وزیرستان میں فوجیوں کی شہادت پر فاتحہ خوانی کرائی، مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ارکان نے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد نہ کرنے کے خلاف واک آؤٹ کیا، حکومتی اتحادی اختر مینگل سمیت اپوزیشن کے تمام ارکان باہر چلے گئے، قاسم سوری نے وزیرمملکت علی محمد خان کو منانے کا ٹاسک دیا ، تاہم اپوزیشن نے اسیر ارکان کو لانے تک اجلاس میں شرکت کرنے سے انکار کر دیا۔
حقیقت یہ ہے کہ آئندہ چار ہفتوں میں پارلیمنٹ کے ذریعے تاریخ ساز قانون سازی کا عندیہ دیا جا رہا ہے کہ آرمی ایکٹ میں ترمیم یا سادہ اکثریت سے قانون سازی کرکے سیاست دان سیاسی بلوغت کی طرف ایک مثبت قدم بڑھائیں گے تاہم حکومت کے حوالہ سے اپوزیشن کے تحفٖظات اور خدشات کثیر جہتی ہیں، بعض جمہوری قوتیں اس خطرہ کا اظہار کرتی ہیں کہ پورا اپوزیشنل سیٹ اپ پس دیوار زنداں جاتا نظرآ رہا ہے، سیاسی نظام پر سخت دباؤ ہے، مکالمہ کی اہمیت گھٹتی جا رہی ہے، حکومتی اتحادی بھی تذبذب میں ہیں، مسلم لیگ ن کے ذرائع شہباز شریف کی طرف سے بلائے جانے پر اپنے رہنماؤں کی لندن روانگی اور ممکنہ لندن پلان کے حوالے سے پر جوش مگر بے سمت ہیں، مہنگائی کے خلاف مسلم لیگ ن ملک بھر میں احتجاج کرے گی۔
دریں اثنا قومی اسمبلی کے حالیہ اجلاس میں ایک تحریری جواب میں بتایا گیا کہ حکومت نے ایک سال میں پٹرولیم مصنوعات پر ٹیکسں کی مد میں 206 ارب28 کروڑ روپے عوام کی جیبوں سے نکلوائے، جس میں ڈیزل پر فی لٹر 45 روپے75 پیسے، پٹرول پر35 روپے ، مٹی کے تیل پر20 روپے اور لائٹ ڈیزل پر14 روپے،98 پیسے فی لٹر ٹیکس لیا جا رہا ہے، پٹرولیم قیمتوں کو17 بار تبدیل کیا گیا6 بار اضافہ اور11 بار کمی کی گئی۔
اگلے روز بجلی 11پیسے یونٹ مہنگی کی گئی، یوں عوام پر12 ارب کا بوجھ پڑا، میڈیا کی ایک مالیاتی رپورٹ کے مطابق وفاقی حکومت نے قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع کی مد میں رواں مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں 614 ارب روپے خرچ کیے، یہ رقم ریونیو میں دہرے ہندسوں میں ہونے والے اضافے کے باوجود حکومت کی آمدنی سے بھی زیادہ ہے، رپورٹ میں کہا گیا کہ پہلی سہ ماہی میں ایف بی آر کا حاصل کردہ ریونیو 646.4 ارب روپے تھا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں حکومت کے حاصل کردہ ملکی، غیر ملکی قرضوں کی تفصیل بھی جاری کی جا چکی تھی۔
معاشی ماہرین اور عوام اس بات پر حیران ہیں کہ جب حکومتی معاشی مسیحا معیشت کے استحکام کا دن رات چرچا اور تشہیر کرتے رہتے ہیں تو پھر بھی اتنے خطیر قرضوں کے بوجھ تلے قوم کو کیوں دبایا جا رہا ہے؟ ہنگامی قرضے کیوں لیے جا رہے ہیں۔
ادھر معاشی مبصرین کے مطابق حکومت نے ایشیائی ترقیاتی بینک سے ایک ارب روپے کا ایمرجنسی کرائسس لون لیا ہے، یہ قرضہ پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی حکومت نے نہیں لیا، یوں لگتا ہے کہ حکومت گبھرا گئی ہے اور اس گبھراہٹ میں وہ ایسا کام کر گئی ہے جس کی توفیق کسی ڈکٹیٹر اور نہ ہی کسی سول حکومت کو ہوئی، بتایا جاتا ہے کہ یہ قرضہ اس لیے لیا گیا ہے کیونکہ حکومت کی تمام تر کوشسوں کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر اس سطح تک نہیں بڑھے جو حکومت اور انٹرنیشنل کریڈیٹرز کے لیے اطمینان بخش ہو۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک ارب ڈالر کا قرضہ منظور کیا ہے جو پاکستان 7 سال میں واپس کرے گا، اس کی شرح سود ایشیائی ترقیاتی بینک کی معمول کی دو فیصد شرح سود سے دگنی ہے، رکن قومی اسمبلی اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے مہنگائی کی وجوہات جاننے کے لیے بنائی جانے والی ذیلی کمیٹی کی سربراہ ڈاکٹر عائشہ غوث پاشا نے ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ معاملہ قومی اہمیت کا تھا اس لیے کمیٹی نے بہت تیزی سے کام کر کے مہنگائی کی وجوہات کی جامع رپورٹ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو پیش کی۔
