چوڑیوں سے خالی کلائیاں
اس ملک کے تمام شہر خوبصورت کتاب کی مانند ہیں۔ جس میں مختلف باب ہیں اور مختلف کہانیاں اور کردار بستے ہیں۔
اس ملک کے تمام شہر خوبصورت کتاب کی مانند ہیں۔ جس میں مختلف باب ہیں اور مختلف کہانیاں اور کردار بستے ہیں۔ ان شہروں کی اپنی الگ ثقافت، رہن سہن اور موسم ہیں۔ حیدر آباد بھی پاکستان کا منفرد شہر ہے۔ اس کے دل کے قریب سے دریائے سندھ بہتا ہے۔ یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں، بمبئی بیکری، حافظ کی ربڑی، ہینڈی کرافٹس ہی مشہور نہیں ہیں بلکہ اس شہر کی پہچان چوڑیاں بھی ہیں۔ یہ شہر چوڑیوں کی صنعت کا مرکز کہلاتا ہے۔ یہ چوڑیاں لڑکیوں اور خواتین میں بہت مقبول ہیں۔ یہ رنگ برنگی جھلملاتی چوڑیاں نظروں کو بے اختیار اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ملک ہو یا ملک سے باہر لوگ ہر آنے جانے والے مسافروں سے چوڑیوں کی فرمائش کرتے ہیں۔ یہاں ہزاروں لاکھوں لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں۔ یہ قوس قزح کے رنگوں سے مزین نازک و نفیس چوڑیاں جو کلائیوں کی زینت بن کر نسوانی حسن میں چار چاند لگا دیتی ہیں۔ بہت ہی محنت طلب مرحلے سے گزر کر تشکیل پاتی ہیں۔
ابتدائی مرحلے میں یہ فیکٹری میں تیاری کے پہلے مرحلے سے گزرتی ہیں ریت، سوڈا، ایش، لائم، بوریکس کو ملا کر میٹریل تیار کر کے اسے بھٹی میں 1500 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کر کے شیشہ بنایا جاتا ہے۔ پھر اس گرم کردہ نرم شیشے کو لوہے کے پائپ پر لپیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے جو سلینڈر کے روپ میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ اسے ایک اور بھٹی میں ڈال کر رولر کٹر کی مدد سے ایک اسپرنگ یا کوائل کی شکل میں کاٹا جاتا ہے جس کے بعد اس اسپرنگ سے کٹر کی مدد سے ایک ایک چوڑی الگ کاٹی جاتی ہے جس کے دو سرے ہوتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یہ چوڑیاں گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں جہاں ایک اور تھکا دینے والا کام عورتوں اور بچوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ جسے جوڑائی اور سدھائی کا نام دیا جاتا ہے۔ چوڑی کے سروں کو آگ کے شعلے پر گرم کرکے نرم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں کی مدد سے دونوں سروں کو جوڑ کر گول چوڑی کا روپ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چوڑی کو آگ پر مزید گرم کر کے نرم شیشے کو ہاتھوں کے ہلکے زور سے صاف اور سیدھا کیا جاتا ہے تا کہ اس کی سطح ہموار رہے اور جوڑ بھی نمایاں نہ لگے۔ آخری مرحلے میں چوڑی کی ڈیزائننگ اور رنگ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ یوں ہر چوڑی تقریباً پچاس سے ساٹھ لوگوں کے ہاتھوں سے گزرتی ہے اور پھر کہیں جا کر دکانوں کی شیلف میں سجائی جاتی ہیں۔
حیدرآباد میں واقع چوڑی محلہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ تنگ گلیوں سے گزر کے جب ہم گھروں میں داخل ہوئے تھے تو ان ایک یا دو کمروں کے گھروں میں دس سے بارہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ گھروں میں چھوٹے بچے اسکول جانے کے بجائے کام میں ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس وقت بھی ایک گھر میں یہ مشکل کام ہوتے دیکھ رہی تھی۔ تیرہ سالہ لڑکی صفیہ چوڑی کے سروں کو آگ کے شعلے پر گرم کر کے اسے گول چوڑی کا روپ دے رہی تھی۔ برآمدہ تندور کی طرح تپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر بتر تھا۔ بار بار اس کے ہاتھ جلتے اور اس کے اداس چہرے پر تکلیف کے آثار پیدا ہو جاتے۔ اس کے کام کا معاوضہ بہت کم تھا۔ پورا دن گھر کے افراد آگ پر کھڑے ہو کر یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ گرمیوں میں ان کی حالت خراب ہو جاتی۔ اس چھوٹے سے تنگ و تاریک گھر میں ہوا اور روشنی کا کم ہی گزر تھا۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی اس کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ جوڑائی اور سدھائی کے دوران وہ لوگ پنکھا بند رکھتے ہیں۔ حبس زدہ کمرے میں انھیں مسلسل ایک ہی پوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ ان کی پیٹھ اور کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔ مستقل آگ پر کام کرتے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ عورتوں اور بچوں کے ہاتھ جل جاتے ہیں۔ مسلسل آگ کو دیکھتے رہنے سے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں۔ علاوہ ازیں دھوئیں اور چوڑیوں کی رنگائی میں استعمال ہونے والے کیمیائی اجزا کا اخراج ان محنت کشوں کو دمے و چمڑی کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور ناقص غذا کے باعث مزدور علاج کرانے سے قاصر ہیں۔
صفیہ کام میں مگن تھی۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے تاریک سائے لہرا رہے تھے۔ مگر آنکھوں کی روشنی میں خواب جھلملاتے ہیں۔ وہ چھٹی جماعت کی طالبہ ہے۔ گھر میں فقط وہی اسکول جاتی ہے۔ کیونکہ اسے علم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ لیکن ماں کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اسے اکثر چوڑیوں کے کام کی خاطر مجبوراً اسکول سے چھٹی کرنی پڑتی ہے۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہم جہاں جاتے بچوں کی فوج ہمارا پیچھا کرتی۔ ان بچوں کے چہرے فطری خوشی کے تاثر سے خالی تھے۔ یہ بھی اسکول جانے کا سوچتے ہوں گے۔ مگر حالات کے پیش نظر گلیوں میں بھٹکتے ہیں یا پھر تنگ و تاریک گھروں میں چوڑی کا کام کرتے ہیں۔ چوڑی کی صنعت میں چھوٹے بچے زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ والدین بھی زندگی کی گاڑی کھینچنے کی خاطر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بھی یہ صنعت متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔
بچوں کے ہاتھ خالی تھے۔ ایسے بچے شاید دکھ کے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ ایسی مفلوک الحال جگہوں پر اکثر مایوس منظر دکھائی دیتے ہیں۔ لڑکیوں کی اپنی کلائیاں چوڑیوں سے خالی تھیں۔ یہ ایسے دیے کی طرح دکھائی دیں جو خود اندھیروں میں رہ کر روشنی بانٹتا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والی عورتیں فکرمند تھیں کہ ان کے حالات دن بہ دن بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے بھی یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ وہاں کئی لاکھ لوگ ایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں جو ان کا کچن اور واش روم بھی ہے۔ یہ تمام مناظر تکلیف دہ زندگی کے مظہر ہیں۔ جہاں زندگی گزرتی نہیں بلکہ گھسیٹی جاتی ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق و بنیادی ضرورت کو تحفظ فراہم کرے۔ انھیں صحت مند غذا اور صاف پانی مہیا کرے، جیسا کہ ایشیا کے اکثر ملکوں میں بہتر صورت حال پائی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں غذا، صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں۔ جہاں کھانے کی اشیا سستی اور پرتعیش چیزیں مہنگی ہیں۔ بعض ملکوں میں جہاں ضروریات زندگی مہنگی ہیں تو وہاں مزدور کو بہتر معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو غریب آدمی مسلسل خسارے میں ہے۔ اس کی زندگی کی بہتری کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے۔
حیدر آباد میں بننے والی چوڑیاں معیار، رنگ اور منفرد ڈیزائن کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں۔ یہ چوڑیاں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، ملائیشیا و مڈل ایسٹ برآمد کی جاتی ہیں۔ انڈیا میں فیروز پور کی صنعت میں چوڑیاں بنتی ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہمارا مقابلہ انڈیا کی چوڑیوں کی صنعت سے ہے۔ لیکن فیروز پور میں واقع چوڑیوں کی صنعت ہماری صنعت کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
عید کا موقع ہو یا شادی کی شاپنگ ہو خواتین کی تیاری چوڑیوں کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ دلہن کی خوبصورتی چاہے سونے کے زیور سے آراستہ کیوں نہ ہو مگر شیشے کی چوڑیوں سے سجی کلائیاں مشرقی دلہن کے حسن کو مکمل بناتی ہیں۔
حیدر آباد میں واقع چوڑیوں کی صنعت کے لیے کہا جاتا ہے کہ اسے سائٹ ایریا میں منتقل کیا جائے۔ کارخانوں میں ڈسٹ کلیکٹر کا انتظام ہونا چاہیے۔ وہاں ہوا و روشنی کا مناسب گزر ہو۔ کوئلے کی بجائے گیس استعمال کی جانی چاہیے تو دھوئیں کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے، دوسری جانب بھٹی کا شور بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ان مزدوروں کی سماجی و معاشی حالت بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کے جبری کام پر بھی پابندی لگانی چاہیے جو دن رات چوڑی کے کارخانوں میں بلاناغہ کام کرتے ہیں۔ کاروباری طبقہ جو دن رات اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا رہتا ہے، انھیں بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ کیونکہ معاشرے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر انتشار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جس دن اس ملک کے مزدوروں، کسانوں و محنت کشوں کے گھروں پر خوشحالی دستک دے گی، معاشرتی تضادات کی طغیانی میں ٹھہراؤ پیدا ہو جائے گا۔ نہ جانے وہ روشن دن کتنا دور ہے!
ابتدائی مرحلے میں یہ فیکٹری میں تیاری کے پہلے مرحلے سے گزرتی ہیں ریت، سوڈا، ایش، لائم، بوریکس کو ملا کر میٹریل تیار کر کے اسے بھٹی میں 1500 ڈگری سینٹی گریڈ پر گرم کر کے شیشہ بنایا جاتا ہے۔ پھر اس گرم کردہ نرم شیشے کو لوہے کے پائپ پر لپیٹ کر باہر نکالا جاتا ہے جو سلینڈر کے روپ میں ڈھال دیا جاتا ہے۔ اسے ایک اور بھٹی میں ڈال کر رولر کٹر کی مدد سے ایک اسپرنگ یا کوائل کی شکل میں کاٹا جاتا ہے جس کے بعد اس اسپرنگ سے کٹر کی مدد سے ایک ایک چوڑی الگ کاٹی جاتی ہے جس کے دو سرے ہوتے ہیں۔ دوسرے مرحلے میں یہ چوڑیاں گھروں میں پہنچائی جاتی ہیں جہاں ایک اور تھکا دینے والا کام عورتوں اور بچوں کے لیے مختص ہوتا ہے۔ جسے جوڑائی اور سدھائی کا نام دیا جاتا ہے۔ چوڑی کے سروں کو آگ کے شعلے پر گرم کرکے نرم کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہاتھوں کی مدد سے دونوں سروں کو جوڑ کر گول چوڑی کا روپ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد چوڑی کو آگ پر مزید گرم کر کے نرم شیشے کو ہاتھوں کے ہلکے زور سے صاف اور سیدھا کیا جاتا ہے تا کہ اس کی سطح ہموار رہے اور جوڑ بھی نمایاں نہ لگے۔ آخری مرحلے میں چوڑی کی ڈیزائننگ اور رنگ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ یوں ہر چوڑی تقریباً پچاس سے ساٹھ لوگوں کے ہاتھوں سے گزرتی ہے اور پھر کہیں جا کر دکانوں کی شیلف میں سجائی جاتی ہیں۔
حیدرآباد میں واقع چوڑی محلہ ایک گنجان آباد علاقہ ہے۔ تنگ گلیوں سے گزر کے جب ہم گھروں میں داخل ہوئے تھے تو ان ایک یا دو کمروں کے گھروں میں دس سے بارہ لوگ رہائش پذیر تھے۔ گھروں میں چھوٹے بچے اسکول جانے کے بجائے کام میں ماں باپ کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ اس وقت بھی ایک گھر میں یہ مشکل کام ہوتے دیکھ رہی تھی۔ تیرہ سالہ لڑکی صفیہ چوڑی کے سروں کو آگ کے شعلے پر گرم کر کے اسے گول چوڑی کا روپ دے رہی تھی۔ برآمدہ تندور کی طرح تپ رہا تھا۔ اس کا چہرہ پسینے سے تر بتر تھا۔ بار بار اس کے ہاتھ جلتے اور اس کے اداس چہرے پر تکلیف کے آثار پیدا ہو جاتے۔ اس کے کام کا معاوضہ بہت کم تھا۔ پورا دن گھر کے افراد آگ پر کھڑے ہو کر یہ کام سر انجام دیتے تھے۔ گرمیوں میں ان کی حالت خراب ہو جاتی۔ اس چھوٹے سے تنگ و تاریک گھر میں ہوا اور روشنی کا کم ہی گزر تھا۔ اس کے چھوٹے بہن بھائی بھی اس کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔ اس نے بتایا کہ جوڑائی اور سدھائی کے دوران وہ لوگ پنکھا بند رکھتے ہیں۔ حبس زدہ کمرے میں انھیں مسلسل ایک ہی پوزیشن میں بیٹھنا پڑتا ہے۔ ان کی پیٹھ اور کمر میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگتی ہیں۔ مستقل آگ پر کام کرتے رہنا صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔ عورتوں اور بچوں کے ہاتھ جل جاتے ہیں۔ مسلسل آگ کو دیکھتے رہنے سے آنکھیں دکھنے لگتی ہیں۔ علاوہ ازیں دھوئیں اور چوڑیوں کی رنگائی میں استعمال ہونے والے کیمیائی اجزا کا اخراج ان محنت کشوں کو دمے و چمڑی کی بیماریوں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ ماحولیاتی آلودگی اور ناقص غذا کے باعث مزدور علاج کرانے سے قاصر ہیں۔
صفیہ کام میں مگن تھی۔ اس کے چہرے پر مایوسی کے تاریک سائے لہرا رہے تھے۔ مگر آنکھوں کی روشنی میں خواب جھلملاتے ہیں۔ وہ چھٹی جماعت کی طالبہ ہے۔ گھر میں فقط وہی اسکول جاتی ہے۔ کیونکہ اسے علم حاصل کرنے کا شوق ہے۔ لیکن ماں کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اسے اکثر چوڑیوں کے کام کی خاطر مجبوراً اسکول سے چھٹی کرنی پڑتی ہے۔ ان گھروں میں رہنے والے لوگ کسمپرسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ گلی میں بچے کھیل رہے تھے۔ ہم جہاں جاتے بچوں کی فوج ہمارا پیچھا کرتی۔ ان بچوں کے چہرے فطری خوشی کے تاثر سے خالی تھے۔ یہ بھی اسکول جانے کا سوچتے ہوں گے۔ مگر حالات کے پیش نظر گلیوں میں بھٹکتے ہیں یا پھر تنگ و تاریک گھروں میں چوڑی کا کام کرتے ہیں۔ چوڑی کی صنعت میں چھوٹے بچے زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ والدین بھی زندگی کی گاڑی کھینچنے کی خاطر بچوں کو اسکول بھیجنے کے بجائے کام پر لگا دیتے ہیں۔ چائلڈ لیبر کی وجہ سے بھی یہ صنعت متنازعہ سمجھی جاتی ہے۔
