مغربی تہذیب کے تعصبات اور مسلمان
برطانیہ کی عدالت نے 25 اکتوبر 2013ء بروز جمعہ پاولو لیپ شائن نامی ایک شخص کو چالیس برس کی قید کا...
برطانیہ کی عدالت نے 25 اکتوبر 2013ء بروز جمعہ پاولو لیپ شائن نامی ایک شخص کو چالیس برس کی قید کا حکم دیا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے برطانیہ کے تین مختلف شہروں یعنی والسال، ولور ہینپٹن اور ٹپٹن میں واقع تین مساجد کے احاطوں میں بم نصب کیے تھے اور تحقیق کے بعد یہ بھی انکشاف ہوا کہ مجرم بم بنانے کا ماہر تھا اور اس کے گھر سے مزید تین بموں کا مواد نکلا۔ اس کے علاوہ اس انتہاء پسند شخص پر یہ الزام تھا کہ برمنگھم کے ایک علاقے اسمال ہیتھ میں ایک بیاسی سالہ بزرگ کی پشت پر اس وقت تین وار کیے جب وہ عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے گھر کی طرف جا رہا تھے۔ اسسٹنٹ پولیس چیف کا کہنا ہے کہ لیپ شائن کے گھر سے حاصل کیے گئے مواد سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ مجرم ''دائیں بازو کی قدامت پسندانہ سوچ'' کا حامل تھا۔
برطانوی اداروں کی تحقیق سے یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ اس کے کمپیوٹر سے حاصل شدہ مواد سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مجرم ''گوروں کی برتری'' کی آئیڈیالوجی پر یقین رکھتا تھا۔ تاہم برطانوی اداروں کی اس تحقیق سے کئی سوالات بھی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں: اس کے ذہن میں ''برتری'' کے احساس کو صرف مسلمانوں کے حوالے ہی سے کیوں دیکھا جا رہا ہے؟ ''برتری'' کے خیال کے تحت صرف مسلمانوں کی مساجد کو ہی دہشت گردی کا نشانہ بنانا کیوں ضروری تھا؟ کیا دنیا میں دیگر اقوام نہیں رہتیں؟ حیرت اس بات پر ہوئی کہ برطانیہ جیسے شہر میں ایک شخص تین مساجد کے احاطوں میں بم بھی نصب کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے گھر سے بھی بم تیار کرنے والا مواد دریافت ہوتا ہے ، مگر کوئی بھی شخص اسے ''دہشت گرد'' کہنے کو تیار نہیں ہے، نہ ہی ذرایع ابلاغ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ''دہشت گرد'' کس مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔
11 ستمبر کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ دہشت گرد کی اصطلاح صرف مسلمانوں کے لیے ہی مخصوص کر دی گئی ہے۔ مغربی ممالک میں جب کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو مسلمان خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ دہشت گردی کرنے والا کہیں مسلمان ہی نہ نکل آئے! کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد مسلمانوں کو وسیع سطح پر ریاستی و عوامی دہشت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برطانیہ کے معتبر رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینلز یہ یاد دہانی کرانا کبھی نہیں بھولتے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا ''مسلمان'' ہے۔ مسلمانوں کے برعکس کوئی مسیحی یا یہودی اپنی مذہبی آئیڈیالوجی سے تحریک حاصل کر کے مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کا مجرم قرار پائے یا مسلمانوں کے قبرستانوں کو مسمار کرے اور حجاب اوڑھنے والی کم سن مسلمان بچیوں پر وحشیانہ حملے کرے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ ایک ''مسیحی دہشت گرد'' یا ایک ''یہودی دہشت گرد'' جرائم کا ارتکاب کرتا ہوا پکڑا گیا۔ جب کوئی مسیحی یا یہودی مسلمانوں کے قبرستان کو مسمار کرے یا مساجد میں بم نصب کرے تو اسے یا تو ''نسل پرست'' کہہ کر بات کو ٹال دیا جاتا ہے یا پھر دائیں بازو کی رجعتی سیاست سے اس کا تعلق جوڑ دیا جاتا ہے۔
