کیا ہم اول درجے کے ضدی ہیں
6 اپریل 1928ء کو بھارت سبھا کے نوجوان سیکریٹری نشر و اشاعت بی سی وہرا نے اروبنز پریس لاہور سے اپنا منشور چھپوا کر...
6 اپریل 1928ء کو بھارت سبھا کے نوجوان سیکریٹری نشر و اشاعت بی سی وہرا نے اروبنز پریس لاہور سے اپنا منشور چھپوا کر شایع کیا جو مندرجہ ذیل تھا۔ ہمارا ملک بد نظمی کے دور سے گزر رہا ہے۔ ہر طرف بد اعتمادی اور مایوسی کا راج ہے۔ عظیم سیاسی رہنمائوں کا نصب العین پر یقین اٹھ گیا ہے اور ان میں سے بیشتر کو عوام کا اعتماد بھی حاصل نہیں رہا۔ ہندوستانی آزادی کے پشتی بانوں کے پاس کوئی جذبہ اور دستور العمل نہیں ہے ۔ ہر طرف بد نظمی کا راج ہے مگر قوم کی تشکیل کے عمل میں بدنظمی ایک ناگزیر اور ضروری دور ہوتا ہے۔ اس دوران کارکنوں کی وفاداری کی آزمائش ہوتی ہے، ان کا کردار تعمیر ہوتا ہے، حقیقی پروگرام ترتیب پاتا ہے اور پھر نئے جو ش، نئی امید، نئے یقین اور جذبے سے کام شروع ہو جاتاہے۔ ہم نہایت خوش قسمت ہیں کہ ایک نئے دور کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ یہ تاریخی سوال کہ ''تم پر تلوار سے حکومت کی جائے یا قلم سے'' اب جواب طلب نہیں رہا۔ جن لوگوں نے ہمارے سامنے یہ سوال رکھا تھا انھوں نے خود اس کا جواب دے دیا ہے۔ لارڈ برکن ہیڈ کے الفاظ میں ''ہم نے ہندوستان کو تلوار سے فتح کیا اور تلوار ہی سے اسے اپنے ساتھ رکھیں گے۔'' اس صاف گوئی کا شکریہ، اب ہر بات واضح ہو گئی ہے۔
تیل اور کانوں کے بھر پور ذخائر والا ہندوستان آج دنیا کا غریب ترین ملک ہے، ہندوستان جو کہ اپنے شاندار تہذیبی ورثے پر فخر کر سکتا ہے، آج پانچ فیصد خواندگی کے ساتھ دنیا کا پسماندہ ترین ملک ہے۔ کیا لوگ نہیں جانتے کہ دنیا میں ہر سال سب سے زیادہ انسانی اموات ہندوستان میں ہوتی ہیں اور یہاں بچوں میں موت کی شرح بھی دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ طاعون، ہیضہ، انفلوئنزا اور دوسرے وبائی امراض دن بدن عام ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کیا ہمارے لیے بار بار یہ سننا شرمناک بات نہیں کہ ہم حکومت خود اختیار ی کے اہل نہیں ہیں۔ کیا یہ ذلت کی بات نہیں کہ ہمارے ہیرو گورو گووند سنگھ، شیوا جی اور ہری سنگھ ہوں اور ہمیں کہا جائے کہ ہم اپنے دفاع کے قابل نہیں۔ افسوس، ہم نے خود کو اس کے بر عکس ثابت کر نے کے لیے کچھ نہیں کیا۔ کیا اب ہمیں الہام کے ذریعے یہ احساس ہو گا کہ ہم غلام بنائے جا چکے ہیں اور ہمیں آزاد ہونا ہے۔ کیا ہمیں کسی ایسے دانا کا انتظار کر نا ہو گا جو آ کر ہمیں احساس دلائے کہ ہم کچلے ہوئے لوگ ہیں۔ کیا ہم خدائی مدد یا کسی معجزے کے منتظر ہیں جو ہمیں غلامی سے نجات دلائے گا۔ کیا ہم آزاد ی کے بنیادی اصولوں سے ناواقف ہیں ''جو آزاد ہونا چاہتے ہیں وہی گھو نسا مارتے ہیں'' نوجوانو، جاگو، اٹھو، ہم بہت سو لیے۔