بچوں کے ہاتھ خالی تھے۔ ایسے بچے شاید دکھ کے کھلونوں سے کھیلتے ہیں۔ ایسی مفلوک الحال جگہوں پر اکثر مایوس منظر دکھائی دیتے ہیں۔ لڑکیوں کی اپنی کلائیاں چوڑیوں سے خالی تھیں۔ یہ ایسے دیے کی طرح دکھائی دیں جو خود اندھیروں میں رہ کر روشنی بانٹتا ہے۔ اس علاقے میں رہنے والی عورتیں فکرمند تھیں کہ ان کے حالات دن بہ دن بہتر ہونے کے بجائے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ کراچی کے حوالے سے بھی یہ خبر شایع ہوئی تھی کہ وہاں کئی لاکھ لوگ ایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں جو ان کا کچن اور واش روم بھی ہے۔ یہ تمام مناظر تکلیف دہ زندگی کے مظہر ہیں۔ جہاں زندگی گزرتی نہیں بلکہ گھسیٹی جاتی ہے۔ ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے کہ وہ شہریوں کے حقوق و بنیادی ضرورت کو تحفظ فراہم کرے۔ انھیں صحت مند غذا اور صاف پانی مہیا کرے، جیسا کہ ایشیا کے اکثر ملکوں میں بہتر صورت حال پائی جاتی ہے۔ ان ملکوں میں غذا، صاف پانی اور صحت کی بنیادی سہولتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر نہیں ہیں۔ جہاں کھانے کی اشیا سستی اور پرتعیش چیزیں مہنگی ہیں۔ بعض ملکوں میں جہاں ضروریات زندگی مہنگی ہیں تو وہاں مزدور کو بہتر معاوضہ دیا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں تو غریب آدمی مسلسل خسارے میں ہے۔ اس کی زندگی کی بہتری کے کہیں آثار دکھائی نہیں دیتے۔
حیدر آباد میں بننے والی چوڑیاں معیار، رنگ اور منفرد ڈیزائن کی وجہ سے پوری دنیا میں پسند کی جاتی ہیں۔ یہ چوڑیاں سری لنکا، بنگلہ دیش، نیپال، ملائیشیا و مڈل ایسٹ برآمد کی جاتی ہیں۔ انڈیا میں فیروز پور کی صنعت میں چوڑیاں بنتی ہیں۔ بین الاقوامی مارکیٹ میں ہمارا مقابلہ انڈیا کی چوڑیوں کی صنعت سے ہے۔ لیکن فیروز پور میں واقع چوڑیوں کی صنعت ہماری صنعت کے مقابلے میں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
عید کا موقع ہو یا شادی کی شاپنگ ہو خواتین کی تیاری چوڑیوں کے بغیر ادھوری رہ جاتی ہے۔ دلہن کی خوبصورتی چاہے سونے کے زیور سے آراستہ کیوں نہ ہو مگر شیشے کی چوڑیوں سے سجی کلائیاں مشرقی دلہن کے حسن کو مکمل بناتی ہیں۔
حیدر آباد میں واقع چوڑیوں کی صنعت کے لیے کہا جاتا ہے کہ اسے سائٹ ایریا میں منتقل کیا جائے۔ کارخانوں میں ڈسٹ کلیکٹر کا انتظام ہونا چاہیے۔ وہاں ہوا و روشنی کا مناسب گزر ہو۔ کوئلے کی بجائے گیس استعمال کی جانی چاہیے تو دھوئیں کے مضر اثرات سے بچا جا سکتا ہے، دوسری جانب بھٹی کا شور بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے۔ ان مزدوروں کی سماجی و معاشی حالت بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کے جبری کام پر بھی پابندی لگانی چاہیے جو دن رات چوڑی کے کارخانوں میں بلاناغہ کام کرتے ہیں۔ کاروباری طبقہ جو دن رات اپنی تجوریاں بھرنے میں لگا رہتا ہے، انھیں بھی اپنے رویے میں تبدیلی لانی چاہیے۔ کیونکہ معاشرے دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کی بنیاد پر انتشار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ جس دن اس ملک کے مزدوروں، کسانوں و محنت کشوں کے گھروں پر خوشحالی دستک دے گی، معاشرتی تضادات کی طغیانی میں ٹھہراؤ پیدا ہو جائے گا۔ نہ جانے وہ روشن دن کتنا دور ہے!