11ستمبر2011ء کے امریکی حملوں کے بعد مسلمانوں سے متعلق مغربی سیاستدانوں، ذرایع ابلاغ اور مقامی اتھاریٹیز کا رویہ انتہائی منفی نوعیت کا رہا ہے۔ نائن الیون امریکا میں ہوا، جس میں تین ہزار لوگ مارے گئے، مگر اس کے بعد کم و بیش تمام مغربی ممالک میں مسلمانوں پر گھنائونی نوعیت کے حملے کیے گئے۔ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا، حتیٰ کہ بعض سکھوں کو داڑھی کی وجہ سے مسلمان سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسلمانوں کی رہائشی اور کاروباری املاک کو آگ لگائی گئی، مساجد پر حملے کیے گئے ، قبرستانوں کو مسمار کیا گیا، حاملہ عورتوں پر حملے کیے گئے، معصوم مسلمان لڑکیوں کے حجاب نوچے گئے، اسلامی لٹریچر کی دکانوں کو بند کر دیا گیا، اسکولوں میں مسلمان بچوں کو انتہائی نسل پرستانہ اور مذہبی طور پر انتہا پسندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کے ساتھ تو یہ سلوک کم و بیش تمام ''مہذب ممالک'' میں روا رکھا گیا، لیکن صرف امریکا میں 11 ستمبر کے بعد مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں 1600 گنا اضافہ ہوا۔ Lory Peek نے 2011ء میں اپنی کتاب "Behind the Backlash" شایع کی، جس میں مسلمانوں کے متعلق اہم انکشافات کا احوال قلمبند کیا ۔ لوری پیک نے 11 ستمبر کے بعد مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو "Second Disaster" سے تعبیر کیا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 11 ستمبر تو امریکا میں ہوا تھا، اور جسے امریکا اور مغرب کے اہم ترین فلسفی اور تجزیہ کار امریکی پالیسیوں کا رد عمل قرار دے چکے ہیں، تو پھر برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ''اعتدال پسند'' اور ''مہذب اقوام'' کو مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان 2005ء میں دکھائی دینے والا وہ منظر کیسے فراموش کر سکتے ہیں جب سیکڑوں کی تعداد میں پولیس آفیسرز برمنگھم کی گلیوں میں صرف اس لیے نظر آئے کہ ''مسیحی اور یہودی دہشت گرد'' مسلمانوں کی قبروں کو مسمار کر رہے تھے۔ برمنگھم کے علاوہ جنوبی مانچسٹر میں واقع مسلمانوں کے ایک قبرستان پر جارحیت کی گئی جس کے نتیجے میں 20 قبریں تباہ ہوئیں۔ یہی نہیں، بلکہ رواں برس 23 جون کو ویلز میں مسلمانوں کی قبروں کو ایک بار پھر مسمار کیا گیا۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے قبرستان پر حملے تو اب ایک معمول بن چکا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے خلاف جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2009ء اپریل کے بعد مسلمانوں کے خلاف 762 جرائم کا ارتکاب کیا گیا، جب کہ2010ء میں 333 جرائم منظر عام پر آئے۔
برطانیہ کی ''اسلامی کونسل'' اور مسلمان رہنمائوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تعصب اور ان کے ساتھ حد درجے کے امتیازی سلوک سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کھل کر کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یورپی یونین کے کل 28 ممالک میں سے صرف 6 ممالک مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں، جب کہ باقی ''مہذب ممالک'' نے ایک مستقل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس کے پاس اعداد و شمار تو موجود ہوتے ہیں مگر 2012ء میں پہلی بار مذہبی نوعیت کے جرائم کے اعداد و شمار کو منظر عام پر لانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ 2012ء میں شایع ہونے والی ہوم آفس کی رپورٹ ''مہذب اقوام'' پر ایک کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئی ہے۔ صبر و تحمل، برداشت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے ملک میں 2009ء سے 2011ء تک سولہ سال سے زیادہ عمر کے مسلمانوں کے خلاف 2,167 جرائم کا ارتکاب ہوا۔ برطانوی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والی ایک اہم تنظیم MAMA نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں مسلمانوں کے خلاف جو 632 جرائم سامنے آئے ہیں ان میں 58 فیصد عورتوں کے خلاف تھے۔
اگر ہم برطانیہ سے نکل کر فرانس کا رخ کریں تو ''مہذب اقوام'' کی انتہائی وحشیانہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔ فرانس میں بھی مساجد پر حملے اور قبرستانوں کی تباہی معمول کے واقعات ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر جرائم کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2010ء کے مقابلے میں 2011ء میں مسلمانوں کے خلاف 34 فیصد جرائم کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ انسانی حقوق سے متعلق قومی ادارے کا کہنا ہے کہ 2012ء میں نسل پرستانہ حملوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
فرانس کی ''نیشنل فرنٹ'' ہو یا برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف سر عام نعرے بلند کرنے والی '' برٹش نیشنل پارٹی'' اور ''انگلش ڈیفنس لیگ'' جیسی انتہا پسند تنظیمیں ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ''انگلش ڈیفنس لیگ'' کے بارے میں سخت زبان محض مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کی تھی۔ ان تنظیموں کی پشت میں بھی خفیہ ہاتھ موجود ہیں، جن کا مقصد ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری کو برقرار رکھنا ہے، اس کے لیے کمزور ممالک کے وسائل اور منڈیوں پر قبضے کرنا ناگزیر ہے۔ مغربی خفیہ ایجنسیاں یہ نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نظریاتی خلیج کو کم کیا جائے، بالخصوص اس وقت جب امریکا اور مغربی سامراج نے ''تیسری دنیا'' کے ممالک کے خلاف یلغار بھی کر رکھی ہے اور تأثر یہ قائم کر رہے ہیں کہ حقیقی جنگ ''دہشت گردی'' کے خلاف ہے، اور دہشت گرد ان کے نزدیک صرف مسلمان ہی ہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اس قسم کی نظریاتی خلیج کو گہرا کرنا سامراجی آئیڈیالوجی کا حصہ ہے، جس کو پروان چڑھانا اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے لازمی ہے۔ اگر نفرت اور تعصب کم ہو گیا تو اپنے حقوق کی خاطر امریکی و مغربی عوام کا اپنے ممالک کے حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا یقینی ہے۔ لہذا جب تک امریکی و مغربی سامراج ''تیسری دنیا'' میں اپنے معاشی مقاصد کو حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تعصب کی ایک خاص سطح کا موجود رہے گی۔ برطانیہ کی انتہا پسند تنظیموں سے اسی لیے چند ہفتوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے کرائے جاتے ہیں، جس سے نئی نسلوں کے اذہان میں بھی نسل پرستانہ اور انتہا پسندانہ مسیحیت اور یہودیت کا ارتقا جاری و ساری رہتا ہے۔
برطانوی اداروں کی تحقیق سے یہ حقائق بھی سامنے آئے ہیں کہ اس کے کمپیوٹر سے حاصل شدہ مواد سے یہ ثابت ہو رہا ہے کہ مجرم ''گوروں کی برتری'' کی آئیڈیالوجی پر یقین رکھتا تھا۔ تاہم برطانوی اداروں کی اس تحقیق سے کئی سوالات بھی ذہن میں پیدا ہوتے ہیں: اس کے ذہن میں ''برتری'' کے احساس کو صرف مسلمانوں کے حوالے ہی سے کیوں دیکھا جا رہا ہے؟ ''برتری'' کے خیال کے تحت صرف مسلمانوں کی مساجد کو ہی دہشت گردی کا نشانہ بنانا کیوں ضروری تھا؟ کیا دنیا میں دیگر اقوام نہیں رہتیں؟ حیرت اس بات پر ہوئی کہ برطانیہ جیسے شہر میں ایک شخص تین مساجد کے احاطوں میں بم بھی نصب کرتا ہے اور اس کے بعد اس کے گھر سے بھی بم تیار کرنے والا مواد دریافت ہوتا ہے ، مگر کوئی بھی شخص اسے ''دہشت گرد'' کہنے کو تیار نہیں ہے، نہ ہی ذرایع ابلاغ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ ''دہشت گرد'' کس مذہب سے تعلق رکھتا تھا۔
11 ستمبر کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو ایسا ہی لگتا ہے کہ دہشت گرد کی اصطلاح صرف مسلمانوں کے لیے ہی مخصوص کر دی گئی ہے۔ مغربی ممالک میں جب کبھی دہشت گردی کا کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو مسلمان خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ دہشت گردی کرنے والا کہیں مسلمان ہی نہ نکل آئے! کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اس کے بعد مسلمانوں کو وسیع سطح پر ریاستی و عوامی دہشت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ برطانیہ کے معتبر رسائل، اخبارات اور ٹی وی چینلز یہ یاد دہانی کرانا کبھی نہیں بھولتے کہ جرم کا ارتکاب کرنے والا ''مسلمان'' ہے۔ مسلمانوں کے برعکس کوئی مسیحی یا یہودی اپنی مذہبی آئیڈیالوجی سے تحریک حاصل کر کے مسلمانوں کی مساجد پر حملوں کا مجرم قرار پائے یا مسلمانوں کے قبرستانوں کو مسمار کرے اور حجاب اوڑھنے والی کم سن مسلمان بچیوں پر وحشیانہ حملے کرے تو کوئی یہ نہیں کہتا کہ ایک ''مسیحی دہشت گرد'' یا ایک ''یہودی دہشت گرد'' جرائم کا ارتکاب کرتا ہوا پکڑا گیا۔ جب کوئی مسیحی یا یہودی مسلمانوں کے قبرستان کو مسمار کرے یا مساجد میں بم نصب کرے تو اسے یا تو ''نسل پرست'' کہہ کر بات کو ٹال دیا جاتا ہے یا پھر دائیں بازو کی رجعتی سیاست سے اس کا تعلق جوڑ دیا جاتا ہے۔
11ستمبر2011ء کے امریکی حملوں کے بعد مسلمانوں سے متعلق مغربی سیاستدانوں، ذرایع ابلاغ اور مقامی اتھاریٹیز کا رویہ انتہائی منفی نوعیت کا رہا ہے۔ نائن الیون امریکا میں ہوا، جس میں تین ہزار لوگ مارے گئے، مگر اس کے بعد کم و بیش تمام مغربی ممالک میں مسلمانوں پر گھنائونی نوعیت کے حملے کیے گئے۔ مسلمانوں کو بے دریغ قتل کیا گیا، حتیٰ کہ بعض سکھوں کو داڑھی کی وجہ سے مسلمان سمجھ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ مسلمانوں کی رہائشی اور کاروباری املاک کو آگ لگائی گئی، مساجد پر حملے کیے گئے ، قبرستانوں کو مسمار کیا گیا، حاملہ عورتوں پر حملے کیے گئے، معصوم مسلمان لڑکیوں کے حجاب نوچے گئے، اسلامی لٹریچر کی دکانوں کو بند کر دیا گیا، اسکولوں میں مسلمان بچوں کو انتہائی نسل پرستانہ اور مذہبی طور پر انتہا پسندانہ رویوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مسلمانوں کے ساتھ تو یہ سلوک کم و بیش تمام ''مہذب ممالک'' میں روا رکھا گیا، لیکن صرف امریکا میں 11 ستمبر کے بعد مسلمانوں پر ہونے والے حملوں میں 1600 گنا اضافہ ہوا۔ Lory Peek نے 2011ء میں اپنی کتاب "Behind the Backlash" شایع کی، جس میں مسلمانوں کے متعلق اہم انکشافات کا احوال قلمبند کیا ۔ لوری پیک نے 11 ستمبر کے بعد مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو "Second Disaster" سے تعبیر کیا ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ 11 ستمبر تو امریکا میں ہوا تھا، اور جسے امریکا اور مغرب کے اہم ترین فلسفی اور تجزیہ کار امریکی پالیسیوں کا رد عمل قرار دے چکے ہیں، تو پھر برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک میں ''اعتدال پسند'' اور ''مہذب اقوام'' کو مسلمانوں کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ برطانیہ میں رہنے والے مسلمان 2005ء میں دکھائی دینے والا وہ منظر کیسے فراموش کر سکتے ہیں جب سیکڑوں کی تعداد میں پولیس آفیسرز برمنگھم کی گلیوں میں صرف اس لیے نظر آئے کہ ''مسیحی اور یہودی دہشت گرد'' مسلمانوں کی قبروں کو مسمار کر رہے تھے۔ برمنگھم کے علاوہ جنوبی مانچسٹر میں واقع مسلمانوں کے ایک قبرستان پر جارحیت کی گئی جس کے نتیجے میں 20 قبریں تباہ ہوئیں۔ یہی نہیں، بلکہ رواں برس 23 جون کو ویلز میں مسلمانوں کی قبروں کو ایک بار پھر مسمار کیا گیا۔ برطانیہ میں مسلمانوں کے قبرستان پر حملے تو اب ایک معمول بن چکا ہے۔ تاہم اس کے علاوہ بھی مسلمانوں کے خلاف جرائم کی فہرست کافی طویل ہے۔ میٹروپولیٹن پولیس کے اعداد و شمار کے مطابق 2009ء اپریل کے بعد مسلمانوں کے خلاف 762 جرائم کا ارتکاب کیا گیا، جب کہ2010ء میں 333 جرائم منظر عام پر آئے۔