اس حوالے سے قائمہ کمیٹی کے دو اجلاس ہوئے مگر کمیٹی میں حکومت کے متعلقہ لوگوں کے موجود نہ ہونے سے ان وجوہات پر مزید غور نہیں ہو سکا، ان کے مطابق اس وقت اسٹیٹ بینک کا کردار سب سے اہم ہے، کمیٹی اجلاس میں گورنر اسٹیٹ بینک کا موجود ہونا لازمی ہے کیونکہ وہی مالیاتی پالیسی کے کر تا دھرتا ہیں، مشیر خزانہ بھی اجلاس میں نہیںآئے، یہ پارلیمنٹ کی کمیٹی ہے،گورنر اسٹیٹ بینک پارلیمنٹ کو جواب دہ ہیں۔
انھیں کمیٹی کے اجلاس میں ضرور آنا چاہیے، انھوں نے تحریری جواب ضرور دیا ہے مگر یہ اطمینان بخش بات نہیں کہ وہ ہم سے اس معاملے پر بات نہ کریں، ہم قائمہ کمیٹی خزانہ کے نئے چیئرمین سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس معاملے کو ایجنڈے میں شامل کریں گے اور گورنر اسٹیٹ بینک اور مشیر خزانہ کو اجلاس میں آنے کا پابند کریں گے، انھوں نے کہا کہ مہنگائی بڑھنے کی ایک وجہ پالیسی ریٹ کا بڑھانا ہے، پالیسی ریٹ بڑھنے سے ملکی بینکوں سے حکومت جو قرضے لیتی ہے کی شرح سود بڑھ گئی، اس کے نتیجے میں بجٹ خسارہ بھی بڑھ گیا۔
مہنگائی پر قابو پانے کے لیے حکومت شرح سود 13.7 سے کم کر کے 8.5 فیصدکرے، مہنگائی کی دوسری بڑی وجہ روپے کی قدر بہت زیادہ گھٹانا ہے، ہم نے اپنی کرنسی کو انڈر ویلیو کر دیا ہے، اس سے افراط زر بہت بڑھ گیا اور بیرونی قرضہ جات بھی بڑھ گئے ہیں، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 146روپے کر کے کوشش کر کے اس کو اس سطح پر مستحکم رکھا جائے، انھوں نے کہا کہ بجٹ خسارہ کم کرنے کے لیے حکومت نے عام آدمی کے استعمال کی بے شمار بلواسطہ ٹیکس لگا دیئے ہیں۔ آئی ایم ایف نے یہ نہیں کہا تھا۔ انھیں بڑی مچھلیوں کو پکڑنا چاہیے ان سے براہ راست ٹیکس لیں۔
خیبر پختونخوا کی حکومت نے انتہائی متنازعہ بی آر ٹی منصوبہ کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نیب اس کی تحقیقات مکمل کر چکا ہے، سپریم کورٹ نے حکم امتناعی جاری کیا ہے، ایڈووکیٹ جنرل خیبر پختونخو شمائل احمد بٹ نے کیس تیار کر لیا ، جو آئندہ ہفتہ سپریم کورٹ میں دائر کیا جائے گا، ان کا کہنا ہے کہ کسی دوسرے ادارے سے تحقیقات کرانے کا جواز نہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں دو رکنی بنچ نے ایف آئی اے کو بی آرٹی منصوبہ کی تحقیقات 45 دن میں کرنے کا حکم دیا ہے، تفصیلی عدالتی فیصلے میں منصوبہ پر سنگین بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا ہے ۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان نے کہا کہ صوبہ بھر کی سڑکوں کی آئندہ ضروریات کے پیش نظر منصوبہ بندی کی جانی چاہیے۔
ضرورت ہر حال سیاسی اعصاب شکن کشیدگی اور بلاجواز محاذ آرائی سے فی الفور بچنے کی ہے، سیاسی اسٹیک ہولڈرز پلیز ! دور اندیشی سے کام لیں۔ تند و تیز اور سربھری ہواؤں کو ملکی سیاست کے اندوہ ناک فیصلے نہیں کرنے چاہئیں۔ ہواؤں کا کیا بھروسہ! سیاست دان قوم کے دکھ درد میں کمی کا سامان کریں۔