نیشنل ہائی وے ایم نائن لنک روڈ خستہ حال کروڑوں کا نقصان
سامان کی نقل وحمل میں تاخیر سے جہازوں اور ٹرمینلز کو لاکھوں ڈالر جرمانہ دینا پڑ رہا ہے
تاجربرادری نے نیشنل ہائی وے کوسپر ہائی وے ایم نائن موٹروے سے ملانے والی لنک روڈکی خستہ حالت پرتشویش کااظہارکرتے ہوئے کہا ہے کہ سپر ہائی وے ایم نائن موٹروے واحد راستہ ہے جو پورٹ قاسم کو ملک بھر میں صنعتوں کے ساتھ منسلک کرتا ہے لیکن اس کے ناقص انفرااسٹرکچر کی وجہ سے نہ صرف ٹرانسپورٹرز مشکلات سے دوچار ہیں بلکہ شہرکی صنعتیں متاثر ہورہی ہیں۔
کراچی چیمبرکے نمائندوں نے بتایاکہ مذکورہ18کلومیٹر طویل لنک سڑک کو پاکستان اسٹیل مل نے تعمیر کیا تھا بعد میں 2015میں اس روڈ کو سندھ حکومت کے ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ کو منتقل کردیا گیا تھا۔ چیمبر کے نمائندوں نے شکایت کی کہ لنک روڈ استعمال کرنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز اور صنعتیں حکومت کو بھاری ٹیکس ادا کررہی ہیں لیکن بدلے میں حکومت بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کررہی ۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹیل کی صنعت اپنے خام مال کی نقل و حمل کیلیے 100فیصد اسی سڑک پر انحصار کرتی ہے۔اس طرح سیمنٹ، بجلی، ٹیکسٹائل اور دیگر کئی صنعتوں کی درآمدات اور برآمدات کا دارومداربھی اسی سڑک پر ہے۔
ایکسپریس کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق نوری آباد سائٹ اورساؤتھ ریجن سے پورٹ قاسم آنے جانے کیلیے بھاری ٹریفک کو ملیر ندی پر قائم پل پر سے گزرنا پڑتا ہے لیکن پل کی خستی حالی کے سبب یہ بھاری ٹریفک پل سے متصل کازوے سے گزرتا ہے۔کاز وے کی ناہمواری اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام رہنے کے نتیجے میں نہ صرف سنگین نوعیت کے کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں بلکہ برآمدات کیلیے پورٹ قاسم منتقل کیا جانے والا اربوں روپے مالیت کا سامان بھی تاخیر سے پہنچتا ہے جس کاسیمنٹ اور ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں کوبھاری ڈیمریجز کی صورت میں برداشت کرناپڑتاہے۔
مذکورہ سڑک کی خستہ خالی کا سب سے زیادہ نقصان ساؤتھ ریجن کی صنعتوں کو ہورہا ہے کیونکہ ان کے سامان کی ٹرانسپورٹیشن کیلیے معمول کے 4یا 5گھنٹوں کے بجائے ایک سے دو دن لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے بالائی علاقوں کی صنعتوں کے مال کی ترسیل میں 2سے 3دن لگتے تھے لیکن ٹریفک جام کی وجہ سے 5سے 6دن لگ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کارگو جہازوں پر بروقت سامان نہ پہنچنے کی وجہ سے مقامی صنعتوں کو جہازوں اور ٹرمینلز کو لاکھوں ڈالر جرمانہ دینا پڑ رہا ہے۔
اس اہم مسئلے کو حل کرانے کیلئے ایف پی سی سی آئی، کے سی سی آئی سمیت ٹرانسپورٹرز اور کاروباری صنعتوں نے قومی سطح کے معاشی تباہی کے حل کیلیے مقامی بلدیاتی نمائندوں سے رابطہ کیااورکمشنر کراچی کی جانب سے اجلاس طلب کیاگیا۔
کے سی سی آئی کے نمائندوں نے مقامی صنعتوں کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کے نقصان پر قابو پانے کیلیے حکومت سے لنک روڈ کی فوری مرمت اور بحالی پر زوردیا کیونکہ پورٹ قاسم سے درآمدات و برآمدات جاری رکھنے کیلیے اس روڈ کا پختہ ہونا ناگزیر ہے۔
