کافی کی آفر اور وہ کافر
کافی آفر … سیدھے سادے الفاظ میں نہ ان کے بولنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے نہ لکھنے میں نہ پڑھنے میں اور...
کافی آفر ... سیدھے سادے الفاظ میں نہ ان کے بولنے میں کوئی دشواری پیش آتی ہے نہ لکھنے میں نہ پڑھنے میں اور نہ ہی سننے میں ... البتہ ان الفاظ کی ترتیب میں کچھ گڑ بڑ کی جائے تو وہ اور بات ہے مثلاً ایک سرے سے ''کا'' لے کر دوسرے سرے کے ''فر'' سے جوڑا جائے تو ''کافر'' کا لفظ بن جاتا ہے اور باقی مال مسالے سے ''فیا'' بن جاتا ہے جسے کچھ لوگ شاید ''پیا'' بھی پڑھیں گے، یوں ''کافی پیا'' بھی اس سے تعبیر کیا جا سکتا ہے جو اکثر ہندی گانوں میں مستعمل ہوتا ہے ... جیسے میرا پیا گھر آیا او رام جی ... جہاں آج کل ہماری ایک ''کافر ادا'' حسینہ فر فر کر کے بے چارے ایک سیاستدان پر الزامات لگا رہی ہے؎
یاد کر وہ دن کہ ہر ایک حلقہ تیرے دام کا
انتظار صید میں ایک دیدہ بے خواب تھا
جناب شیخ جی اکثر یوں بھی ہوتا ہے اور یوں بھی ... جس شدت سے اس کافر حسینہ کی فرفراہٹ کی تردید کر چکے ہیں اس سے ہمیں کچھ شبہ سا ہے کہ کافی میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری کافی ہی کالی ہے ورنہ کسی کو کافی آفر کرنا کچھ کفر تو نہیں کہ آدم کافر ہو جانے کے ڈر سے اس کی تردید کرتا پھرے، یہ تو بڑی اچھی بات اور مہمان نوازی ہے خوش خلقی ہے قدر دانی ہے بندہ پروری ہے دیالو پن ہے ویسے بھی ؎
سیکھے ہیں مہ رخوں کے لیے ہم مصوری
تقریب کچھ تو بہر ملاقات چاہیے
بخدا اگر وہ یہ الزام ہم پر لگاتی بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایسا الزام لگاتی جو دست اندازی پولیس میں آتا ہو تو بھی ہم خوش ہوتے بلکہ اتراتے ہوئے پھرتے کہ چلو اس بہانے کوئی نہ کوئی تعلق تو بن ہی جاتا ہے ؎
قتل ہوں گے ترے ہاتھوں سے خوشی اس کی ہے
آج اترائے ہوئے پھرتے ہیں مرنے والے
کافی تو کافی ہوتا ہے کوئی آنکھ تو نہیں کہ جس کا مارنا بری بات ہے حالاں کہ کافی کی پیالی اور آنکھ تو کسی کی ملکیت ہے نہیں کہ اس کے پلانے پر اور اس کے مارنے پر اتنا برا مانا جائے، لیکن پھر بھی عالم رواج کے مطابق آنکھ مارنا معیوب سمجھا جاتا ہے کافی پلانا تو کسی بھی لحاظ سے کوئی بات نہیں چاہے کوئی بھی آفر کرے اور کسی کو بھی آفر کرے ؎
ہم ایسے اہل نظر کو ثبوت حق کے لیے
اگر رسول نہ ہوتے تو صبح ''کافی'' تھی
ویسے اس موقع پر اچانک ہمیں خیال آیا کہ کہیں ہم ہی تو لغزش نہیں کھا رہے ہیں کیوں کہ ''کافی'' صرف ایک تو نہیں ہوتی ایک کافی تو وہ ہے جو پلائی جاتی ہے لیکن دوسری کافی وہ بھی ہوتی ہے جو پینے کے بعد زبان پر آتی ہے، غلام فرید کی ایسی کافیاں بہت مشہور ہیں جو انھوں نے حق کا پیالہ پینے کے بعد کہی ہیں... اسی پیالی سے ملتی جلتی پیالی پڑوسی ملک میں رائج ہے جہاں آج کل وہ کافر ادا حسینہ فر فرا رہی ہے کہ
جے جے شیو شنکر ... کانٹا لگے نہ کنکر
کہ پیالہ تیرے نام کا پیا
غالب گمان یہ ہے کہ کافر ادا حسینہ نے کافی کی پیالی کو غلط فہمی کی بناء پر وہ پیالہ سمجھا ہو جو کسی کے نام کا پیا جاتا ہے، مطلب ہمارا یہ ہے کہ اسے غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے ممکن ہے ہمارے سیاستدان شیخ صاحب کا ارادہ ... (اگر انھوں نے واقعی کافی آفر کی ہو) بالکل ہی نیک رہا ہو یا یوں کہئے کہ شیخ صاحب کی نیت تو صاف رہی ہو گی لیکن کافر ادا حسینہ نے اپنی کھوئی نیت سے کچھ اور سمجھا ہو ؎