انسانی ترقی کی تمام تر تاریخ نوجوان مر د و خواتین کے خون سے لکھی ہے ، اور اس لیے کہ ہمیشہ نوجوانوں کی طاقت ، قربانی اور جذباتی یقین سے ہی اصلاحات وجود میں آتی ہیں، نوجوان خو ف سے ناآشنا ہوتے ہیں اور سو چنے سے زیادہ محسوس کرتے ہیں۔ کیا یہ جاپان کے نوجوان نہیں تھے جنہوں نے پورٹ آرتھر تک خشک راستہ بنانے کے لیے سیکڑوں کی تعداد میں خود کو کھائیوں کی نذر کر دیا ۔ آج جاپان کا شمار دنیا کی بڑی اقوام میں ہوتا ہے۔ کیا یہ پولینڈ کے نوجوان نہیں تھے جو بار بار لڑے اور ناکام رہے۔ گزشتہ پوری صدی میں وہ ایک بار پھر بہادری سے لڑتے رہے آج ہم پولینڈ کو آزاد ملک کے طور پر دیکھتے ہیں۔ اٹلی کو آسٹریا کی غلامی سے کس نے آزاد کروایا ۔ نوجوانوں نے۔ کیا آپ نوجوان ترکوں کے حیران کن کارناموں سے آگاہ ہیں کیا آپ روزانہ نہیں پڑھتے کہ نوجوان چینی کیا کر رہے ہیں، کیا یہ نوجوان روسی نہیں تھے جنہوں نے اپنی جانیں روس کی آزادی کے لیے قربان کر دیں۔ گزشتہ صدی میں ہزاروں روسی نوجوانوں کو محض اشتراکی پمفلٹ تقسیم کرنے یا بقول دستو فسکی اشتراکی مباحثوں کی مجلس سے تعلق کے الزام میں سائبیریا جلا وطن کر دیا گیا۔ انھوں نے بار بار استبداد کے طوفانوں کا سامنا کیا تاہم حوصلہ نہیں ہارا۔
یہ نوجوان ہی تھے جو لڑتے رہے اور نوجوان امید، خو ف اور ہچکچاہٹ کے بغیر لڑ سکتے ہیں۔ آج ہم عظیم روس کو دنیا بھر کے نجا ت دہندہ کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہندوستانی کیا کر رہے ہیں پیپل کے درخت کی شاخ کٹ جائے تو ہندوئوں کے مذہبی جذبات مجروح ہو جاتے ہیں اور مسلمان ہندوئوں کے خون سے کم کسی بات پر مطمئن نہیں ہوتا۔ انسانوں کو جانوروں سے زیادہ اہمیت دی جانی چاہیے جب کہ ہندوستان میں لوگ ابھی تک مقدس جانوروں کے نام پر ایک دوسرے کا سر پھوڑتے ہیں مذہبی ضعیف الاعتقادی اور تعصب ہماری ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہیں۔ یہ ہمارے راستے کی دیوار ثابت ہوئے ہیں اور ہمیں ان سے ہر صورت چھٹکارا پانا ہے جو شے آزاد سوچ برداشت نہیں کر سکتی اسے ہر صورت تلف ہو جانا چاہیے، ایسی اور بہت سی کمزوریاں ہیں جن پر ہمیں قابو پانا ہے۔ ہندوئوں کی رجعت پسندی اور دقیانوسی پن، مسلمانوں کا ماورائے وطن نظریہ اور تعصب نیز عمومی طور پر طبقات کی تنگ نظری سے غیر ملکی دشمن نے ہمیشہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مقصد کے حصول کے لیے تمام طبقات سے انقلابی جوش کے حامل نوجوانوں کے اکٹھا ہونے کی ضرورت ہے۔
