ڈرون حملے کا سفاکانہ پہلو
امریکی ڈرون حملے سے زخمی ہونے والی ایک پاکستانی بچی کی المناک داستان نے سپر پاور امریکا کے کانگریس کے...
امریکی ڈرون حملے سے زخمی ہونے والی ایک پاکستانی بچی کی المناک داستان نے سپر پاور امریکا کے کانگریس کے پانچ اراکین کو افسردہ کر دیا اور ترجمان روداد سناتے ہوئے اشک بار ہو گئیں، ڈرون حملوں سے کتنے معصوم اور بے گناہ انسانوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہوئے اور کتنے ہی جیتے جی زندہ درگور ہو گئے یہ ایک ایسا المیہ ہے جسے انسانیت کے ناتے فوری طور پر حل ہونا چاہیے۔ متاثرہ بچی نے بتایا کہ جس دن اس کی دادی اس حملے میں جاں بحق وہ اور اس کا بھائی زخمی ہوئے ہیں، اس دن کے بعد سے انھیں صاف آسمان پسند نہیں کیونکہ جب آسمان صاف نہ ہو ڈرون حملے نہیں ہوتے۔
قبائلی بچی کے والد نے امریکی صدر سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈرون حملے بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کسی بھی ہیبت ناک سانحے کے نتیجے میں بچوں کی نفسیات پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، انجانے خوف کا شکار پھول جیسے بچوں کھلے آسمان تلے نکلنے اور کھیلنے کودنے کے فطری حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ دراصل ایجادات اور ٹیکنالوجی کا درست استعمال جہاں انسانی زندگی کو سہل بناتا ہے وہیں ان کا منفی استعمال زندگی کا حق چھین بھی لیتا ہے۔ امریکا کے بقول وہ ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کر کے ختم کرتا ہے اور اس طرح کم سے کم انسانی جانی و مالی نقصان ہوتا ہے اور یہ حملے انتہائی اہم خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد کیے جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں ان حملوں کے باعث پر امن انسانی جانوں کا ضیاع ایک المیے کا روپ دھار چکا ہے۔ پاکستان میں برسرپیکار شدت پسند طالبان اور ان کے حمایتی خودکش حملوں کا ایک جواز ڈرون حملوں کا ردعمل بتاتے ہیں، تازہ ترین مطالبہ بھی یہی ہے کہ امن مذاکرات کامیاب کرنے ہیں تو ڈرون حملے رکوائے جائیں۔ اب تو شدت سے عالمی برادری میں یہ احساس جڑ پکڑ رہا ہے کہ ڈرون حملوں کا استعمال انتہائی غیر معمولی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ اس طرح نہ صرف پاکستان بلکہ ہر اس ملک کی قومی بقا اور سلامتی پر سوال اٹھتے ہیں جہاں پر یہ حملے ہوتے ہیں۔ امریکا ڈرون حملے بند کر کے انسانیت پر احسان کر سکتا ہے، جو کرنا بھی چاہیے۔
قبائلی بچی کے والد نے امریکی صدر سے اپیل کی ہے کہ وہ ڈرون حملے بند کروانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ کسی بھی ہیبت ناک سانحے کے نتیجے میں بچوں کی نفسیات پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں، انجانے خوف کا شکار پھول جیسے بچوں کھلے آسمان تلے نکلنے اور کھیلنے کودنے کے فطری حق سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ دراصل ایجادات اور ٹیکنالوجی کا درست استعمال جہاں انسانی زندگی کو سہل بناتا ہے وہیں ان کا منفی استعمال زندگی کا حق چھین بھی لیتا ہے۔ امریکا کے بقول وہ ڈرون حملوں کے ذریعے دہشت گردوں کو ٹارگٹ کر کے ختم کرتا ہے اور اس طرح کم سے کم انسانی جانی و مالی نقصان ہوتا ہے اور یہ حملے انتہائی اہم خفیہ اطلاعات ملنے کے بعد کیے جاتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں ان حملوں کے باعث پر امن انسانی جانوں کا ضیاع ایک المیے کا روپ دھار چکا ہے۔ پاکستان میں برسرپیکار شدت پسند طالبان اور ان کے حمایتی خودکش حملوں کا ایک جواز ڈرون حملوں کا ردعمل بتاتے ہیں، تازہ ترین مطالبہ بھی یہی ہے کہ امن مذاکرات کامیاب کرنے ہیں تو ڈرون حملے رکوائے جائیں۔ اب تو شدت سے عالمی برادری میں یہ احساس جڑ پکڑ رہا ہے کہ ڈرون حملوں کا استعمال انتہائی غیر معمولی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ کیونکہ اس طرح نہ صرف پاکستان بلکہ ہر اس ملک کی قومی بقا اور سلامتی پر سوال اٹھتے ہیں جہاں پر یہ حملے ہوتے ہیں۔ امریکا ڈرون حملے بند کر کے انسانیت پر احسان کر سکتا ہے، جو کرنا بھی چاہیے۔