دوسری طرف سپرنٹنڈنٹ انجنیئر ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ لنک روڈ کے 18کلو میٹر میں سے 11کلو میٹر روڈ پختہ ہوگئی ہے اور باقی 7کلومیٹر بھی اسی مالی سال کے دوران مکمل کرلی جائے گی۔ انہوں نے ایک مہینے کے اندر ایک کلومیٹر روڈ کی مرمت اور سڑک پر پلوں کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا۔
کراچی چیمبرکے نمائندوں نے بتایاکہ مذکورہ18کلومیٹر طویل لنک سڑک کو پاکستان اسٹیل مل نے تعمیر کیا تھا بعد میں 2015میں اس روڈ کو سندھ حکومت کے ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ کو منتقل کردیا گیا تھا۔ چیمبر کے نمائندوں نے شکایت کی کہ لنک روڈ استعمال کرنے والے تمام اسٹیک ہولڈرز اور صنعتیں حکومت کو بھاری ٹیکس ادا کررہی ہیں لیکن بدلے میں حکومت بنیادی سہولتیں بھی فراہم نہیں کررہی ۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹیل کی صنعت اپنے خام مال کی نقل و حمل کیلیے 100فیصد اسی سڑک پر انحصار کرتی ہے۔اس طرح سیمنٹ، بجلی، ٹیکسٹائل اور دیگر کئی صنعتوں کی درآمدات اور برآمدات کا دارومداربھی اسی سڑک پر ہے۔
ایکسپریس کو حاصل ہونے والی دستاویزات کے مطابق نوری آباد سائٹ اورساؤتھ ریجن سے پورٹ قاسم آنے جانے کیلیے بھاری ٹریفک کو ملیر ندی پر قائم پل پر سے گزرنا پڑتا ہے لیکن پل کی خستی حالی کے سبب یہ بھاری ٹریفک پل سے متصل کازوے سے گزرتا ہے۔کاز وے کی ناہمواری اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام رہنے کے نتیجے میں نہ صرف سنگین نوعیت کے کئی حادثات رونما ہوچکے ہیں بلکہ برآمدات کیلیے پورٹ قاسم منتقل کیا جانے والا اربوں روپے مالیت کا سامان بھی تاخیر سے پہنچتا ہے جس کاسیمنٹ اور ٹیکسٹائل جیسی صنعتوں کوبھاری ڈیمریجز کی صورت میں برداشت کرناپڑتاہے۔
مذکورہ سڑک کی خستہ خالی کا سب سے زیادہ نقصان ساؤتھ ریجن کی صنعتوں کو ہورہا ہے کیونکہ ان کے سامان کی ٹرانسپورٹیشن کیلیے معمول کے 4یا 5گھنٹوں کے بجائے ایک سے دو دن لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح ملک کے بالائی علاقوں کی صنعتوں کے مال کی ترسیل میں 2سے 3دن لگتے تھے لیکن ٹریفک جام کی وجہ سے 5سے 6دن لگ جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے کارگو جہازوں پر بروقت سامان نہ پہنچنے کی وجہ سے مقامی صنعتوں کو جہازوں اور ٹرمینلز کو لاکھوں ڈالر جرمانہ دینا پڑ رہا ہے۔
اس اہم مسئلے کو حل کرانے کیلئے ایف پی سی سی آئی، کے سی سی آئی سمیت ٹرانسپورٹرز اور کاروباری صنعتوں نے قومی سطح کے معاشی تباہی کے حل کیلیے مقامی بلدیاتی نمائندوں سے رابطہ کیااورکمشنر کراچی کی جانب سے اجلاس طلب کیاگیا۔
کے سی سی آئی کے نمائندوں نے مقامی صنعتوں کو روزانہ کی بنیاد پر کروڑوں روپے کے نقصان پر قابو پانے کیلیے حکومت سے لنک روڈ کی فوری مرمت اور بحالی پر زوردیا کیونکہ پورٹ قاسم سے درآمدات و برآمدات جاری رکھنے کیلیے اس روڈ کا پختہ ہونا ناگزیر ہے۔
دوسری طرف سپرنٹنڈنٹ انجنیئر ورکس اینڈ سروسز ڈپارٹمنٹ نے دعویٰ کیا ہے کہ لنک روڈ کے 18کلو میٹر میں سے 11کلو میٹر روڈ پختہ ہوگئی ہے اور باقی 7کلومیٹر بھی اسی مالی سال کے دوران مکمل کرلی جائے گی۔ انہوں نے ایک مہینے کے اندر ایک کلومیٹر روڈ کی مرمت اور سڑک پر پلوں کی تعمیر کا بھی وعدہ کیا۔