وہ لگ بھگ ایک صدی قبل ہی اس نتیجے پر پہنچ چکے تھے کہ مذہبی ضعیف الاعتقادی، تعصب بنیاد پر ستی سب سے بڑی لعنتیں ہیں اور ترقی و خوشحالی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ہم میں اور پوری دنیا میں جو واضح فرق ہے وہ یہ ہے کہ ہم صدیوں بعد بھی یہ ثابت کرنے پر تلے ہوئے ہیں کہ سماج کے سارے مسائل کا حل بنیاد پرستی میں موجود ہے جب کہ دنیا اپنے تلخ سفر کے اختتام کے بعد اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سماج کے تمام مسائل اور برائیوں کی ذمے دار بنیاد پرستی ہے۔ لاکھوں برس کے معاشرتی ارتقا کے نتیجے میں انسانی نفسیات میں جو جبلی اور ذہنی رویے پیدا ہوئے ہیں بنیاد پرستی اور رجعت پرستی ان میں منفی پہلوئو ں پر انحصار کرتی ہے۔ وہ علم سے خوف کھاتی ہے بنیاد پرست اور رجعت پرست مذہبی احکامات اور عقائد کی تعبیر اور تشریح پر اپنی مکمل اجارہ داری چاہتا ہے ان کا دعوی ٰ ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل صرف اور صرف ان کے پاس ہے وہ انسانی مساوات کے انکاری ہیں وہ کسی دوسرے عقید ے سے تعلق رکھنے والوں کو یکساں حقوق دینے کے مستحق نہیں سمجھتے وہ انسانی عقل کو سرے ہی سے قابل اعتبار نہیں سمجھتے ان کے نزدیک غور و فکر، اختلاف رائے اور ذاتی نقطہ نظر کفر کے زمرے میں آتے ہیں۔ بنیاد پرستی اور جعت پرستی ظلمت پرستوں کا آخری حربہ ہے جو خدا کی حاکمیت کی آڑ میں تنگ نظر ملائوں کا راج قائم کرنا چاہتے ہیں۔
اور عوام کو ان کے پیدائشی حق سے محروم کرنا چاہتے ہیں، بنیاد پرست اور رجعت پرست کی نفسیات خوف، عدم تحفظ اور خود پسندی جیسے عناصر سے تشکیل پاتی ہے۔ ہم اتنے معصوم واقع ہوئے ہیں کہ بنیاد پرستی اور رجعت پر ستی میں اپنی نجات ڈھو نڈ رہے ہیں صدیوں بعد بھی ہم بھٹکتے پھر رہے ہیں اندھیروں سے اپنا سر ٹکرا رہے ہیں ہم ائیر پورٹ پر شپ کا انتظار کر رہے ہیں اور بضد ہیں کہ شپ ضرور آئیگا کیا ہم پوری دنیا سے زیادہ سمجھدار۔ ہوشیار اور ذہین ہیں پوری دنیا ایک سمت میں چل رہی ہے اور ہم اس کی مخالف سمت میں اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اصل میں بات یہ ہے کہ ہم اول درجے کے ضد ی ثابت ہوئے ہیں ایک بات پر اڑ گئے تو پھر اس پر اٹل رہتے ہیں کیونکہ مرد کی ایک زبان ہوتی ہے ظاہر ہے پوری دنیا کو نہ تو اپنی عزت اور زبان کا پاس ہے اور نہ ہی اپنی آن و بان کا جب کہ ہم غیر ت کے سب سے بڑے علمبردار ہیں۔ دنیا کو ہو نہ ہو ہمیں اپنی غیرت اپنی جان سے زیادہ پیاری ہے۔ ہمارا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جائے خواہ ہم تباہ و برباد ہی کیوں نہ ہو جائیں ہم بنیاد پرستی، رجعت پرستی، تعصب، مذہبی ضعیف الاعتقادی کا دامن ہر گز ہر گز نہ چھوڑینگے کیونکہ ہم اول درجے کے ضدی ہیں۔