برطانیہ کی ''اسلامی کونسل'' اور مسلمان رہنمائوں نے بھی مسلمانوں کے خلاف بڑھتی ہوئی نفرت اور تعصب اور ان کے ساتھ حد درجے کے امتیازی سلوک سے متعلق اپنے خدشات کا اظہار کھل کر کیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یورپی یونین کے کل 28 ممالک میں سے صرف 6 ممالک مسلمانوں کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک سے متعلق اعداد و شمار اکٹھے کرتے ہیں، جب کہ باقی ''مہذب ممالک'' نے ایک مستقل خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ برطانیہ کے ہوم آفس کے پاس اعداد و شمار تو موجود ہوتے ہیں مگر 2012ء میں پہلی بار مذہبی نوعیت کے جرائم کے اعداد و شمار کو منظر عام پر لانے کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ 2012ء میں شایع ہونے والی ہوم آفس کی رپورٹ ''مہذب اقوام'' پر ایک کلنک کا ٹیکہ ثابت ہوئی ہے۔ صبر و تحمل، برداشت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے ملک میں 2009ء سے 2011ء تک سولہ سال سے زیادہ عمر کے مسلمانوں کے خلاف 2,167 جرائم کا ارتکاب ہوا۔ برطانوی حکومت کی فنڈنگ سے چلنے والی ایک اہم تنظیم MAMA نے کہا ہے کہ گزشتہ ایک برس میں مسلمانوں کے خلاف جو 632 جرائم سامنے آئے ہیں ان میں 58 فیصد عورتوں کے خلاف تھے۔
اگر ہم برطانیہ سے نکل کر فرانس کا رخ کریں تو ''مہذب اقوام'' کی انتہائی وحشیانہ شکل ہمارے سامنے آتی ہے۔ فرانس میں بھی مساجد پر حملے اور قبرستانوں کی تباہی معمول کے واقعات ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر جرائم کی شدت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ 2010ء کے مقابلے میں 2011ء میں مسلمانوں کے خلاف 34 فیصد جرائم کا اضافہ ہوا ہے، جب کہ انسانی حقوق سے متعلق قومی ادارے کا کہنا ہے کہ 2012ء میں نسل پرستانہ حملوں میں 23 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
فرانس کی ''نیشنل فرنٹ'' ہو یا برطانیہ میں مسلمانوں کے خلاف سر عام نعرے بلند کرنے والی '' برٹش نیشنل پارٹی'' اور ''انگلش ڈیفنس لیگ'' جیسی انتہا پسند تنظیمیں ہیں۔ برطانیہ کے وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون نے گزشتہ انتخابی مہم کے دوران ''انگلش ڈیفنس لیگ'' کے بارے میں سخت زبان محض مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے استعمال کی تھی۔ ان تنظیموں کی پشت میں بھی خفیہ ہاتھ موجود ہیں، جن کا مقصد ہی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری کو برقرار رکھنا ہے، اس کے لیے کمزور ممالک کے وسائل اور منڈیوں پر قبضے کرنا ناگزیر ہے۔ مغربی خفیہ ایجنسیاں یہ نہیں چاہتیں کہ مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نظریاتی خلیج کو کم کیا جائے، بالخصوص اس وقت جب امریکا اور مغربی سامراج نے ''تیسری دنیا'' کے ممالک کے خلاف یلغار بھی کر رکھی ہے اور تأثر یہ قائم کر رہے ہیں کہ حقیقی جنگ ''دہشت گردی'' کے خلاف ہے، اور دہشت گرد ان کے نزدیک صرف مسلمان ہی ہیں۔
مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان اس قسم کی نظریاتی خلیج کو گہرا کرنا سامراجی آئیڈیالوجی کا حصہ ہے، جس کو پروان چڑھانا اپنے اہداف و مقاصد کے حصول کے لیے لازمی ہے۔ اگر نفرت اور تعصب کم ہو گیا تو اپنے حقوق کی خاطر امریکی و مغربی عوام کا اپنے ممالک کے حکمرانوں کے خلاف کھڑا ہونا یقینی ہے۔ لہذا جب تک امریکی و مغربی سامراج ''تیسری دنیا'' میں اپنے معاشی مقاصد کو حاصل نہیں کرتا، اس وقت تک مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان نفرت اور تعصب کی ایک خاص سطح کا موجود رہے گی۔ برطانیہ کی انتہا پسند تنظیموں سے اسی لیے چند ہفتوں کے بعد مسلمانوں کے خلاف مختلف شہروں میں جلسے کرائے جاتے ہیں، جس سے نئی نسلوں کے اذہان میں بھی نسل پرستانہ اور انتہا پسندانہ مسیحیت اور یہودیت کا ارتقا جاری و ساری رہتا ہے۔