ڈیمز کی تعمیر میں تاخیر قومی جرم

ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان ڈیمز نہ بنا کر سالانہ 34 ملین ایکڑ پانی ضایع کر رہا ہے۔


Adnan Ashraf Advocate October 30, 2013
[email protected]

ایشیائی ترقیاتی بینک نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ پاکستان ڈیمز نہ بنا کر سالانہ 34 ملین ایکڑ پانی ضایع کر رہا ہے۔ 3 سال کا پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت رکھنے والا ملک حکومتی غفلت کی وجہ سے صرف ایک ماہ کا پانی (یعنی 36 واں حصہ) جمع کر رہا ہے۔ اگر حکومت نے توجہ نہ دی تو ملک کی داخلی و خارجی سلامتی ہی نہیں خطے کا امن بھی خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ پاکستان دنیا کے ان 15 ممالک میں شمار ہوتا ہے جو پانی کی دستیابی کے دباؤ کا شکار ہیں۔ بین الاقوامی پیمانے کے مطابق پاکستان میں ایک ہزار دنوں کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہے مگر نئے ڈیمز کی تعمیر میں حکومتی عدم دلچسپی کے باعث پاکستان اس سے خود کو محروم کیے ہوئے ہے۔ ذرایع کے مطابق گزشتہ حکومت نے لیزر سے زمین ہموار کرنے کے آلات اور ڈرپ ایریگیشن کے پروگرام شروع کیے تھے لیکن معلوم نہیں ان کا کیا بنا۔ بینک کے مطابق آبادی میں تیزی سے اضافہ اور زرعی معیشت رکھنے والے ملک میں پانی کی قلت خوراک کی کمی کے بحران کو جنم دے سکتی ہے۔ ملک میں بنائے جانے والے چند ڈیمز تھوڑی بہت بجلی تو پیدا کر سکتے ہیں لیکن ان میں پانی ذخیرہ کرنے کی کوئی خاص گنجائش نہیں ہے۔''

بجلی و پانی کے وزیر خواجہ آصف نے بھی خبردار کیا ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تحت پانی کی تقسیم منصفانہ نہیں تھی اس کے باوجود بھی کبھی اس پر عمل نہیں کیا گیا۔ حکومت اس سلسلے میں سنجیدہ اقدامات کرے ورنہ دس برس میں پاکستان ایتھوپیا بن جائے گا۔ کچھ عرصہ قبل محکمہ زراعت کی رپورٹ میں بھی بتایا گیا تھا کہ سندھ میں ڈیمز نہ ہونے کی وجہ سے سیلاب سے لاکھوں ایکڑ رقبے پر کپاس کی فصل بری طرح متاثر ہوئی ہے جس سے قومی خزانے کو اربوں روپوں کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ جب کہ 20 ارب سے زیادہ مالیت کا پانی سمندر میں ضایع ہو رہا ہے جو زراعت کو میسر آ سکتا تھا۔ ماہرین مبصرین قیاس آرائیاں کر رہے ہیں کہ دنیا میں مستقبل کی جنگیں آبی وسائل پر لڑی جائیں گی۔ ہمارے پڑوسی ملک ہندوستان اور چین اپنے ممالک میں سیکڑوں ڈیمز بنا کر صنعتی انقلاب برپا کر چکے ہیں دنیا بھر کی مارکیٹیں قبضہ میں کر رہے ہیں خود ہمارے ملک میں ان ممالک کی اشیا کی بھرمار ہے جن کی قیمتیں ہماری پیداواری لاگت سے بھی کم ہیں ایسی صورتحال میں ہماری صنعتیں دنیا کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں۔

سوال یہ ہے کہ ہمارے سول و فوجی حکمران، سیاستدان اور قوم پرست ڈیمز بنانے میں مخلص و سنجیدہ کیوں نہیں ہیں؟ اپنی صنعتوں اور صارفین کے لیے بجلی اور کاشتکاروں کے لیے پانی کی فراہمی اور سیلابوں کی تباہ کاریاں روکنے میں ان کے ہاتھ کس نے باندھے ہوئے ہیں؟ ہمارے ہاں ڈیمز جیسے بڑے منصوبے کے بارے میں عدم توجہی اور سیاست اور بلیک میلنگ کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا ایسا کر کے ہمارے حکمراں اور سیاستداں ملک کے سادہ لوح غریب عوام کے خلاف آبی دہشتگردی کے مرتکب ہو رہے ہیں؟ ڈیمز کی تعمیر سے متعلق عوام کی لاعلمی و غلط فہمیاں اور سیاستدانوں اور قوم پرستوں کا مخالفانہ پروپیگنڈہ سب سے بڑی رکاوٹ ہے اگر صحیح صورت حال سامنے لائی جاتی تو ملک کے کسی کونے اور کسی طبقے کی جانب سے اس کی مخالفت سامنے نہیں آتی۔

صوبوں کے درمیان پانی کی غیر منصفانہ تقسیم، پانی کی چوری یا کسی صوبے کی بالادستی کے خدشات کا تعلق ہے تو ایک بات تو یہ ہے کہ تقسیم تمام صوبوں کے نمایندوں کی موجودگی اور طے شدہ شیڈول کے مطابق ہو گی اگر چوری چکاری ہو بھی جاتی ہے تو اس کا تناسب چند فیصد سے زیادہ نہیں ہو گا۔ ہم جو اپنے استعمال سے 35 گنا پانی سمندر میں ضایع کر رہے ہیں اگر ڈیمز بنا کر اس کا ایک تہائی حصہ بھی محفوظ کر لیتے ہیں تو کسی کو چوری کی ضرورت ہو گی نہ کوئی شکایت باقی رہے گی۔