ہم دعا لکھتے رہے اور وہ دغا پڑھتے رہے
ایک ''پیالی'' نے ہمیں محرم سے ''مجرم'' بنا دیا
ویسے یہ بات ابھی سے صاف کر دیں کہ شیخ صاحب بالکل ٹھیک کہہ رہے ہیں انھوں نے اس کافر حسینہ کو آفر، مطلب ہے کافی کی آفر بالکل بھی نہیں کی ہو گی ورنہ دنیا جانتی ہے کہ اس کافر ادا حسینہ کا کریکٹر ایسا ہے کہ خود ہی مواقع پیدا کرتی ہے تو ایسے موقع کو کیوں ہاتھ سے جانے دیتی۔ کیوں کہ شیخ صاحب بہرحال ایک اہم شخصیت تو ہیں ایسا ممکن ہی نہیں کہ انھوں نے کافی آفر کی ہو اور وہ سر کے بل نہ آئی ہو، ویسے بھی جھوٹی کہانیاں بنانا، پیدا کرنا اور مشتہر کرنا اس کافر ادا حسینہ کا فیورٹ مشغلہ ہے۔ ہم چاہتے تھے کہ اسے یہ شعر پیش کریں کہ ؎
اتنی نہ بڑھا پا کئ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
لیکن پھر خیال آیا کہ وہ اس شعر کا مطلب کس سے پوچھے گی کیوں کہ وہ جہاں ہے اور جیسی ہے وہاں ''دامن اور بند قبا'' تو کیا گریبان اور پیرہن تک ہی نہیں پایا جاتا اور خاص طور پر موصوفہ تو جاتے وقت اپنا کپڑوں کا سوٹ کیس یہاں گھر ہی میں بھول گئی تھی پھر کہاں کا دامن اور کہاں کا بند قبا ؎
دیوانگی میں دوش پہ زنار بھی نہیں
یعنی ہماری جیب میں اک تار بھی نہیں
ویسے یہ بڑا ہی خطرناک رجحان ہے اگر اس کافر ادا حسینہ کا شروع کیا ہوا پبلسٹی کا یہ حربہ کام کر گیا تو پھر پاکستان کے کسی بھی لیڈر کی خیر نہیں خاص طور پر یہ بلا تو بلاؤں کی بلا ہے...کل کوکسی مذہبی رہنما پر چائے کی آفر کا دعویٰ کر سکتی ہے، جناب علامہ پر کنٹینر میں آنے کی آفر تھوپ سکتی ہے، حکمرانوں پر ایوان حکومت میں آنے کی آفر کا تذکرہ کر سکتی ہے، دوسروں کی تو ہمیں کچھ زیادہ فکر نہیں لیکن ہمارے ممدوح مولانا تو پہلی بلا سے چھٹکارا نہیں پا رہے ہیں جو گھوم پھر کر کسی نہ کسی طرح ان سے پہلو لڑانے کو بے تاب رہتی ہے
چھیڑ خوباں سے چلی جائے اسد
گر نہیں وصل تو حسرت ہی سہی
ہمیں تو پورا یقین ہے کہ واقعی شیخ صاحب نے کافر کو کافی آفر نہیں کی ہو گی لیکن انھیں اس طرح تردید کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہے کیوں کہ ایک دنیا جانتی ہے کہ اس قسم کی کافرائیں مشہوری کے لیے کیا کچھ نہیں کرتیں اور شیخ صاحب نے تردید کر کے ان کی خواہش پوری کر دی، دیکھئے اب انھوں نے تردید، اخباروں میں ذکر آگیا لوگ چرچا کریں، اور بات سے بات نکل کر ان کی ''جوانی'' تک آجائے گی لوگ ''ڈال'' کو الٹیں گے پلٹیں گے کالا الگ کریں گے اور پیلا الگ، گویا ؎
بات نکلی ہے تو پھر دور تلک جائے گی
جس میں نقصان صرف شیخ صاحب کا ہو گا کیوں کہ وہ کم بخت تو چھری بلکہ چھپن چھری ہے اور زیادہ تیز ہو گی اور بے چارا خربوزہ کٹتا چلا جائے گا، چاہے اوپر ہو یا نیچے، ویسے ایک بات بڑی دل چسپ ہے دونوں ہی کنوارے بھی ہیں نٹ کھٹ بھی ہیں اور اپنے اپنے فیلڈ میں اچھے خاصے مشہور بھی ہیں چناں چہ اس ''وشے'' میں بھی سوچا جا سکتا ہے کہ ... خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے ''کنوارے'' دو۔ آج تک صرف سنا ہی سنا تھا کہ چائے کی پیالی میں طوفان اٹھایا جا سکتا ہے اب دیکھ بھی لیا کہ بے ضرر، معصوم اور بھولی بھالی، کافی کی پیالی میں کچھ نہ کچھ تو کر ہی سکتی ہے گویا کافی کی پیالی نہیں ''نگاہ'' تھی کہ
دل سے تری نگاہ جگر تک اتر گئی
دونوں کو اک ادا میں رضامند کر گئی