فوجی حکمرانوں ضیا الحق اور پرویز مشرف دونوں کو ایک بہت اچھا موقع ملا تھا جنہوں نے تمام سیاسی جماعتوں کو زیر کر دیا تھا۔ دونوں کے قوم پرستوں سے اچھے تعلقات تھے ضیا الحق انھیں گلدستے بھیجتے تھے تو پرویز مشرف نے بھی اپنی حکومت کا آغاز دور دراز علاقوں میں خطابات اور قوم پرستوں کے اشتراک و تعاون سے کیا تھا وہ اتنے طاقتور تھے کہ سپریم کورٹ کو تل پٹ کر کے رکھ دیا، لال مسجد آپریشن کیا، اکبر بگٹی جیسے طاقتور سیاستدان اور قوم پرست لیڈر کو خاک میں ملا دیا، بڑے بڑے قومی اور بین الاقوامی اہمیت کے حامل فیصلے تن تنہا کرتے رہے، اگر متنازعہ ڈیموں کی تعمیر پر توجہ دیتے تو ملک کی یہ حالت نہ ہوتی جو آج ہے۔ ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی توجہ صرف آئی پیز، رینٹل پاور پروجیکٹس اور ان سے وصول کیے جانے والے کمیشن اور کک بیکس پر مرکوز رہی جس کا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ پانی اور بجلی کے بعد گیس جیسی وافر اور سستی ایندھن بھی نایاب ہو چکی ہے۔ خاقان عباسی نے ایک نئی نوید سنائی ہے کہ ایران سے جو گیس درآمد کی جا رہی ہے وہ 150 فیصد مہنگی ملے گی۔ سی این جی سیکٹر کو گیس کسی صورت نہیں ملے گی، گھریلو صارفین کو صرف کھانا پکانے کے اوقات میں گیس فراہم کی جائے گی۔

توانائی کے بحران نے کارخانوں کو خاموش کر دیا ہے، تجارت ویران ہو رہی ہے، تاریکیاں گھروں، بازاروں کا مقدر بن گئی ہیں، طلبا کی پڑھائی سے لے کر اسپتالوں کے آپریشنز تک متاثر ہو رہے ہیں۔ شہری گھروں میں پانی کی موٹریں، استریاں، کمپیوٹر، ٹی وی وغیرہ وقت اور شیڈول کے مطابق نہیں چلا سکتے جب کہ اس صورتحال کے ذمے دار حکمراں و سیاستدان جلسے جلوسوں اور میڈیا پر آکر بڑی ہٹ دھرمی سے ایک دوسرے پر الزام اور اپنے خودساختہ کارناموں اور نیکیوں کی فہرستیں پیش کرتے اور ایک دوسرے سے بڑھ کر خود کو قوم کا محسن، خادم اور نجات دہندہ ثابت کرنے کی غرض سے ہر قسم کی گمراہی، دروغ گوئی اور لفاظی کرنے میں ذرا عار محسوس نہیں کرتے ہیں یہ لوگ بجلی کی قلت پر نوحہ خوانی کرنے کے بجائے بجلی پیدا کرنیوالی کمپنیوں کی کارکردگی اور فیول بچانے کے لیے غیر ضروری لوڈشیڈنگ اور بریک ڈاؤن کا جائزہ کیوں نہیں لیتے ان سے ہونیوالے معاہدات کو زیر بحث کیوں نہیں لاتے؟ ان کو مطلوبہ مقدار میں بجلی فراہم کرنے پر مجبور کیوں نہیں کرتے؟

انھیں ناقص کارکردگی کے باوجود غریب عوام کے ٹیکسز سے اربوں روپے کی گرانٹ کیوں دی جاتی ہے؟ انھیں معاہدات پر عمل درآمد کرنے پر مجبور یا خلاف ورزی کی صورت میں معاہدے منسوخ کر کے قومی تحویل میں کیوں نہیں لیا جاتا؟ نجی کمپنیوں، کرائے کے بجلی گھروں کی بھول بھلیوں میں ڈیمز کی تعمیر کو کیوں فراموش کیا جا رہا ہے؟ پانی کے ذخائر کے لیے کوئی حکمت عملی کیوں طے نہیں کی جا رہی ہے؟ غیر قانونی ہائیڈرنٹس پمپس اور ٹینکر مافیا کو ختم نہ کرنے میں کون سا مفاد وابستہ ہے جو قومی خزانے اور عوام کی جیبوں پر ڈاکہ ڈال رہے ہیں پانی کی چوری میں پانی کی خاصی مقدار ضایع ہونے کے علاوہ سڑکوں کی تباہی اور ٹریفک میں خلل اور حادثات کے مرتکب ہو رہے ہیں۔

مختلف ڈیمز تعمیر نہ کرنے کی وجہ سے ہماری معیشت اور معاشرت کا بھرکس نکل گیا ہے۔ ہماری بین الاقوامی گداگری اور اندرونی و بیرونی دہشت گردی میں ایک بڑا عنصر یہ بھی ہے اس گمبھیر صورت حال میں حکمرانوں، سیاستدانوں، سماجی رہنماؤں، تنظیموں، قلمکاروں اور خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس سلسلے میں عوام میں شعور و آگہی پیدا کریں ان کے تحفظات اور غلط فہمیاں دور کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ اشتہارات اور تحریری مواد کے ذریعے سلوگن، نغمے اور دستاویزی فلمیں پیش کر کے ان منصوبوں کی افادیت اور ناگزیریت کا احساس دلائیں عدم تعمیر کی صورت میں اس کے نقصانات اور تباہ کاریوں سے آگاہ کیا جائے اس مقصد کے لیے اسکولوں اور کالجوں کو خاص طور پر ایک موثر ذریعے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں